ملک کے مختلف حصوں میں چینی 10 روپے مہنگی ہو کر 150 روپے فی کلو تک جا پہنچی، جبکہ رپورٹس ہیں کہ ملوں کی جانب سے حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ 10 لاکھ سے 15 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی ہول سیلر گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رؤف ابراہیم نے بتایا کہ گزشتہ 10 روز کے دوران چینی کی تھوک قیمتیں 7 سے 8 روپے فی کلو اضافے کے بعد 138 سے 139 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہیں، جس کی وجہ چینی برآمد کرنے کی ممکنہ اجازت دینے کی رپورٹس ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت کو ملوں کے دباؤ پر برآمدات کی اجازت نہیں دینی چاہیے، ورنہ مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں بھی چینی کی فی کلو قیمتیں 10 روپے بڑھی ہیں۔

پاکستان کے پاس گزشتہ سال کے اچھے ذخائر موجود ہیں، اور چینی کی برآمدات کی اجازت دے کر افراتفری جیسی صورتحال پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

رؤف ابراہیم نے یاد کیا کہ گزشتہ برس صارفین نے چینی 185 روپے فی کلو تک کی قیمت پر خریدی تھی، جس کی وجہ طلب و رسد کا فرق تھا، جو اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کمشنر کراچی نے چینی کی تھوک اور خوردہ قیمت بالترتیب فی کلو 123 روپے اور 130 روپے مقرر کی ہے، جو صارفین کو شاید ہی کسی دکان پر ملے۔

پاکستان نے مالی سال 2024 کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران 33 ہزار 101 ٹن (2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر) کی چینی برآمد کی ہے، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران ایک لاکھ 72 ہزار 182 ٹن (8 کروڑ 30 لاکھ ڈالر) چینی برآمد کی تھی۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اسٹیک ہولڈرز کے اجلاس میں چینی کی برآمدات، ملکی ضروریات اور مستقبل میں قلت کو روکنے پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں چینی کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے خلاف اقدامات کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں قلت اور مصنوعی قیمتوں میں اضافے سے نمٹنے کے لیے کریک ڈاؤن پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

چینی ملز مالکان کا مؤقف تھا کہ ملک میں چینی کے سرپلس ذخائر 15 سے 16 لاکھ ٹن کے ہیں، جسے برآمد کرکے زرمبادلہ حاصل کرنا چاہیے۔

انہوں نے حکومت سے پہلے مرحلے میں 10 لاکھ ٹن اور باقی برآمدات مئی اور جون تک کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں