اسلام آباد: امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی جانب سے امریکیوں کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں معاونت کے لیے ویزے جاری کرنے کے معاملے پر دفاعی تجزیہ کار شہزاد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو حسین حقانی کے کارناموں کی قیمت ادا نہ کرے۔

ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا رخ میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد چوہدری نے کہا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا حسین حقانی کو لکھا گیا خط لیک ہونے کے معاملے کی انکوائری ہونی چاہیے۔

دفاعی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ پی پی پی کو اس معاملے میں دلچسپی لینا چاہیے کیوں کہ اس معاملے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا نام سامنے آرہا ہے۔

پر پی پی پی کے رہنما عاجز دھامرا نے کہا کہ امریکیوں کو ویزوں کے اجرا کے لیے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا خط منظر عام پر آنے کے بعد سابق وزیراعظم نے اسے تسلیم کیا۔

عاجز دھامرا کے مطابق اس معاملے پر سینیٹ میں تفصیلی بحث ہوئی جس کے دوران چیئرمین سینیٹ نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ جنرل مشرف کے دور میں امریکی بغیر ویزا اور امیگریشن کے پاکستان آتے جاتے رہے ہیں، اس لیے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کے معاملے پر ایک کمیشن بننا چاہیے، تاکہ معلوم ہو کہ اسامہ بن لادن کو ویزا پر آنے والے امریکیوں نے ڈھونڈا یا اس سے قبل بغیر ویزا آنے والوں نے تلاش کیا۔

مزید پڑھیں:’سیکیورٹی ونگزکی مشاورت کے بغیرامریکیوں کوویزے جاری نہیں ہوئے‘

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن)) کے رکن قومی اسمبلی اویس لغاری نے کہا کہ حسین حقانی کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اس نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے کے لیے امریکیوں کی پاکستانی سرزمین تک رسائی میں مدد کی تھی ۔

اویس لغاری کاکہنا تھاکہ یہ معاملہ اس وقت حکومت کی جانب سے بطور چیئرمین خارجہ امور کمیٹی (فارن ریلیشن کمیٹی) میں نے معاملہ اٹھایا، جس پر پی پی پی رہنما خورشید شاہ بات کو گول کر گئے، اس کے بعد وزیر دفاع نے اس معاملے کی تفتیش کے لیے پارلیمانی کمیشن کی تجویز پیش کی ۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے مزید کہا کہ اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے خارجہ امور کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی، کہ وہ اس معاملے کو دیکھے اب پیپلز پارٹی کو اس معاملے پر وضاحت دینا ہو گی کہ امریکیوں کو ویزوں کے اجرا کے لیے خصوصی خط کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں کہ یہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر بہت بڑا سوال آ گیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 10 مارچ کو حسین حقانی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما انتظامیہ کے ساتھ ان کے تعلقات کا مقصد دراصل پاکستان میں موجود اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں مدد فراہم کرنا تھا۔

آرٹیکل میں حسین حقانی نے لکھا، 'اوباما کی صدارتی مہم کے دوران بننے والے دوستوں نے،امریکی قومی سلامتی میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے 3 سال بعد ان سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے حوالے سے مدد مانگی'۔

اپنے دوستوں کی جانب سے مدد طلب کیے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے حسین حقانی نے لکھا کہ 'انہوں نے یہ درخواست براہ راست پاکستان کی سیاسی قیادت کے سامنے رکھی، جسے منظور کرلیا گیا، اگرچہ امریکا نے آپریشن کے حوالے سے ہمیں باقاعدہ طور پر پلان سے باہر رکھا، تاہم مقامی طور پر تعینات امریکیوں کی ناکامی کے بعد سابق صدر اوباما نے پاکستان کو اطلاع دیئے بغیر نیوی سیل ٹیم 6 بھیجنے کا فیصلہ کیا'۔

حسین حقانی کے دعووں کے بعد پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے امریکی آپریشن کے سلسلے میں سابق سفیر اور پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے کردار کے حوالے سے نیا تنازع سامنے آیا ہے، اگرچہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ اور میڈیا میں متعدد بار بحث ہوچکی ہے، تاہم یہ تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں