امریکی صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ ختم ہونے کے کئی گھنٹوں بعد بھی مکمل نتائج سامنے نہیں آسکے تاہم ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن نے ’میدانِ جنگ‘ بنی ریاستوں مشی گن، وسکونسن اور ایریزونا سے تقریباً جیت کر صدر ٹرمپ کا دوسری مدتِ صدارت کے لیے راستہ محدود کردیا ہے۔

جو بائیڈن کو 270 کے جادوئی ہندسے تک پہنچنے کے لیے 6 الیکٹورل کالج ووٹ اور صرف ایک ریاست سے فیصلہ کن کامیابی درکار ہے۔ صدر ٹرمپ وقت سے پہلے اعلانِ فتح کرنے کے بعد اب وسکونسن میں دوبارہ گنتی کی درخواست کرچکے ہیں اور مشی گن اور پنسلوینیا میں گنتی کے عمل کو چیلنج کرچکے ہیں۔

سخت اعصابی تناؤ کی اس کیفیت میں جو بائیڈن نے اعلانِ فتح سے تو گریز کیا تاہم انہوں نے پولنگ کے دوسرے دن گنتی کے بعد امریکی عوام سے خطاب میں کہا کہ وہ واضح کامیابی کے قریب پہنچ چکے ہیں، وہ اعلانِ فتح کرنے نہیں آئے لیکن یہ بتانے آئے ہیں کہ جب بھی گنتی مکمل ہوگی تو انہیں یقین ہے کہ وہ فاتح ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سخت پیغام دیا اور کہا کہ یہاں عوام حکمرانی کرتے ہیں۔ طاقت چھینی یا مسلط نہیں کی جاسکتی یہ عوام سے آتی ہے۔ عوام کی مرضی کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ امریکا کا صدر کون ہوگا اور یہ صرف وہی کرسکتے ہیں۔

بائیڈن کی اس پریس کانفرنس کے بعد ٹرمپ کے مشیران نے انہیں اکسایا جس کے نتیجے میں صدر ٹرمپ نے پے در پے ٹویٹس کردیں اور اپنے حامیوں کو بتایا کہ انتخابات کی رات وہ ڈیموکریٹ ریاستیں بھی جیت رہے تھے لیکن پوسٹل بیلٹ کھلتے ہی جادو سے تمام برتری جاتی رہی۔

یہ پیغام امریکی عوام اور ٹرمپ کے حامیوں میں بے چینی پھیلانے کے لیے کافی تھا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے گنتی روکنے کے مطالبے کے بعد دونوں جماعتوں کے حامی کئی شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے۔ ایک فریق نے ’ہر ووٹ گنو‘ کا نعرہ بلند کیا اور ایک نے ’گنتی روکو‘ کے نعرے لگائے۔ یوں حالات اسی طرف چل نکلے جس کا خدشہ ہفتوں پہلے سے ظاہر کیا جا رہا تھا کہ انتخابی نتائج متنازع ہونے پر پُرتشدد مظاہرے ہوسکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے قانونی جنگ تو چھیڑ دی گئی ہے لیکن اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مشی گن کی عدالت میں صدر ٹرمپ کی طرف سے گنتی روکنے کی درخواست دائر کردی گئی ہے اور الزام لگایا گیا ہے کہ ان کے نمائندوں کو ووٹوں اور گنتی کی نگرانی کے لیے ’بامقصد رسائی‘ نہیں ملی۔

پنسلوینیا میں بھی اسی طرح کی درخواست دائر کی گئی ہے۔ درخواستیں دائر کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے ان کے مستقبل کا جواب بھی خود ہی دے دیا اور کہا کہ ان کے وکلا نے درخواستیں تو دے دیں لیکن اب کیا فائدہ، جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ ابھی ان انتخابات کے نتائج پر عدالتی کارروائی کے لیے درخواستوں کا ایک سیلاب امڈنے کو ہے۔

کس صورت میں دوبارہ گنتی ہوسکتی ہے؟

امیدوار دوبارہ گنتی کی درخواستیں صرف اس صورت میں دے سکتے ہیں جب جیت کا فرق صرف ایک فیصد ہو، اب چونکہ بائیڈن کی جیت کا مارجن ایک فیصد تک ہے اس لیے دوبارہ گنتی کی درخواستیں کئی ریاستوں میں قابل قبول ہیں۔ لیکن یہ درخواستیں 17 نومبر سے پہلے نہیں دی جاسکتیں جو گنتی کا عمل مکمل ہونے کی ڈیڈلائن ہے۔

دوبارہ گنتی کی درخواستوں کے لیے وجوہات کا بیان کرنا بھی لازمی ہے، جن میں عمومی غلطیاں، کسی وارڈ میں دھوکہ دہی کے شواہد، بیلٹ پیپروں کا درست نہ ہونا، بے ضابطگیاں اور الیکشن میں غیر قانونی کنڈکٹ جیسے الزامات شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ 20 ہزار ووٹوں کی برتری دوبارہ گنتی میں ختم ہوجانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے جو بیانیہ اپنایا ہے اس کی تشکیل انہوں نے مہینوں پہلے شروع کردی تھی۔ پہلے تو انہوں نے پوسٹل بیلٹ کو فراڈ کا ذریعہ بتایا پھر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیموکریٹ حکومت والی ریاستوں میں گورنر گنتی کے انچارج ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ انتخابات کے دن کے بعد ہونے والی گنتی جو قانونی طور پر جائز ہے، بدنیتی پر مبنی ہے اور نتائج اسی رات سامنے آجانے چاہئیں۔ اب صدر ٹرمپ نے دوبارہ گنتی کا جو راستہ اپنایا ہے وہ ایک طویل اور دشوار راستہ ہے۔

دوبارہ گنتی کے مختلف مراحل

وسکونسن میں انتخابی نتائج کی تصدیق کثیر الجہتی عمل ہے۔ میونسپل سطح پر انتخابات کے نتائج مرتب کیے جانے کے لیے انہیں دوبارہ چیک کیا جاتا ہے جس کے بعد مصدقہ نتائج کاؤنٹی حکام کو بھیجے جاتے ہیں۔ تمام میونسپل حکام سے مصدقہ نتائج کی وصولی کے بعد کاؤنٹی حکام بھی چیکنگ کا عمل شروع کرتے ہیں۔ میونسپلٹی کی طرح کاؤنٹی حکام بھی تمام امیدواروں کے نمائندوں کو اس عمل سے آگاہ رکھتے ہیں۔ کاؤنٹی بورڈ 10 نومبر کو صبح 10 بجے نتائج کی تصدیق کا عمل شروع کرتے ہیں اور یہ عمل 17 نومبر تک مکمل کیا جانا ضروری ہے۔ اس تمام کارروائی کے بعد وسکونسن کے الیکشن کمیشن کا سربراہ یکم دسمبر تک انتخابی نتائج کی تصدیق کا ذمہ دار ہے۔

یکم دسمبر کو مصدقہ نتائج کے اجرا کے بعد دوبارہ گنتی کی درخواست پر کارروائی شروع ہوتی ہے اور تمام امیدواروں کے نمائندے وہاں موجود ہوتے ہیں اور اگر ضرورت ہو تو ووٹوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ اب کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے گنتی کا عمل سست رہا ہے اور دوبارہ گنتی جس میں تمام نمائندے اور الیکشن بورڈ موجود ہو اس کا اجلاس کس طرح ممکن ہوگا یہ ایک اور چیلنج ہے۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے گنتی روکنے کے مطالبات میں نمایاں تضاد ہے۔ جن ریاستوں میں ان کے الیکٹورل کالج ووٹ بڑھنے کا امکان ہے وہاں وہ گنتی جاری رکھنے کے حامی ہیں اور جہاں انہیں نقصان کا احتمال ہے وہاں گنتی رکوانے کے درپے ہیں۔

اس نمایاں تضاد کو اجاگر کیا گیا تو عدالت ٹرمپ کی درخواستوں کو مسترد کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ ایک طرف قبل از وقت اعلانِ فتح اور خوشی کے شادیانے اور دوسری طرف پوسٹل بیلٹ کھلنے کے بعد دھاندلی کی شکایت اور گنتی روکنے پر زور صدر ٹرمپ کے کیس کو کمزور کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے قبل از وقت اعلانِ فتح اور پھر دھاندلی کے الزامات کو الیکشن کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ چونکہ ہفتوں پہلے سے ہی پوسٹل بیلٹ کو متنازع بنا رہے تھے اور قانونی کارروائیوں کی دھمکی دے رہے تھے اس لیے جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے اراکین پہلے سے ان قانونی چیلنجز کے لیے تیار تھے۔ جو بائیڈن کی انتخابی مہم کو وائٹ ہاؤس کے سابق وکیل کی خدمات حاصل ہے اور عدالتی کارروائیوں کے اخراجات کے لیے بھی پہلے سے فنڈ جمع کرلیا گیا تھا۔

صدر ٹرمپ الزامات تو عائد کر رہے تھے لیکن ان کی تیاری مکمل نہیں تھی، اس لیے ہنگامی بنیادوں پر عطیات کی اپیلیں کی جارہی ہیں۔ اس قانونی جنگ کی وجہ سے لگتا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج مزید کئی دنوں یا ہفتوں تک حتمی شکل نہیں پا سکیں گے۔

انتخابی عمل کی ساکھ مجروح کرنے کے لیے ٹرمپ کی انتخابی مہم اور خود ٹرمپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انتخاب والے دن پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی ووٹ ڈالے جارہے ہیں، حالانکہ یہ تاثر بے بنیاد تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ پنسلوینیا سمیت کئی ریاستیں ان تمام پوسٹل بیلٹس کو قابلِ شمار قرار دیتی ہیں جن پر محکمہ ڈاک کی انتخاب والے دن کی مہر ہوتی ہے لیکن وہ تاخیر سے پہنچتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے جب اعلانِ فتح کیا تو ان کی مختصر سی تقریر میں بھی تضاد نمایاں تھا۔ انہوں نے ایریزونا میں گنتی جاری رکھنے کی حمایت کی جہاں ان کے خیال میں وہ جیت سکتے تھے لیکن مشی گن اور وسکونسن میں گنتی روکنے کی بات کی۔ انہوں نے ان میڈیا نیٹ ورک پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا جنہوں نے ایریزونا سے ان کی جیت کے اندازے نشر نہیں کیے۔ صدر ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے انتخابی عمل کی ساکھ پر سوال کھڑا کیا ہے۔

انتخابات کی رات وائٹ ہاؤس میں پارٹی کے بعد ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم کے کرتا دھرتا لمبی تان کر سوئے اور اگلی صبح 10 بجے تک ان کے ڈونرز اور سپورٹرز کا کسی سے بھی رابطہ نہیں تھا اور ٹرمپ نے بھی 10 بجے سے پہلے کوئی ٹویٹ نہیں کی۔

10 بجے کے بعد انہیں حالات کا کچھ اندازہ ہوا تو الیکشن کے بعد کی حکمتِ عملی پر کام شروع ہوا۔ دوبارہ گنتی کے مطالبات سامنے آئے اور دوبارہ گنتی کی درخواستوں کو آگے بڑھایا جانے لگا۔ لاکھوں پوسٹل بیلٹ جن کی گنتی باقی تھی ان کی ساکھ پر سوال اٹھایا جانے لگا اور جن ریاستوں میں بائیڈن کی برتری الیکشن کی رات سے ہی واضح تھی وہاں بھی شکوک کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح پورے انتخابی عمل کو چیلنج کرنے کے لیے زمین ہموار کی گئی۔

ٹرمپ کے الیکشن منیجرز نے میڈیا سے کانفرنس کال پر 2 بار بات کی اور اپنا بیانیہ ان کے سامنے رکھنے کے بعد سوالات لیے بغیر کال منقطع کردی گئی۔ الیکشن منیجرز نے اپنے اعداد و شمار میڈیا کے سامنے رکھ کر اسے قابلِ اعتبار بتایا اور کہا کہ ان کے پاس موجود اعداد و شمار اور انہیں ملنے والی گراؤنڈ رپورٹس ٹرمپ کی جیت یقینی بتاتی ہیں۔

