طبل جنگ بجنے کے باوجود آزاد کشمیر کے عوام کا عزم و حوصلہ برقرار

شائع May 1, 2025
مظفرآباد میں شہری دفاع کا عملہ طلبہ کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت فراہم کر رہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
مظفرآباد میں شہری دفاع کا عملہ طلبہ کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت فراہم کر رہا ہے — فوٹو: اے ایف پی

چکوٹی سے تعلق رکھنے والے 58 سالہ دکاندار شبیر عباسی کے لیے آزاد جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چونکہ بھارت کی طرف سے طبل جنگ بجایا جارہا ہے اور شہری آبادی میں بے چینی پائی جاتی ہے، آزاد جموں و کشمیر اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے درمیان تقسیم کی لکیر کے قریب واقع دیہی آبادیوں کے رہائشیوں کے روزمرہ کے معمولات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

شبیر عباسی مظفر آباد سے 58 کلومیٹر دور واقع چکوٹھی بازار میں روزانہ صبح اپنی کریانہ کی دکان کھولتے ہیں اور ایل او سی کے اس پار بھارتی فوجی چوکیوں سے براہ راست نظر آتے ہیں۔

پہلگام حملے اور اعلیٰ حکام کی جانب سے ممکنہ بھارتی فوجی حملے کے انتباہ کے بعد بھی فرنٹ لائن کے قریب رہنے والے زیادہ تر لوگ اس سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔

یہ ماضی کے بالکل برعکس ہے، جب کشیدگی میں اضافے کی معمولی سی علامت پر سرحدی رہائشیوں کو خوف نے اپنی لپیٹ میں لے لیتا تھا، تناؤ، اضطراب اور امن کے لیے دعائیں مانگی جاتی تھیں، جو آج کے پرسکون اور تقریباً بے حس رویے سے کوسوں دور ہے۔

شبیر عباسی کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے، ہم کئی دہائیوں سے بلا اشتعال بھارتی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں، ہم نے اپنے مرنے والوں کو دفن کیا ہے اور اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کیا ہے، ہم بھاگ نہیں رہے‘۔

نومبر 2003 سے پہلے جب بھارت اور پاکستانی افواج نے ایک تاریخی جنگ بندی معاہدے پر دستخط کیے تھے، چکوٹھی سمیت ایل او سی کے اطراف زیادہ تر علاقے گولہ باری کے تبادلے میں اکثر ہلاکتیں اور تباہی کا سامنا کرتے تھے۔

شبیر عباسی نے اپنی اہلیہ کو 2000 میں گولہ باری کے ایک خوفناک واقعے میں کھو دیا تھا، جب وہ گھر کے کاموں میں مصروف تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے بدترین حالات دیکھے ہیں، ہم خوف کے مرحلے سے گزر چکے ہیں، اگر ایک اور حملہ ہوتا ہے تو انہیں ہماری لاشوں کے اوپر سے جانا پڑے گا‘۔

چکوٹھی کے کیپٹن سرور شہید بوائز ہائی اسکول کے استاد عاصم بشیر بھی مقامی لوگوں میں پائی جانے والی بے پروائی پر روشنی ڈالتے ہیں، ان کے اسکول کے طلبہ بھی ایک مرتبہ بھارتی شیلنگ سے شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’لوگ خوفزدہ نہیں ہیں۔ درحقیقت، وہ پرسکون ہیں‘۔

جمعرات کی رات سے ہی وادی لیپا میں گولہ باری کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، اس کے باوجود تعلیمی سرگرمیاں بلاتعطل جاری ہیں، سرکاری اور نجی اسکول کھلے رہے، جن میں طلبہ اور اساتذہ دونوں باقاعدگی سے آرہے ہیں۔

چکوٹھی کے ہائی اسکول میں بدھ کے روز پاک فوج اور تحریک آزادی کشمیر کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں بھرپور شرکت کی گئی۔

عاصم بشیر کہتے ہیں کہ ’سچ کہوں تو کوئی بھی ڈرتا نہیں ہے لیکن جب آپ ایک ایسے ملک کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں جو سیاسی فائدے کے لیے اپنے ہی شہریوں کو مار سکتا ہے تو آپ کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، کچھ رہائشیوں نے پرانے بنکروں کی صفائی کی ہے مگر دوسری جانب زندگی بالکل معمول پر ہے، دکانیں اور اسکول کھلے ہیں‘۔

اسی طرح کا سکون ضلع کوٹلی میں بھی ہے، تحصیل کھوئی رٹہ کے متعدد دیہات، جنہیں ماضی میں بڑے پیمانے پر گولہ باری کا سامنا کرنا پڑا ہے، میں بھی زندگی معمول کے مطابق جاری ہے۔

محکمہ ریونیو کے افسر انور شاہین نے کہا کہ ’نہ گھبراہٹ ہے اور نہ ہی بے چینی، لوگ اپنا دن گزار رہے ہیں، حوصلے بلند ہیں، زیادہ تر کا کہنا ہے کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو وہ ہمت کے ساتھ مزاحمت کریں گے‘۔

لانجوت گاؤں میں سماجی کارکن شوکت اعوان کا بھی یہی خیال ہے، انہوں نے کہا کہ ’پہلگام حملے کے بعد بھی کرکٹ میچ اور شادی کی تقریبات جاری ہیں‘۔

لانجوت وہی گاؤں ہے جہاں فروری 2000 میں ایک قتل عام میں 14 عام شہری مارے گئے تھے جس کا الزام بھارتی کمانڈوز پر لگایا گیا تھا۔

پونچھ بھی ایسی ہی تصویر پیش کر رہا ہے، منڈول کے رہائشی نجیب سردار کے مطابق بدھ کو کچھ بینکوں نے ایل او سی کے قریب واقع اپنی برانچز سے اے ٹی ایم میں موجود نقدی کو اپنے ہیڈ آفس منتقل کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، لیکن لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے تشویش محسوس کی۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا کے جنگی جنون کی وجہ سے کچھ معمر افراد بے چین دکھائی دیتے ہیں لیکن زیادہ تر ثابت قدم ہیں، یہاں کے باشندے بندوقوں کی گونج کے بیچ بڑے ہوئے ہیں، انہوں نے کبھی بھی اپنی زمین نہیں چھوڑی ہے اور اب بھی نہیں چھوڑیں گے۔

اس سے بھی زیادہ حیران کن منظر مظفر آباد کے شمال مشرق میں واقع مشہور سیاحتی مقام وادی نیلم کا ہے جہاں 2003 کی جنگ بندی کے بعد سیاحت اور مہمان نوازی میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔

وادی کے زیادہ تر حصے بھارتی توپ خانے کی زد میں ہیں اور کچھ علاقوں میں ایل او سی کے پار سے چھوٹے ہتھیاروں کی فائرنگ کا بھی خطرہ رہتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ندیم احمد جنجوعہ کا کہنا ہے کہ منگل تک سیاحوں کی آمد سست نہیں ہوئی تھی، لیکن وفاقی وزیر کی رات گئے کی وارننگ کے بعد تقریباً 70 فیصد لوگ چلے گئے ہیں، باقی اب بھی یہاں ہیں۔

وادی میں سیاحوں کی سب سے زیادہ میزبانی کرنے والے مقامات میں سے ایک کیرن، دریائے نیلم کے بالکل کنارے واقع ہے، جو دراصل لائن آف کنٹرول ہے، گیسٹ ہاؤسز مرکزی شریان سے متصل ہیں، جن میں سے کچھ دریائے نیلم کے کنارے واقع ہیں جو یہاں ایل او سی کے طور پر کام کرتی ہے۔

حال ہی میں، بھارتی فوج نے کیرن کے مقبوضہ کشمیر میں واقع حصے کو ایک سیاحتی مقام کے طور پر بھی ترقی دی ہے، بھارتی شہری اس مقام کا دورہ کرتے ہیں۔

ندیم احمد جنجوعہ نے بتایا کہ ’پہلے لوگ دریا کے اس پار نظر آتے تھے، اب پہلگام واقعے کے بعد بھارتی سیاحوں کو آنے سے روک دیا گیا ہے، اور وہ حصہ ویران دکھائی دیتا ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 16 جون 2025
کارٹون : 15 جون 2025