پاکستان نے تقریباً 10 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے لیے انخلا کے دوسرے مرحلے کے آغاز کی تیاری شروع کر دی ہے، ضلعی حکام اور پولیس کو ملک بھر میں ان کے ٹھکانوں کا نقشہ بنانے اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ہدایات دی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیشرفت سے باخبر ایک عہدیدار نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہولڈرز کی میپنگ کا عمل تیز کردیں۔

ابھی تک کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن ایک عہدیدار نے کہا کہ لاکھوں اے سی سی ہولڈرز کی وطن واپسی کی مہم وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد ممکنہ طور پر موسم گرما کے اوائل سے شروع ہوسکتی ہے۔

خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری عابد مجید نے ’ڈان‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے میپنگ کا عمل پہلے ہی شروع کر دیا ہے، رمضان کے بعد اس میں تیزی آئے گی اور ہمیں امید ہے کہ 30 اپریل سے پہلے سروے مکمل کر لیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یواین ایچ سی آر)کے مطابق پاکستان میں 21 لاکھ 80 ہزار رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں، اس میں 07-2006 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق رجسٹریشن کے ثبوت (پی او آر) کارڈ رکھنے والے 13 لاکھ پناہ گزینوں کے علاوہ اضافی 8 لاکھ 80 ہزار پناہ گزین بھی شامل ہیں جن کو 2017 میں رجسٹریشن مہم کے بعد افغان سٹیزن کارڈز دیے گئے۔

اگست 2021 میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغان مہاجرین کی ایک اور بڑی تعداد پاکستان آئی، حکام کے مطابق یہ تعداد لگ بھگ 6 لاکھ سے 8 لاکھ کے درمیان تھی، ان میں سے کچھ کے پاس قانونی سفری دستاویزات بھی ہیں لیکن مستقبل غیریقینی ہے۔

17 لاکھ کا اعداد و شمار مبالغہ آمیز؟

پاکستان نے گزشتہ برس نومبر میں غیر رجسٹرڈ شدہ غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا پہلا مرحلہ شروع کیا تھا، اس بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے کہ نومبر 2023 سے اب تک 17 لاکھ غیررجسٹرڈ افغانوں میں سے کتنے اپنے وطن واپس روانہ ہوچکے ہیں، حالانکہ یہ تعداد ممکنہ طور پر اس تعداد سے بہت کم ہے جسے اب انتہائی مبالغہ آمیز سمجھا جا رہا ہے۔

لیکن باخبر ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے راستے افغانستان واپس جانے والے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی کُل تعداد تقریباً 5 لاکھ ہے۔

وطن واپس جانے والوں کی کم تعداد کے سبب غیررجسٹرڈ افغانوں کی وطن واپسی کو تیز کرنے کے بڑھتے دباؤ کے پیشِ نظر حکام نے وزارت داخلہ سے فوری رابطہ کیا اور 17 لاکھ غیررجسٹرڈ افغانوں کے دعوے کی حقیقت کے بارے میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اِن اعداد و شمار کی دوبارہ تصدیق کی کوشش کی۔

کوئی نہیں جانتا کہ 8 لاکھ 80 ہزار اے سی سی ہولڈرز میں سے کتنے ملک میں باقی ہیں یا ان میں سے کتنے رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس چلے گئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا ہے تاکہ قومی ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے تعاون سے ان اعداد و شمار کو ’ڈبل چیک‘ کیا جا سکے۔

علاوہ ازیں اے سی سی ہولڈرز اور پی او آرز کے حامل افغانوں کے درمیان فرق کرنے کی مشق مشکل ثابت ہو سکتی ہے، یہ مشق دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات پر مزید دباؤ بھی ڈال سکتی ہے۔

ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد (جنہوں نے غیر رجسٹرڈ افغانوں کی وطن واپسی کو ناقابل قبول قرار دیا تھا) نے حال ہی میں ’طلوع نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان سے مہاجرین کے لیے مزید نرمی اپنانے کا مطالبہ کیا۔

تاہم افغانستان کی جانب سے تنقید اور انسانی حقوق کے اداروں اور اقوام متحدہ کی جانب سے تحفظات کے اظہار سے بے خوف پاکستان نے اپنے اِس وطن واپسی کے پروگرام کو جاری رکھنے اور اسے مزید وسعت دیتے ہوئے رجسٹرڈ افغانوں کو بھی اس میں شامل کرنے کا ذہن بنا لیا ہے۔

افغان مہاجرین کی وطن واپسی (جو کہ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھی) کا تذکرہ اب وزیراعظم شہباز شریف کے ’100 روزہ ورکنگ پلان‘ میں بھی مل گیا ہے۔

اس کے مطابق تمام صوبوں اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اے سی سی ہولڈرز کی میپنگ اور ویری فکیشن کا عمل 25 مارچ 2024 تک مکمل کریں۔

لیکن حکام کا کہنا ہے کہ میپنگ میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے اور اس عمل کو مکمل ہونے میں کم از کم ایک مہینہ مزید لگ سکتا ہے۔

سندھ پہلے ہی تمام متعلقہ اداروں کو تحریری ہدایات جاری کر چکا ہے، 13 مارچ کو لکھے گئے خط میں محکمہ داخلہ نے اسی تاریخ کو سیکرٹری داخلہ کی زیرِصدارت ہونے والے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے تمام متعلقہ افراد کو 25 مارچ تک میپنگ کا عمل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

جمعہ کو خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے ایک مزید تفصیلی خط میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ہدایت دی گئی کہ وہ اے سی سی ہولڈرز کی میپنگ کو دوبارہ شروع کریں، خط میں 15 اپریل 2024 تک پوری مشق کو مکمل کرنے کے لیے 8 نکاتی طریقہ کار تجویز کیا گیا تھا۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ توقع ہے کہ صوبوں اور آزاد جموں و کشمیر کی جانب سے میپنگ سروے مکمل کرنے کے بعد وفاقی حکومت ایک ماہ کی ڈیڈلائن کے ساتھ رضاکارانہ انخلا کی تاریخ کا اعلان کرے گی۔

تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی پی او آر کارڈ ہولڈرز (جن کی نسبتاً اور نمایاں طور پر بڑی آبادی ہے) کی وطن واپسی کے حوالے سے کوئی باقاعدہ بات چیت ہوئی ہے، جنہیں یو این ایچ سی آر نے باضابطہ طور پر ’مہاجرین‘ قرار دیا ہے۔

لیکن کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم 10 لاکھ سے زائد پی او آر ہولڈر افغانوں کو خدشہ ہے کہ ان کی باری جلد آسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں