وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ٹیکس وصولیوں کے معاملات میں تاخیر پر تشویش کے اظہار کے ایک دن بعد، حکومت نے قومی اسمبلی میں اپیلیٹ ٹریبونل ان لینڈ ریونیو (اے ٹی آئی آر) کے سامنے قانونی چارہ جوئی میں پھنسے 27 کھرب روپے سے زائد کی وصولی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بل پیش کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کی طرف سے قائمہ کمیٹی برائے فنانس کی تشکیل تک بل مؤخر کرنے کے مطالبے کے درمیان سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں ترمیم کرنے والے ٹیکس قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2024 بل کو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے سپلیمنٹری ایجنڈا کے ذریعے پیش کیا۔

تاہم اسپیکر ایاز صادق نے ٹریژری اور اپوزیشن کو نصیحت کی کہ وہ مجوزہ قانون پر گفتگو کرنے کے لیے غیر رسمی ملاقات کریں جسے اب 10 دن میں اپنی سفارشات پیش کرنے کے لیے سینیٹ کے سامنے رکھا جائے گا۔

صدر آصف علی زرداری نے سینیٹ کا پہلا اجلاس جمعرات (آج) کو طلب کر رکھا ہے۔

ایوان میں بل پیش کیے جانے کے علاوہ نگران حکومت کی متوقع بمپر فصل کے باوجود گندم کی درآمد کی اجازت دینے کے باعث حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امدادی قیمت پر گندم کی خریداری سے انکار کرنے کے معاملے پر ایوان میں بحث ہوئی، اس کے علاوہ اپوزیشن (پی ٹی آئی) نے سابق وزیر اعظم عمران کی اہلیہ بشری بی بی کے ساتھ مبینہ نارووا رویے کے حوالے سے احتجاج بھی کیا۔

ایک اہم پیش رفت میں حکومت اور اپوزیشن نے ایوان کو بتایا کہ وہ قائمہ کمیٹی کی تقسیم کے معاملے پر مفاہمت پر پہنچ گئے ہیں اور وہ جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کی تشکیل کو حتمی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔

قانون سازی

مجوزہ ٹیکس قوانین (ترمیمی) ایکٹ کی نمایاں خصوصیات بتاتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ مختلف اپیلیٹ فورمز بشمول کمشنرز کی اپیلیں، اے ٹی آئی آر اور مختلف عدالتوں میں 2 ہزار 700 ارب روپے کے ٹیکس کیسز زیر التوا ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اس وقت مختلف فورمز پر 72 ہزار کیسز زیر التوا ہیں اور صرف 20 اے ٹی آئی آر ہیں جن کی تعداد کو بڑھا کر اب 35 کیا جا رہا ہے تاکہ اس عمل کو تیز کیا جا سکے۔

وزیر نے کہا کہ حکومت نے بل کے ذریعے اپنے بہت سے اختیارات ختم کر دیے ہیں اور اب اے ٹی آئی آر ممبران کی تقرری میں وزیر اعظم کا کوئی کردار نہیں ہو گا، انہوں نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے مساوی ان ممبران کا تقرر ایک کھلے مقابلے اور نسٹ، آئی بی اے اور لمز جیسے معتبر اداروں کے ذریعے ٹیسٹ کے انعقاد کے ذریعے کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون سازی کے ذریعے مختلف ٹیکس فورمز کی رقم کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے، 1 کروڑ روپے تک کے ٹیکس واجبات کے کیسز کمشنرز سنتے رہیں گے جبکہ دیگر کیسز اے ٹی آئی آر کو بھیجے جائیں گے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ہائی کورٹس میں اپیل کی مدت کو 90 دن سے کم کر کے 30 دن کر دیا گیا ہے اس شرط کے ساتھ کہ ٹیکس دہندہ کو اپنے اکاؤنٹ سے فوری طور پر رقم نکالنے سے روکنے کے لیے خود بخود اسٹے مل جائے گا، حکومت نے توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کے حقوق کا تحفظ ہو۔

وزیر نے بتایا کہ بل کا مسودہ ٹیکس بار ایسوسی ایشن کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے اور اپوزیشن اراکین سے کہا ہے کہ وہ اس میں بہتری لانے کے لیے تجاویز دیں۔

قائمہ کمیٹی

ٹریژری اور اپوزیشن بنچوں کے ارکان نے ایوان کو بتایا کہ وہ کمیٹیوں کی تقسیم کے فارمولے پر متفق ہو گئے ہیں اور یہ عمل جمعرات (آج) کو ہونے والے ایک اور اجلاس میں مکمل کیا جائے گا۔

یہ معاملہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے خواجہ اظہار الحسن نے ایک پوائنٹ آف آرڈر پر اٹھایا تھا جس میں انہوں نے کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس سے ان کے مطابق ایوان کا قانون سازی کا کام متاثر ہونا شروع ہو گیا ہے۔

اس عمل میں شامل مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے ایوان کو بتایا کہ حکومت نے اپوزیشن کو 10 قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ دینے پر اتفاق کیا ہے، وہ جلد اس بات پر مفاہمت پر پہنچ جائیں گے کہ ماضی کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کون سی کمیٹیاں اپوزیشن جماعتوں کے حوالے کی جائیں۔

دریں اثنا، حکومتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ 10 کمیٹیوں کی سربراہی کے علاوہ حکومت نے پارلیمانی روایت کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بھی پی ٹی آئی کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، حالانکہ اس کی کوئی آئینی پابندی نہیں ہے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے ایک بیان کے ذریعے بعض میڈیا میں آنے والی ان خبروں کی تردید کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسپیکر پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت کو چیئرمین پی اے سی نہیں بنانا چاہتے، اس میں کہا گیا کہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور روایتی طور پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت کے ذریعے کمیٹیوں کے چیئرمینز کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔

پی ٹی آئی کا احتجاج

پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے الزام لگایا کہ بشریٰ بی بی کو جیل میں زہر دیا گیا اور حکومت ان کی جھوٹی میڈیکل رپورٹس کے ذریعے معاملے کو چھپا رہی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹروں کو بشریٰ بی بی تک رسائی فراہم کی جائے اور ان کے ٹیسٹ کرائے جائیں۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے مطالبے پر بشریٰ بی بی کے میڈیکل ٹیسٹ کسی سرکاری ہسپتال کے بجائے اسلام آباد کے بہترین نجی ہسپتالوں میں کیے گئے، بشریٰ بی بی کو کسی اور ہسپتال بھیجنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ان کے تمام ٹیسٹ کلیئر ہیں۔

گندم کی خریداری

قومی اسمبلی میں گندم کی خریداری کے معاملے پر پوائنٹ آف آرڈر پر گرما گرم بحث ہوئی، حکومت پر گندم کی خریداری نہ کرنے پر تنقید کی گئی جس سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہ معاملہ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے پوائنٹ آف آرڈر پر اٹھایا۔

اپوزیشن اور خزانے پر بیٹھے ارکان نے گندم کی خریداری سے حکومتی انکار اور بمپر فصل ہونے کے باوجود اجناس کی درآمد کی اجازت دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

اپوزیشن کے شیخ وقاص اکرم نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جلد کسان سڑکوں پر ہوں گے اور حکمران اس کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔

وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر نے اعتراف کیا کہ گندم کی درآمد کی اجازت دینا نگران حکومت کا غلط فیصلہ تھا، انہوں نے کہا کہ وہ کاشتکاروں سے زیادہ سے زیادہ گندم کی خریداری کے لیے صوبائی حکومتوں کو خط لکھیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں