نگران حکومت نے اپنی مدت کے اختتام سے عین قبل وفاقی حکومت کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت مالی اعانت سے چلنے والے سیکڑوں ترقیاتی منصوبوں کے جاری معاہدوں کی لاگت میں تقریباً 30 فیصد اضافے کی اجازت دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے بڑے ترقیاتی منصوبے ہمیشہ وقت اور لاگت میں اضافے کی نذر ہوتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے لاگت کا نقصان ہونے کے علاوہ اخراجات پر بار بار نظرثانی ہوتی ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مالی سال 23-2022 کے تخمینوں کے مطابق 10.32 ٹریلین روپے کے وفاقی پی ایس ڈی پی پورٹ فولیو میں تقریباً ایک ہزار 153 ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔

اس میں 7.96 ٹریلین روپے مالیت کے 909 جاری منصوبے شامل ہیں، جن میں 244 نئے منصوبے ہیں جن کی کُل لاگت کا تخمینہ 2.26 ٹریلین روپے ہے۔

اتنے بڑے پروگرام کے لیے 23-2022 کے بجٹ میں 727.5 ارب روپے کی معمولی رقم مختص کی گئی، اس تناظر میں آئی ایم ایف کی یہ رائے عجب نہیں کہ کسی منصوبے کو اس شرح کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اوسطاً 14.1 سال درکار ہوں گے اور وہ بھی صرف اس صورت میں جب اس دوران کوئی اور نیا منصوبہ شروع نہ کیا جائے۔

ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور سیاستدانوں کی جانب سے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر انحصار سرکاری ترقیاتی اسکیموں پر ہونے کے باوجود یہ تخمینہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

ان تخمینوں میں صوبائی پروگرام بھی شامل نہیں ہیں، جو عام طور پر وفاقی منصوبوں کے حجم سے دگنے سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان کی لاگت میں ترمیم کے لیے وفاق کی پیروی کی جاتی ہے۔

’لاگت میں اضافے کی اجازت ایکنک نے دی‘

باخبر ذرائع نے بتایا کہ جاری منصوبوں کے معاہدوں کی لاگت میں اضافے کی اجازت 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے ایک روز قبل اس وقت کی نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی سربراہی میں قومی اقتصادی کونسل (ایکنک) کی ایگزیکٹو کمیٹی نے دی تھی، یہ اضافہ مہنگائی کے دباؤ، خاص طور پر تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہوا۔

یہ دلیل دی گئی تھی کہ بہت سے کنٹریکٹرز نے لاگت میں اضافے کی وجہ سے میگا انفرااسٹرکچر پراجیکٹس پر کام روک دیا ہے جبکہ کچھ نے کام کی رفتار سست کر دی ہے اور کچھ نے ان منصوبوں کا ٹھیکا ہی چھوڑ دیا۔

ایکنک اجلاس کے منٹس کے مطابق ایکنک کی ایگزیکٹو کمیٹی نے 7 فروری 2024 کی سمری پر غور کرنے کے بعد منظوری دی، جو وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔

اس سمری کا عنوان تھا ’جاری معاہدوں میں قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کی دفعات کو شامل کرنے کے لیے معیار اور طریقہ کار، اگست 2022 (ترمیم شدہ جون 2023-تبدیل شدہ جنوری 2024)‘۔

پی ایس ڈی پی کی حکمت عملی سے آئی ایم ایف نالاں

آئی ایم ایف نے ایک حالیہ تکنیکی جائزے میں پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملی اور اس پر ناقص عملدرآمد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ باآسانی اس بات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑے منصوبوں کی لاگت میں کس طرح تبدیلی آگئی۔

اس نے کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران پی ایس ڈی پی کی جانب سے عملدرآمد میں نمایاں کمی نے اس کے بجٹ اور متعدد برسوں پر محیط تخمینوں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے، یہ معاملہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں یکساں ہے۔

وفاقی سطح پر پی ڈی اسی پی کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ اقتصادی انفرااسٹرکچر (توانائی، ٹرانسپورٹ، پانی وغیرہ) پر خرچ کیا گیا جبکہ باقی سماجی انفرااسٹرکچر (تعلیم، صحت وغیرہ) پر خرچ کیا گیا۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ پی ایس ڈی پی وفاقی یا بیرونی فنڈز سے چلنے والے منصوبوں کی کُل لاگت بتاتا ہے، تاہم درمیانی مدت میں اس لاگت میں کوئی سالانہ کمی نہیں آئی، موجودہ حکمت عملی متعلقہ وزارتوں کو ایک حقیقت پسندانہ کثیر سالہ سرمایہ پروگرام کی منصوبہ بندی کرنے کا اہل نہیں بناتی۔

تبصرے (0) بند ہیں