الیکشن منیجرز نے مشی گن، پنسلوینیا اور وسکونسن سے جیت یقینی بتائی لیکن نتائج کچھ اور نکلے۔ انہی کانفرس کالز میں ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ڈپٹی منیجر نے کئی ریاستوں میں قانونی کارروائی کا بتا دیا۔ الیکشن منیجر جیت کے دعوے کر رہے تھے اور ان کے نائب قانونی کارروائیوں کی بات کر رہے تھے۔ درحقیقت اسی وقت ان کی حکمتِ عملی کھل گئی تھی اور ان کے بتائے گئے اعداد و شمار کا بھید بھی آشکار ہوگیا تھا۔

ٹرمپ کے قریبی شمار ہونے والے ری پبلکن عہدیداروں نے شکست دیکھ لی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن کی جیت واضح ہونے میں تاخیر اور گنتی میں سست روی نے ٹرمپ کو دھاندلی کا بیانیہ اپنانے میں مدد دی اور ٹرمپ خود بھی جیت کے لیے زیادہ پُرامید نہیں تھے۔ ٹرمپ کے پُرامید نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ پچھلے 2 ماہ میں ٹرمپ کی انتخابی مہم نے قانونی ٹیم کو وسعت دینا شروع کردی تھی اور وہ کئی ریاستوں میں قانونی جنگ کی تیاری میں مصروف تھے۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے سپریم کورٹ جانے کی دھمکی دی گئی ہے لیکن ریاستی الیکشن قوانین وفاقی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ اس کے علاوہ پہلے مقامی عدالت میں جانا ہوگا اور اس کا فیصلہ قبول نہ ہونے کی صورت میں ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اس تمام عمل کے لیے ایک ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے اندر ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ صدر ٹرمپ شور مچانے اور چیخنے چلانے کے بعد شکست تسلیم کرسکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے تو قانونی جنگ چھیڑ دی ہے لیکن اس سے پہلے پوسٹل بیلٹ پر واشنگٹن کے ڈسٹرکٹ جج نے جو فیصلہ دیا تھا وہ ٹرمپ کے قانونی چیلنجز میں بڑی رکاوٹ ہوگا۔

ڈسٹرکٹ جج نے یو ایس پوسٹل سروس کو الیکشن کے دن حکم دیا تھا کہ وہ اپنے تمام دفاتر اور گوداموں میں موجود پوسٹل بیلٹ متعلقہ پولنگ اسٹیشنوں پر فوری بھجوائے اور تمام بیلٹ بھجوانے کے بعد رپورٹ عدالت میں جمع کروائے۔ عدالتی حکم پر پوسٹل بیلٹ تو نکال کر پہنچائے گئے لیکن مکمل پڑتال اور تصدیقی سرٹیفکیٹ کی ڈیڈلائن پر عمل نہیں کیا جاسکا تھا، جس پر ڈسٹرکٹ جج نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور پوسٹ ماسٹر جنرل لوئیس ڈیجوئے کو بیانِ حلفی کے ساتھ پیش ہونے اور نتائج بھگتنے کا انتباہ بھی جاری کیا۔

اگر صدر ٹرمپ پوسٹل بیلٹ کے خلاف مہینوں سے مہم چلا رہے تھے تو ڈیموکریٹ پارٹی بھی خاموش نہیں تھی اور اس وقت سے ہی اس نے شور مچانا شروع کردیا تھا جب ٹرمپ کو 2016ء کے انتخابات میں 12 لاکھ ڈالر چندہ دینے والے کی پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے پر تقرری ہوئی تھی۔ ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پوسٹل بیلٹ کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ اب ڈسٹرکٹ جج کے حکم نامے کے بعد صدر ٹرمپ کی قانونی ٹیم کو ایک مشکل مہم درپیش ہے جس میں کامیابی کے امکانات کم ہیں۔

صدارتی انتخابات کے نتائج پر تنازعہ اگرچہ امریکا کا اندرونی سیاسی معاملہ ہے تاہم اس پورے عمل سے دنیا بھر میں انتخابی نتائج کی شفافیت اور جمہوریت پر زور دینے والے امریکا کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں