لائیو بلاگ: ایران اسرائیل جنگ سے متعلق تازہ ترین خبریں اور رپورٹس
تیرہواں روز:
جنگ 13 جون کو شروع ہوئی جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا اور پہلے ہی دن ایران کے متعدد اعلیٰ فوجی رہنما، جوہری سائنسدان اور عام شہری شہید ہو گئے۔
اسی دن رات سے ایران کے جوابی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس نے بھی تل ابیب اور حیفہ سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں میں فوجی اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا، اس کے بعد دونوں جانب سے مسلسل 12 روز ایک دوسرے پر تواتر سے حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔
22 جون کو امریکا بھی ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شامل ہوگیا اور امریکی طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری تنصیبات پر بمباری کی۔ 23 جون کی رات ایران نے آپریشن ’بشارت فتح‘ کے تحت عراق اور قطر میں امریکی اڈوں پر بیلسٹک میزائل حملے کیے، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
24 جون کو قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے ایران کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ کیا، جب کہ تہران نے بھی امریکی تجویز پر اتفاق کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی ایران کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کا اعلان کیا اور دونوں جانب سے جنگ بندی نافذ ہوگئی۔
عمارتوں کو تباہ کرنے سے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایرانی سائنسدان اب بھی جوہری ٹیکنالوجی کا مکمل علم رکھتے ہیں، صدر مسعود پزشکیان کی ایٹمی توانائی تنظیم کے دورے پر گفتگو
اپ ڈیٹ03 نومبر 202510:40am
ایران نے اتوار کو اعلان کیا ہے کہ وہ امریکا اور اسرائیل کے حملوں سے تباہ ہونے والی اپنی جوہری تنصیبات کو پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا، جب کہ ثالث ملک عُمان نے تہران اور واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ منجمد سفارت کاری کو بحال کریں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، تاہم اصل نقصان کی مکمل تفصیل ابھی تک واضح نہیں ہو سکی۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے دورے کے دوران کہا کہ ’ہم (تباہ شدہ تنصیبات) کو پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ دوبارہ تعمیر کریں گے‘۔
انہوں نے اپنی سرکاری ویب سائٹ پر جاری ایک ویڈیو میں کہا کہ ’عمارتوں کو تباہ کرنے سے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، اور یہ بھی کہا کہ ایرانی سائنسدان اب بھی جوہری ٹیکنالوجی کا مکمل علم رکھتے ہیں۔
صدر مسعود پزشکیان نے مزید وضاحت نہیں کی، فروری میں حملوں سے قبل دیے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران کی تنصیبات پر حملہ ہوا تو انہیں دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔
جون میں اسرائیل نے ایران کے خلاف غیر معمولی فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا، جس سے 12 روزہ جنگ چھڑ گئی تھی، ان حملوں میں جوہری اور عسکری مقامات کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور کئی اعلیٰ سطح کے سائنسدان شہید ہوئے تھے۔
ایران نے اس کے جواب میں اسرائیلی شہروں پر بیلسٹک میزائلوں کی بوچھاڑ کی تھی۔
ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے جولائی میں امریکا کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد کہا تھا کہ ایران کو پہنچنے والا نقصان ’سنگین اور شدید‘ ہے۔
صدر مسعود پزشکیان کے بیانات اس وقت سامنے آئے جب عُمان، جو ایران اور امریکا کے درمیان روایتی ثالث کا کردار ادا کرتا ہے، نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔
عمانی وزیرِ خارجہ بدر البوسعیدی نے بحرین میں آئی آئی ایس ایس منامہ ڈائیلاگ کانفرنس کے دوران کہا کہ ’ہم ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں‘۔
ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے اتوار کو کہا کہ تہران کو سفارتی عمل دوبارہ شروع کرنے سے متعلق ’پیغامات موصول ہوئے ہیں‘، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
عمان نے رواں سال امریکا اور ایران کے درمیان 5 دور کے مذاکرات کی میزبانی کی تھی، چھٹے دور کے آغاز سے محض 3 دن قبل اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔
اس کے بعد ایران کو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کا سامنا کرنا پڑا، جب برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے 2015 کے جوہری معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی پر ’اسنیپ بیک‘ میکانزم کو فعال کیا۔
ہمیں ہر لمحہ ممکنہ محاذ آرائی کے لیے تیار رہنا چاہیے، اس وقت ہم کسی باضابطہ جنگ بندی میں نہیں ہیں بلکہ محض دشمنیوں کے عارضی تعطل کی حالت میں ہیں، نائب صدر رضا عارف
اپ ڈیٹ19 اگست 202503:04pm
ایران کے ایک سینئر عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کسی بھی لمحے چھڑ سکتی ہے اور جون میں ہونے والی 12 روزہ لڑائی کے بعد موجودہ خاموشی کو صرف ایک عارضی وقفہ قرار دیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایران کے نائب صدر اول محمد رضا عارف نے کہا کہ ’ہمیں ہر لمحہ ممکنہ محاذ آرائی کے لیے تیار رہنا چاہیے، اس وقت ہم کسی باضابطہ جنگ بندی میں نہیں ہیں بلکہ محض دشمنیوں کے عارضی تعطل کی حالت میں ہیں‘۔
جون کی لڑائی میں اسرائیل نے ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقوں پر بھی بمباری کی تھی جس میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سینئر کمانڈر اور جوہری سائنسدان بھی شامل تھے، ایران نے اس کے جواب میں میزائل اور ڈرون حملے کیے جن میں درجنوں اسرائیلی مارے گئے۔
امریکا نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کرتے ہوئے جنگ میں براہ راست شرکت کے 2 روز بعد 24 جون کو لڑائی روکنے کا اعلان کیا تھا، تاہم جنگ بندی کے کسی معاہدے کو باضابطہ شکل نہیں دی گئی بلکہ جھڑپوں میں صرف غیر علانیہ طور پر وقفہ آیا۔
اتوار کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے فوجی مشیر یحییٰ رحیم صفوی نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ ’ملک بدترین صورت حال کے لیے منصوبے تیار کر رہا ہے‘۔
انہوں نے روزنامہ ’شرق‘ میں شائع ہونے والے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہم جنگ بندی میں نہیں بلکہ جنگ کے مرحلے میں ہیں، یہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے، ہمارے اور اسرائیلیوں یا ہمارے اور امریکیوں کے درمیان کوئی ضابطہ، کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا مطلب حملے روکنا ہے، صورتحال کسی بھی وقت بدل سکتی ہے۔
ایرانی حکام بار بار یہ کہتے آئے ہیں کہ ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن کسی نئی جھڑپ کے لیے تیار ہے۔
مغربی طاقتیں ایران پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے ذریعے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کی تہران سختی سے تردید کرتا رہا ہے، جنگ کے بعد اسرائیل اور امریکا نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے دوبارہ اپنی جوہری تنصیبات بحال کیں اور افزودگی کا عمل شروع کیا تو وہ دوبارہ حملہ کریں گے۔
اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ایران واحد ایسا غیر ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک ہے جو یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو 2015 کے بین الاقوامی معاہدے میں طے شدہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے، یہ سطح جوہری ہتھیار کے لیے درکار 90 فیصد افزودگی کے قریب ہے۔
گزشتہ ہفتے اس معاہدے کے فریق برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے خبردار کیا تھا کہ وہ اس کے تحت ختم کی گئی پابندیاں دوبارہ عائد کر سکتے ہیں، ایران نے سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے اور بعض حکام نے اشارہ دیا ہے کہ تہران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے بھی دستبردار ہوسکتا ہے۔
ایران اور آئی اے ای اے کے مذاکرات
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل بقاعی نے پیر کو سرکاری میڈیا کو بتایا کہ ایران اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا اور آئندہ دنوں میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور متوقع ہے۔
جون میں 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل اور امریکا کی بمباری کے بعد سے آئی اے ای اے کے معائنہ کار ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل نہیں کر سکے، حالانکہ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی بارہا کہہ چکے ہیں کہ معائنہ ان کی اولین ترجیح ہے۔
اسمٰعیل بقاعی نے کہا کہ ’گزشتہ ہفتے ہماری ایجنسی سے بات چیت ہوئی تھی، یہ بات چیت جاری رہے گی اور امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں ایران اور ایجنسی کے درمیان ایک اور دور ہوگا‘۔
اگر اگست کے آخر تک کوئی سفارتی حل نہ نکلا تو ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے تیار ہیں، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا مشترکہ خط
اپ ڈیٹ13 اگست 202504:30pm
یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سخت انتباہ کے ساتھ اقوام متحدہ کو خط لکھا اور دوبارہ پابندیوں کا عندیہ دیا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر اگست کے آخر تک کوئی سفارتی حل نہ نکلا تو وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور سلامتی کونسل کو بھیجے گئے خط میں تینوں یورپی طاقتوں نے کہا ہے کہ وہ تمام سفارتی وسائل استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہیں، تاکہ ایران ہتھیار بنانے والا ایٹمی پروگرام نہ تیار کرے جب تک تہران مقررہ آخری تاریخ پر عمل نہیں کرتا۔
ای 3 گروپ کے نام سے جانے جانے والے ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس اسنیپ بیک میکانزم کے استعمال کی دھمکی دی ہے جو 2015 کے بین الاقوامی معاہدے کا حصہ تھا، جس نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کو نرم کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت، جو اکتوبر میں ختم ہو رہا ہے، معاہدے کے کسی بھی فریق کو پابندیاں دوبارہ بحال کرنے کا حق حاصل ہے۔
تینوں ممالک نے ایران کو اقوام متحدہ کے ایٹمی نگرانی کے ادارے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے پر انتباہات جاری کیے ہیں۔
یہ صورتحال اس کے بعد پیدا ہوئی جب اسرائیل نے جزوی طور پر ایران کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے جون میں اس کے ساتھ 12 دن کی جنگ شروع کی اور امریکا نے بھی اس جنگ کے دوران بمباری کی۔
فرانس کے ژاں-نوئل بارو، برطانیہ کے ڈیوڈ لیمی اور جرمنی کے جوہان ویڈفل نے خط میں کہا کہ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ اگر ایران اگست 2025 کے آخر تک سفارتی حل تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں ہے یا توسیع کے موقع کا فائدہ نہیں اٹھاتا، تو ای 3 اسنیپ بیک میکانزم کو متحرک کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تینوں ممالک 2015 کے جامع مشترکہ منصوبے (جے سی پی او اے) کے دستخط کنندگان تھے جس میں امریکا، چین اور روس بھی شامل تھے، جس کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار کے لیے یورینیم کی افزودگی کم کرنے کی ترغیب دینا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکا کو اس معاہدے سے باہر نکال دیا اور نئی پابندیاں عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔
یورپی ممالک نے کہا کہ وہ معاہدے پر قائم رہیں گے، تاہم ان کا خط اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وزرائے خارجہ کے مطابق ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، بشمول یورینیم کے ذخائر کو 2015 کے معاہدے میں مقررہ سطح سے 40 گنا بڑھانا۔
وزرائے خارجہ نے خط میں لکھا کہ ای 3 ایران کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پیدا شدہ بحران کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں اور وہ مذاکراتی حل تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
خط کے مطابق ہم بھی مکمل طور پر تیار ہیں اور ہمارے پاس قانونی جواز موجود ہے کہ اگر اگست 2025 کے آخر تک کوئی قابل قبول حل نہ نکلا تو ’جے سی پی او اے‘ کی ایران کی غیر کارکردگی کے حوالے سے اسنیپ بیک میکانزم کو متحرک کریں۔
تعاون کا خاتمہ
امریکا پہلے ہی ایران کے ساتھ، جو ہتھیار بنانے سے انکار کرتا ہے، ایٹمی سرگرمیوں پر رابطے شروع کر چکا تھا۔
لیکن یہ رابطے اسرائیلی حملوں کے بعد معطل کر دیے گئے، جو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر جون میں کیے گئے۔
حملوں سے پہلے بھی بین الاقوامی طاقتوں نے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو محدود رسائی دینے پر تشویش ظاہر کی تھی۔
حملوں کے بعد ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تمام تعاون معطل کر دیا، تاہم اس نے اعلان کیا کہ ایجنسی کے نائب سربراہ تہران میں نئے تعاون کے معاہدے پر بات چیت کے لیے آئیں گے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پچھلے ماہ اقوام متحدہ کو خط بھیجا اور کہا کہ یورپی ممالک کے پاس پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا قانونی حق نہیں ہے۔
یورپی وزرائے خارجہ نے اس الزام کو بےبنیاد قرار دیا۔
انہوں نے زور دیا کہ جے سی پی او اے کے دستخط کنندگان کے طور پر وہ واضح اور غیر مبہم قانونی جواز کے ساتھ اقوام متحدہ کے متعلقہ پروویژنز استعمال کر کے ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ بحال کرنے کے لیے اسنیپ بیک میکانزم کو متحرک کرنے کے مجاز ہیں۔
جنگ بندی پر انحصار نہیں کر رہے، ہر ردعمل کیلئے تیار ہیں، اسرائیل نقصانات چھپا رہا ہے، ٹرمپ سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں، مسعود پزشکیان کا الجزیرہ کو انٹرویو
اپ ڈیٹ24 جولائ 202511:18am
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں، انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ تہران اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے جاری رکھے گا۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کو انٹرویو میں صدر پزشکیان نے کہا کہ ہم کسی بھی نئے اسرائیلی فوجی اقدام کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، اور ہماری مسلح افواج ایک بار پھر اسرائیل کے اندر گہرائی میں حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس جنگ بندی پر انحصار نہیں کر رہے جو 12 روزہ جنگ کے اختتام پر ہوئی تھی۔
صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں ہیں، اسی لیے ہم نے خود کو ہر ممکنہ منظرنامے اور کسی بھی ممکنہ ردعمل کے لیے تیار کیا ہے، اسرائیل نے ہمیں نقصان پہنچایا اور ہم نے بھی اسے شدید ضربیں لگائی ہیں، لیکن وہ اپنے نقصانات کو چھپا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے حملوں (جن میں اعلیٰ فوجی شخصیات اور جوہری سائنسدانوں کی اموات اور جوہری تنصیبات کو نقصان شامل تھا) کا مقصد ایران کی قیادت کو ختم کرنا تھا، لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
جون کے مہینے میں اسرائیل کے حملوں میں ایران میں 900 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، جب کہ 24 جون کو جنگ بندی عمل میں آنے سے قبل اسرائیل میں کم از کم 28 افراد مارے گئے۔
’افزودگی کا پروگرام جاری رہے گا‘
مسعود پزشکیان نے کہا کہ ایران بین الاقوامی مخالفت کے باوجود یورینیم کی افزودگی کا پروگرام جاری رکھے گا اور اس کی جوہری صلاحیتوں کی ترقی بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں اور ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، ہم جوہری ہتھیاروں کو مسترد کرتے ہیں اور یہ ہمارا سیاسی، مذہبی، انسانی اور تذویراتی مؤقف ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ہم سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے مستقبل کے کسی بھی مذاکرات ’ون-ون‘ منطق کے مطابق ہونے چاہئیں، اور ہم دھمکیوں یا جبر کو قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ ایران کا جوہری پروگرام ختم ہو چکا ہے، محض ایک فریب ہے، ہماری جوہری صلاحیتیں ہمارے سائنسدانوں کے ذہنوں میں ہیں، تنصیبات میں نہیں۔
مسعود پزشکیان کے بیانات ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ان بیانات سے بھی ہم آہنگ تھے جو انہوں نے پیر کے روز امریکی نشریاتی ادارے ’فاکس نیوز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں دیے۔
عباس عراقچی نے کہا تھا کہ تہران کبھی بھی یورینیم کی افزودگی کا پروگرام ترک نہیں کرے گا، لیکن وہ ایک ایسے مذاکراتی حل کے لیے تیار ہے جس میں وہ اس پروگرام کو پرامن ثابت کرنے کی ضمانت دے گا اور اس کے بدلے پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔
’اسرائیل نے ایرانی قیادت کو نشانہ بنایا‘
مسعود پزشکیان نے 15 جون کو تہران میں سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران اسرائیل کی جانب سے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر بھی بات کی، جس میں انہیں معمولی زخم آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی کمانڈرز کا ایک حصہ تھا تاکہ ایرانی قیادت کو نشانہ بنا کر ملک میں افراتفری پھیلا دی جائے اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی حملوں کے جواب میں ایران کی جانب سے قطر کے العدید اڈے پر کیے گئے حملے قطر یا اس کے عوام پر حملہ نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ذہن میں کبھی یہ تصور بھی نہیں آیا کہ قطر اور ہمارے درمیان کوئی دشمنی یا رقابت ہو، اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حملوں کے دن قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو فون کر کے اپنی پوزیشن واضح کی تھی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ’میں صاف اور دیانت داری سے کہتا ہوں کہ ہم نے قطر پر حملہ نہیں کیا، بلکہ اس امریکی اڈے پر حملہ کیا جس نے ہمارے ملک پر بمباری کی، جبکہ قطر اور اس کے عوام کے لیے ہمارے جذبات ہمیشہ مثبت رہے ہیں‘۔
یورپی طاقتوں سے مذاکرات بحال ہوں گے
عباس عراقچی نے پیر کو کہا تھا کہ ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم اب بھی یہ جائزہ لے رہی ہے کہ گزشتہ ماہ کے حملوں نے ایران کے افزودہ مواد کو کس حد تک متاثر کیا، اور تہران جلد ہی اس کی تفصیلات عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون بند نہیں کیا اور اگر ایجنسی دوبارہ معائنہ کار بھیجنے کی درخواست کرے گی تو اسے پرکھا جائے گا۔
آئی اے ای اے کے معائنہ کار اس ماہ کے آغاز میں ایران چھوڑ گئے تھے، جب مسعود پزشکیان نے ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے والا قانون منظور کیا تھا۔
دریں اثنا، ایران، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات جمعہ کو ترکیہ میں ہونے والے ہیں۔
یورپی فریقین، جو ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے (جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن) کا حصہ تھے، کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران نے مذاکرات دوبارہ شروع نہ کیے تو اس پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔
2 ایٹمی تنصیبات کو صرف اس حد تک نقصان پہنچا کہ اگر ایران چاہے تو آنے والے مہینوں میں دوبارہ افزودگی شروع کر سکتا ہے، رپورٹ
اپ ڈیٹ17 جولائ 202505:53pm
ایک نئے امریکی جائزے کے مطابق گزشتہ ماہ امریکا کے حملوں میں ایران کی تین ایٹمی تنصیبات میں سے صرف ایک کو شدید نقصان پہنچا، باقی دو تنصیبات نسبتاً کم متاثر ہوئی تھیں۔
العریبیہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نیوز نے موجودہ اور سابق امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ایک نئے امریکی جائزے کے مطابق جون میں کیے گئے امریکی حملوں میں ایران کی تین ایٹمی تنصیبات میں سے صرف ایک کو شدید نقصان پہنچا، باقی دو تنصیبات نسبتاً کم متاثر ہوئی تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام کا ماننا ہے کہ ایران کی فردو جوہری سائٹ پر حملہ کامیاب رہا اور اس کی افزودگی کی صلاحیت کو دو سال تک پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، اس بات کی تصدیق دو موجودہ حکام نے کی۔
تاہم رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ باقی 2 تنصیبات کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا، انہیں اس حد تک نقصان پہنچا کہ اگر ایران چاہے تو آنے والے مہینوں میں دوبارہ افزودگی شروع کر سکتا ہے۔
رائٹرز این بی سی کی رپورٹ کی فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکا، وائٹ ہاؤس نے بھی رائٹرز کی تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
این بی سی نیوز کو جاری ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان اینا کیلی نے کہا کہ’ جیسا کہ صدر نے کہا ہے اور ماہرین نے تصدیق کی ہے، آپریشن مڈ نائٹ ہیمر نے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔’
پینٹاگون کے چیف ترجمان شان پارنیل نے این بی سی کو بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’ پریقین تھے اور امریکی عوام جانتے ہیں کہ ایران کی فردو، اصفہان اور نطنز میں موجود جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔’
واضح رہے کہ امریکا نے گزشتہ ماہ ایران اسرائیل کی جنگ کے دوران ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے اور کہا تھا کہ اس کا پروگرام جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے، جبکہ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر سول مقاصد کے لیے ہے۔
جون میں دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک ابتدائی جائزے میں کہا گیا تھا کہ حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو صرف چند ماہ کے لیے پیچھے دھکیلا جا سکا ہے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے حکام کا کہنا تھا کہ یہ جائزہ مستند نہیں تھا اور بعد کی انٹیلی جنس سے ظاہر ہوا کہ ایران کا جوہری پروگرام شدید متاثر ہوا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی تسلیم کیا تھا کہ فردو جوہری سائٹ پر حملے سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیل نے اس علاقے پر بمباری کرنے کی کوشش جہاں ہم اجلاس کررہے تھے، مسعود پزشکیان کا امریکی میڈیا کو انٹرویو
شائع07 جولائ 202511:55pm
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ایران کو امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں ’ کوئی مسئلہ نہیں’ ہے، بشرطیکہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان اعتماد بحال ہو سکے، انہوں نے اسرائیل پر انہیں قتل کرنے کی کوشش کا بھی الزام لگایا۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ان خیالات کا اظہار امریکی صحافی اور ٹرمپ کے سابق قریبی ساتھی ٹکر کارلسن کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر بغیراشتعال فضائی حملوں کے ذریعے جنگ مسلط کردی گئی تھی اور امریکا نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے ملاقات سے چند دن پہلے ہوئے تھے، جس سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے جن کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر ایک معاہدے تک پہنچنا تھا۔
ایرانی صدر نے کہاکہ’ ہمیں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایک شرط ہے… ہم امریکا پر دوبارہ کیسے بھروسہ کریں گے؟’
انہوں نے کہاکہ ’ ہم مذاکرات شروع بھی کردیتے ہیں تو بھی ہم یہ یقین کیسے کریں کہ مذاکرات کے وسط میں، اسرائیلی حکومت کو دوبارہ ہم پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟’
مسعود پزشکیان نے یہ بھی کہا کہ تل ابیب کے حملوں میں اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کی شہادت کے بعد اسرائیل نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی۔
مسعود پزشکیان نے ٹکر کارلسن کو اس سوال کے جواب میں کہ کیا انہیں یقین ہے کہ اسرائیل نے انہیں مارنے کی کوشش کی تھی، کہا کہ’ انہوں نے کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔’
انہوں نے فارسی سے اپنے ریمارکس کے ترجمہ کے مطابق کہا، کہ میری جان لینے کی کوشش کے پیچھے امریکا نہیں تھا، یہ اسرائیل تھا، میں ایک اجلاس میں تھا… انہوں نے اس علاقے پر بمباری کرنے کی کوشش کی جہاں ہم وہ اجلاس کر رہے تھے۔’
ایرانی عدلیہ کے مطابق، جنگ کے دوران ایران میں 900 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے، اسرائیلی حملوں کا ایران نے بھرپور جواب جن میں حکام کے مطابق اسرائیل میں 28 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
’ہمیشہ کی جنگیں‘
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ میں، اس نے امریکا کے ساتھ مل کر فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے، ایران اور اسرائیل کے درمیان 24 جون سے جنگ بندی برقرار ہے۔
ٹکر کارلسن کے ساتھ انٹرویو کے دوران، مسعود پزشکیان نے نیتن یاہو پر مشرق وسطیٰ میں ’ ہمیشہ کی جنگوں’ کے اپنے ’ اپنے ایجنڈے’ کو آگے بڑھانے کا الزام لگایا اور امریکا پر زور دیا کہ وہ اس میں نہ پھنسے۔
انہوں نے کہا، ’ امریکی انتظامیہ کو ایسی جنگ میں ملوث ہونے سے باز رہنا چاہیے جو امریکہ کی جنگ نہیں، یہ نیتن یاہو کی جنگ ہے۔’
مسعود پزشکیان نے کہا، ’ مجھے یقین ہے کہ امریکی صدر خطے اور دنیا کی امن اور سکون کی طرف رہنمائی کر سکتے ہیں، یا، دوسری جانب، اسے ہمیشہ کی جنگوں کی طرف لے جا سکتے ہیں۔’
جب ایران کے جوہری پروگرام کو ترک کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو، مسعود پزشکیان نے دہرایا کہ تہران جوہری ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں تھا، اور نہ ہی ماضی میں تھا۔
ایرانی صدر نے کہا، ’ نیتن یاہو نے 1984 سے یہ غلط ذہنیت پیدا کی ہے کہ ایران جوہری بم چاہتا ہے… اور اس نے تب سے ہر امریکی صدر کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے۔ ’
انہوں نےمزید کہا’ ہم نے کبھی بھی جوہری بم بنانے کی کوشش نہیں کی… کیونکہ یہ غلط ہے اور اس مذہبی فرمان کے خلاف ہے جو ان کے سپریم لیڈر نے جاری کیا ہے کہ ہمارے لیے جوہری بم بنانے کی کوشش کرنا مذہبی طور پر حرام ہے۔’
جب یہ پوچھا گیا کہ کیا امریکیوں کو ایران سے ڈرنا چاہیے، تو مسعود پزشکیان نے ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ ایرانیوں کے بارے میں ’ ایک بہت غلط تاثر’ ہے۔
انہوں نے وضاحت کی، ’ ایران نے پچھلے 200 سالوں میں کبھی کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا۔’ انہوں نے مزید کہا کہ جب ایرانی’امریکا مردہ باد’ کا نعرہ لگاتے ہیں تو ان کا مطلب ’ امریکا کے لوگوں یا حکام کی موت’ نہیں ہوتا۔
ایرانی صدر نے کہا،’ ان کا مطلب جرائم، مظالم، دھونس، طاقت کے استعمال اور ہر اس شخص کی ’موت‘ ہے جو دوسروں کے ذریعے کیے گئے جرائم میں شریک ہو گا۔’
بعد میں، مسعود پزشکیان نے ایکس پر کہا: ’ میں نے ٹکر کارلسن سے کہا: جب ہم امریکا کی درخواست پر نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے، تو نیتن یاہو نے، سفارت کاری پر، بمباری کی۔ ’
انہوں نے لکھا، ’ اسرائیل نے مذاکرات کو سبوتاژ کیا اور امن کو قتل کیا، دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ عمل کو کس نے پٹڑی سے اتارا۔’
ایرانی صدر نے کہا کہ ان کے ملک نے نہ تو جنگ شروع کی اور نہ ہی وہ اسے جاری رکھنا چاہتا تھا۔
مسعود پزشکیان نے لکھا، ’ پہلے دن سے ہی ہماری پالیسی واضح رہی ہے: ملک میں اتحاد، پڑوسیوں کے ساتھ امن، اور خطے میں استحکام۔’ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کو نیتن یاہو کو لگام ڈالنے یا اس کی پیروی کرتے ہوئے ’ ایک اور ہمیشہ کی جنگ’ کے درمیان انتخاب کرنا ہوگا، اور مزید کہا کہ صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی نیتن یاہو کو روک سکتے ہیں۔
ایرانی صدر نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی سرمایہ کاروں کو ’ ایران میں خوش آمدید’ کہیں گے۔
واقعہ مغربی ایران کے شہر خرمآباد میں پیش آیا، پاسداران انقلاب کے دونوں اہلکار صہیونی حکومت کی جارحیت کے نتیجے میں باقی رہنے والے دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے شہید ہوئے، ایرانی میڈیا
شائع06 جولائ 202504:14pm
مغربی ایران میں اسرائیلی دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بنانے کی کوشش کے دوران پاسداران انقلاب کے 2 اہلکار شہید ہوگئے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ اتوار کو ایران کے مغربی علاقے خرمآباد میں دو ایرانی پاسدارانِ انقلاب اُس وقت شہید ہو گئے جب وہ اسرائیلی حملوں کے بعد علاقے میں بچ جانے والے دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان 13 جون کو شروع ہونے والی 12 روزہ جنگ میں اسرائیلی فضائی حملوں نے شدت اختیار کی، جس کے بارے میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ان کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا تھا، جس کی ایران مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔
تسنیم نیوز ایجنسی نے پاسدارانِ انقلاب کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’اتوار کو خرمآباد میں صہیونی حکومت کی جارحیت کے نتیجے میں باقی رہنے والے دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے پاسدارانِ انقلاب کے 2 اہلکار شہید ہو گئے‘۔
اس جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈر، پاسدارانِ انقلاب کے اہلکار اور بعض ممتاز جوہری سائنسدان بھی شہید ہوئے۔
ایرانی عدلیہ کے مطابق، ان حملوں میں پورے ملک میں 900 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ ایران کے جوابی میزائل حملوں میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہوئے، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی 24 جون کو نافذ ہوئی۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ہفتے کو جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار منظر عام پر آئے جب انہوں عاشورہ محرم کے اجتماع میں شرکت کی۔
ایران نے جمعرات کو تہران سمیت ملک بھر میں اپنی فضائی حدود دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا، جسے جنگ کے پہلے روز بند کر دیا گیا تھا۔
تقریب سے غیر حاضری کوئی نادر، بے مثال یا عجیب واقعہ نہیں ہے، یہ ان کے معمول کے کردار اور روایت سے وابستگی ہے، ایرانی ثقافتی مشیر
شائع03 جولائ 202509:05pm
اپنی رہائشگاہ پر منعقد ہونے والی محرم کی تقریب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے شرکت نہیں کی، کیا اب بھی ان کی زندگی کو خطرہ ہے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایران میں محرم الحرام کے حوالے سے ہونے والی ایک اعلی سطح کی تقریب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی رہائش گاہ امام خمینی حسینیہ میں منعقد ہوئی، تاہم اس میں وہ شریک نہیں ہوئے، جبکہ ہر سال وہ تقریب میں موجود ہوتے تھے۔
ایران پر صہیونی ریاست کے حملے کے بعد سے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای عوامی مقامات پر نظر نہیں آئے، اس غیر موجودگی نے عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔
صرف کووڈ-19کے دوران تقریب عوام کے بغیر منعقد نہیں کی گئی تھی، تاہم سپریم لیڈر روضہ حسینیہ میں اکیلے نمودار ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ آیت اللہ خامنہ ای اسرائیل اور ایران جنگ کے آغاز کے بعد سے تقریباً 22 دن سے منظر عام پر نہیں ہیں، جبکہ معمول سے ہٹ کر وہ شہید ہونے والے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں سال ہونے والی یہ تقریب کئی انداز میں مختلف تھی، جہاں کئی فوجی کمانڈروں کے ساتھ انتظامیہ اور عدلیہ کے سربراہان نے بھی شرکت کی، جبکہ متعدد بچے بھی شریک ہوئے، جنہوں نے شہید کمانڈروں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
لبنان میں ایران کے ثقافتی مشیر اور آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھی کامل باقر زادہ نے تقریب میں ایران کے رہبر اعلیٰ کی غیر موجودگی کو ’تحفظ پسندانہ نظریہ‘ کی پاسداری قرار دیا ہے۔
انہوں نے لکھاکہ ’تقریب سے غیر حاضری کوئی نادر، بے مثال یا عجیب واقعہ نہیں ہے، درحقیقت یہ ان کے معمول کے کردار اور روایت سے وابستگی ہے، جو اپنے ذاتی مفادات پر محافظ ٹیم کی ماہرانہ رائے کو ترجیح دینا ہے۔‘
یاد رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا تھا، جبکہ 12 دن بعد جنگ بندی ہو گئی، لیکن سپریم لیڈر خامنہ ای عوام کے سامنے نہیں آئے۔
27 جون کو اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اعتراف کیا تھا کہ اسرائیلی اہلکاروں نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی بہت کوشش کی تھی، مگر کوئی عملی موقع نہیں مل سکا تھا۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا کو معلوم ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کہاں چھپے ہوئے ہیں۔
امریکی صدر نے مزید کہا تھا کہ خامنہ ای اس وقت ہمارے لیے ایک آسان ہدف ہیں لیکن فی الحال ہم انہیں نشانہ نہیں بنائیں گے۔
دو جولائی کو ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون باضابطہ طور پر معطل کر دیا تھا
شائع03 جولائ 202508:20pm
ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ( این پی ٹی ) سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے ( آئی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے تہران کے فیصلے پر جرمنی کی تنقید کو بدنیتی قرار دیا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا کہ ’ ایران این پی ٹی اور اس کے سیف گارڈز ایگریمنٹ پر قائم ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ’ ایران پر بمباری کی جرمن حمایت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جرمن حکومت ایرانیوں کے لیے بد نیتی کے سوا کچھ نہیں رکھتی۔’ یہ بات انہوں نے جرمن دفتر خارجہ کی اُس پوسٹ کے جواب میں کہی جس میں ایران کے اقدام پر تنقید کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ بدھ کو، ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون باضابطہ طور پر معطل کر دیا تھا، جس کی وجہ ایجنسی کا اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت نہ کرنا تھا جو ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے تھے۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں، جرمنی کی وزارت خارجہ نے ایران سے ’ اس فیصلے کو واپس لینے’ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک ’ تباہ کن پیغام’ دیتا ہے۔
پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ’ اس اقدام سے ایرانی جوہری پروگرام پر بین الاقوامی نگرانی کا امکان ختم ہوجائے گا، جو ایک سفارتی حل کے لیے انتہائی اہم ہے۔’
عباس عراقچی نے 13 جون کو جرمنی کی ’ اسرائیل کے ایران پر غیر قانونی حملے کی واضح حمایت’ کی شدید مذمت کی تھی، جس میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈر اور جوہری سائنسدان شہید ہوئے تھے۔
17 جون کو، جرمن چانسلر فریڈرک میرز نے کہا تھا کہ اسرائیل ایران کے جوہری ڈھانچے کو نشانہ بنا کر’ ہم سب کے لیے گندا کام کر رہا ہے۔’
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ میں، اسرائیل نے امریکا کے ساتھ مل کر فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیےتھے۔
عدلیہ کے مطابق، اس جنگ کے دوران ایران میں 900 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔
حزب اللہ کے زیر کنٹرول مالیاتی ادارے 'القرض الحسن' سے منسلک کئی اعلیٰ عہدیداروں اور ایک ادارے پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں، امریکی محکمہ خزانہ
شائع03 جولائ 202507:57pm
امریکا نے ایرانی تیل کی تجارت کرنے والے ایک کاروباری نیٹ ورک اور حزب اللہ کے زیر کنٹرول ایک مالیاتی ادارے پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ نے بتایا کہ یہ اقدامات ایران کی معیشت اور حزب اللہ کے مالی ڈھانچے پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کا حصہ ہے۔
محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ عراقی بزنس مین سلیم احمد سعید کے زیر انتظام کمپنیوں کا ایک نیٹ ورک کم از کم 2020 سے ایرانی تیل کو عراقی تیل ظاہر کر کے یا اس میں ملا کر اربوں ڈالر مالیت کا تیل خرید اور فروخت کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ تہران کے مالی ذرائع کو نشانہ بنانے اور ایسے مالی وسائل تک رسائی روکنے کے لیے دباؤ بڑھاتے رہیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ متعدد بحری جہازوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن پر ایرانی تیل کی خفیہ ترسیل میں ملوث ہونے کا الزام ہے، یہ اقدام ایران کے ’شیڈو فلیٹ‘ کے خلاف دباؤ کو مزید سخت کرنے کی کوشش ہے۔
اس کے علاوہ، امریکی محکمہ خزانہ نے حزب اللہ کے زیر کنٹرول مالیاتی ادارے ’القرض الحسن‘ سے منسلک کئی اعلیٰ عہدیداروں اور ایک ادارے پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔
محکمہ کے مطابق ان عہدیداروں نے لاکھوں ڈالر کی ایسی مالی لین دین کی، جس سے بالآخر حزب اللہ کو فائدہ ہوا، لیکن اس کا اصل مقصد چھپایا گیا۔
جس طرح عالمی رہنماؤں کو قائل کیا گیا ہے اور جس طرح یہ معاملہ انجام کو پہنچا ہے، اس میں ہمارے رہنماؤں کا کردار ہے، وزیر داخلہ کی علمائے کرام کے اجلاس میں گفتگو
اپ ڈیٹ03 جولائ 202501:14pm
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ایران کی کامیابی اور سیز فائر میں وزیراعظم کا بڑا کردار ہے اور اس کے پیچھے بھی وردی ہے، جس طرح عالمی رہنماؤں کو قائل کیا گیا ہے اور جس طرح یہ معاملہ انجام کو پہنچا ہے، اس میں ہمارے رہنماؤں کا کردار ہے۔
اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ تمام علمائےکرام کی آمد پر شکریہ ادا کرتا ہوں، علمائےکرام کا معاشرے میں اہم کردار ہے، قیام امن کے لیے علما نے ہمیشہ کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ محرم میں مذہبی ہم آہنگی کا فروغ انتہائی ضروری ہے، ہم سب کا نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ اپنا مسلک چھوڑو مت اور کسی کے مسلک کو چھیڑو مت، امام حسینؓ کسی ایک مسلک کے نہیں سب کے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ بھارت کے خلاف جنگ میں اللہ مدد و نصرت شامل رہی، ہم نے بھارت کی طرف میزائل فائر کیے تو ایک میزائل میں کچھ نمبروں کا فرق آگیا، سب پریشان ہوئے کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ بھارت میں شہری آبادی کو نقصان پہنچے، یا ایک شہری بھی مارا جائے، انہوں نے ہماری شہریوں کو نشانہ بنایا لیکن ہم یہ نہیں کریں گے۔
محسن نقوی نے بتایا کہ ہمیں یہ پریشانی تھی کہ یہ میزائل آبادی پر گر جائے گا مگر اللہ کی طرف سے یہ مدد آئی کہ وہی میزائل ان کے سب سے بڑے آئل ڈپو پر گرا اور آگ لگ گئی، بھارت کی وڈیوز میں جو سب سے بڑی آگ والی اسی میزائل کی ویڈیو ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرا قصہ یہ ہے کہ بھارت نے ایک ایئربیس پر 9 یا 11 میزائل فائر کیے، اس بیس پر ہمارے جہاز بھی تھے اور باقی لوگ بھی تھے، ہم بڑے پریشان تھے کہ یہ میزائل گرے تو بہت نقصان ہوجائے گا، مگر ایک بھی میزائل بیس پر نہیں گرا، کوئی آگے گرا اور کوئی پیچھے گرا، یہ مثالیں غیبی مدد کا ثبوت ہیں، جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف اس وقت بالکل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے اور وہ بالکل واضح تھے کہ اگر بھارت نے حملہ کیا تو وہ چار گنا زیادہ بھگتے گا اور انہوں نے بھگتا۔
’مقامی مدد کے خاتمے تک خیبرپختونخوا میں دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ محرم کے بعد تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے پاس جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ 14 اگست کو تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ ظہر کی نماز فیصل مسجد میں ادا کریں تاکہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ ہم سب اکٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی عروج پر ہے، ہم سب اکٹھے وہاں جاکر علمائے کرام سے ملاقات کریں گے، خاص طور پر جن مقامات پر دہشت گردی زیادہ ہے وہاں ہم سب جائیں گے، کیونکہ دہشت گردی صرف اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہے جب مقامی لوگ دہشت گردوں کی مدد کرنا بند کردیں، جس دن مدد ختم ہوگئی دہشت گرد اس گلی، محلے اور گاؤں میں نہیں رہ سکتے۔
صدر مسعود پزیشکیان نے ' بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے قانون کی حتمی منظوری دے دی ہے، ایرانی میڈیا
اپ ڈیٹ02 جولائ 202505:54pm
تہران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے ( آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون باضابطہ طور پر معطل کر دیا، یہ اقدام اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد اُٹھایا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 13 جون کو ایران اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ 12 دن تک جاری رہی تھی، جس کے بعد تہران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے درمیان تناؤ مزید بڑھ گیا تھا۔
25 جون کو، جنگ بندی کے ایک دن بعد، ایرانی قانون سازوں نے بھاری اکثریت سے اس بل کے حق میں ووٹ دیا جس کے تحت ایجنسی کے ساتھ تعاون کو معطل کیا گیا۔
سرکاری میڈیا نے آج بتایا کہ اس قانون سازی نے آخری مرحلہ بھی عبور کر لیا ہے اور اب یہ قانون نافذ العمل ہوچکا ہے۔
ایرانی میڈیا میں شائع ہونے والے قانون کے متن کے مطابق یہ قانون سازی ’ اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کے تحت بنیادی حقوق کی مکمل حمایت کو یقینی بنانے’ اور ’ خصوصاً یورینیم کی افزودگی’ کے مقصد سے کی گئی ہے۔
یورینیئم افزودگی کا معاملہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان جوہری مذاکرات میں اختلافات کی اصل وجہ رہا، جو جنگ کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
اسرائیل اور بعض مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، تاہم تہران نے اس الزام کی ہمیشہ تردید کی ہے۔
قانون کے متن میں آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات نہیں بتائے گئے، حالانکہ ایجنسی کے معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل تھی۔
پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے بعد اس بل کو گارڈین کونسل نے منظور کیا، جو قانون سازی کی جانچ پڑتال کی ذمہ دار ہے، اور اس کے بعد صدارتی منظوری دی گئی۔
ایرانی سرکاری ٹی وی نے آج بتایا کہ صدر مسعود پزیشکیان نے ’ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے قانون کی حتمی منظوری دے دی ہے۔’
ایرانی حکام نے آئی اے ای اے پر شدید تنقید کی ہے کہ اس نے اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں پر ’ خاموشی’ اختیار کی۔
’فریب دہی اور دھوکا بازی‘
تہران نے اقوام متحدہ کے ادارے کی اس قرارداد کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جو 12 جون کو منظور ہوئی تھی اور جس میں ایران پر جوہری ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کا الزام لگایا گیا تھا۔
ایرانی حکام نے کہا کہ یہ قرارداد (ایران پر) اسرائیلی حملوں کے لیے ’ بہانے’ میں شامل تھی۔
سینئر عدالتی عہدیدار علی مظفری نے آج کہا کہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کو اس ’ جرم’ کی تیاری کے لیے ’ جوابدہ’ ٹھہرایا جانا چاہیے، جس سے ان کی مراد اسرائیلی فضائی حملے تھے۔
ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق علی مظفری نے رافیل گروسی پر ’ فریب کاری اور جھوٹی رپورٹس’ جاری کرنے کا الزام لگایا۔
ایران نے رافیل گروسی کی اُس درخواست کو مسترد کر دیا، جس میں انہوں نے جنگ کے دوران بمباری کا نشانہ بننے والی جوہری تنصیبات کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، اور اس ہفتے کے اوائل میں پزیشکیان نے ان کے طرزِ عمل کو ’ تخریبی’ قرار دیا تھا۔
ایران کا کہنا ہے کہ رافیل گروسی کی جانب سے بمباری زدہ مقامات کا دورہ کرنے کی درخواست ’ بد نیتی’ کو ظاہر کرتی ہے لیکن یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ رافیل گروسی یا ایجنسی کے معائنہ کاروں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ نےآئی اے ای اے کے سربراہ کے خلاف’ دھمکیوں’ کی مذمت کی ہے۔
ایران کے انتہائی قدامت پسند اخبار کیہان نے حالیہ دنوں میں دعویٰ کیا ہے کہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ رافیل گروسی اسرائیلی جاسوس ہیں اور انہیں پھانسی دی جانی چاہیے۔
’سنگین‘ نقصان
پیر کے روز ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل بقائی نے کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی ووٹنگ ایرانی عوام کی’ تشویش اور غصے’ کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ 12 روزہ جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی جب اسرائیل نے ایران پر بڑے پیمانے پر بمباری کی اور اعلیٰ فوجی کمانڈرز، جوہری سائنسدانوں اور سیکڑوں شہریوں کو شہید کر دیا تھا، جس کے جواب میں تہران نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز کی بارش کر دی تھی۔
22 جون کو اسرائیل کے اتحادی امریکا نے نے فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر اپنی نوعیت کے پہلے حملے کیے تھے۔
عدلیہ کے مطابق ایران میں اسرائیلی حملوں میں 900 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق ایران کے جوابی حملوں میں اسرائیل میں 28 افراد ہلاک ہوئے تھے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو ’ تباہ’ کر دیا، اگرچہ نقصان کی مکمل تفصیل واضح نہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جوہری تنصیبات کو ’ سنگین’ نقصان پہنچنے کا اعتراف کیا تھا، تاہم انہوں نے سی بی ایس ایوننگ نیوز کو حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ ’بمباری سے کسی ٹیکنالوجی یا سائنس کو مکمل طور پر مٹایا نہیں جا سکتا۔‘
کیا ہمیں ایک بار پھر ڈائیلاگ میں مصروف کر کے دوبارہ حملے کیے جائیں گے ؟ امریکا کو اس اہم سوال پر اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی، ڈپٹی وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی
شائع30 جون 202505:41pm
ایران کے ڈپٹی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات اُس وقت تک بحال نہیں ہو سکتے جب تک امریکا مزید حملے نہ کرنے کی یقین دہانی نہیں کرواتا۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے ڈپٹی وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی کا کہنا تھا کہ امریکا نے دوبارہ مذاکرات کی ٹیبل پر آنے کے اشارے دیے ہیں، ہم فی الحال کسی بھی تاریخ پر رضا مند نہیں ہوئے اور نہ ہی بات چیت کے کسی ممکنہ طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے کہا اس وقت ہم اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا ہم ایک بار پھر سے ڈائیلاگ کے دوران جارحیت کا مظاہرہ دیکھیں گے ؟ امریکا کو اس اہم سوال پر اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔
خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری تھے کہ اس دوران اسرائیل نے ایران کے جوہری سائٹس، فوجی تنصیبات کو فضائی حملوں سے نشانہ بنایا تھا، بعد ازاں امریکا نے بھی 21 جون کو ایران کی فرودو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات پر بم گرائے تھے۔
ایرانی ڈپٹی وزیرخارجہ نے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ امریکا نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ہدف بناتے ہوئے رجیم کی تبدیلی نہ کرنے کے اشارے دیے ہیں۔
ماجد تخت روانچی نے مزید کہا کہ ایران کو جوہری افزودگی کی اجازت ملنی چاہیے تاہم اس کی مقدار اور گنجائش پر بات چیت ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ آپ یورینیم کی افزودگی نہیں کر سکتے، آپ کے پاس یورینیم کی افزودگی صفر ہو اور اگر آپ اس بات پر رضامند نہ ہوں، ہم آپ پر بم برسائیں گے، یہ ایک جنگل کا قانون ہے۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ ایرانی کا جوہری پروگرام بم بنانے کے قریب تھا، جبکہ ایران کا ماننا ہے کہ تہران پر امن مقاصد کے لیے یہ کر رہا ہے۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ایران کی جوہری تنصیبات کو امریکی حملوں کے بعد کس حد تک نقصان پہنچا ہے حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کےجوہری توانائی سے متعلق نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا تھا کہ ایران آئندہ کچھ ماہ کے دوران دوبارہ یورینیم کی افزودگی کے قابل ہو جائے گا۔
تخت روانچی کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔
2015 کے معاہدے کے تحت ایران کو 3.67 فیصد یورینیم کی فیول اور کمرشل نیوکلیئر پاور پلائنٹس کے لیے افزودگی کی اجازت حاصل تھی، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد ایران یورینیم کی افزودگی کو 60 فیصد تک لے گیا تھا، اگر اس مٹیریل کو مزید ریفائن کیا جاتا تو یہ ممکنہ طور پر 9 سے زائد نیوکلیئر بموں کے لیے کافی ہوتا۔
میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے گفتگو میں پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا کہ وہ جنگ کےدوران ایران کے ساتھ کھڑے رہے، ایرانی میڈیا
اپ ڈیٹ29 جون 202511:04pm
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حمایت پر پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے اتوار کو چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں اسلام آباد کے بہادرانہ موقف کی تعریف کی۔
میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے فیلڈ مارشل سے گفتگو میں پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا کہ وہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی 12 روزہ جارحیت کے دوران ایران کے ساتھ کھڑے رہے۔
ایرانی کمانڈر نے صہیونی حکومت کی جانب سے ایرانی عوام کے خلاف بلا اشتعال جارحیت کے جواب میں پاکستانی عوام کے جرأتمندانہ موقف کا بھی شکریہ ادا کیا۔
خیال رہے کہ جب اسرائیلی حکومت نے 13 جون کو ایران پر اپنی وحشیانہ جارحیت شروع کی، تو پاکستان کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایران کی حمایت کی گئی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر سے ٹیلی فونک گفتگو میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت تمام سفارتی فورمز پر ایران کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا تھا اور تمام فریقوں سے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی پاسداری پر زور دیا تھا۔
وزیرخارجہ اسحٰق ڈار نے بھی ایرانی ہم منصب سے گفتگو میں ایک بار پھر اپنی حکومت کے اس مؤقف کا اعادہ کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی رکھتی ہے، انہوں نے ایرانی عوام کے لیے پاکستانی عوام کی حمایت کو بھی اجاگر کیا تھا۔
وزیرخارجہ و وزیردفاع نے اسرائیل کے بلااشتعال ایران پر حملے کے بعد کہا تھا کہ دنیا کو اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں ہوشیار اور فکرمند رہنا چاہیے، جو کسی بھی بین الاقوامی جوہری ضابطے کا پابند نہیں اور نہ ہی جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) معاہدے کا پابند ہے۔
آئی اے ای اے کو جوہری تنصیبات پر نگرانی کے لیے کیمرے لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایرانی وزیرخارجہ
اپ ڈیٹ29 جون 202511:05pm
ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی ( آئی اے ای اے ) کے سربراہ رافیل گروسی کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی۔
ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ہفتے کے روز اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کےجوہری نگران ادارے ( آئی اےای اے ) کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی کو ایران میں داخل ہونے اور آئی اے ای اے کو جوہری تنصیبات پر نگرانی کے لیے کیمرے لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انادولو ایجنسی نے ایرانی قومی خبر رساں ایجنسی ارنا (آئی آر این اے ) کے حوالے رپورٹ کیا کہ عباس عراقچی نے ایک بیان میں کہاکہ’ ہم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو اپنی جوہری تنصیبات پر کیمرے لگانے کی اجازت نہیں دیں گے، اور ایجنسی کے سربراہ کے ملک میں داخلے پر پابندی ہوگی۔’
یہ اعلان اسرائیل اور امریکا کے ساتھ حالیہ فوجی تنازعات کے بعد نگرانی تک رسائی اور شفافیت پر تہران اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے۔
یہ اقدام ایران کی پارلیمنٹ کی جانب سے بدھ کے روز آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی قانون سازی کی منظوری کے بعد کیا گیا ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ تنازعہ 13 جون کو اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے ایران کے فوجی، جوہری اور شہری ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس میں ایران کی وزارت صحت کے مطابق کم از کم 606 افراد شہید اور 5332 زخمی ہوئے۔
تہران نے اسرائیل پر جوابی میزائل اور ڈرون حملے کیے، جس میں یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 29 افراد ہلاک اور 3400 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
21 جون کو امریکا بھی براہ راست اس لڑائی میں شامل ہو گیا تھا، اور اس نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔
اس کے جواب میں ایران نے قطر میں امریکی بیس پر میزائل حملے کیے تھے جس کے بعد 24 جون کو امریکا کے زیرپرستی ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوگئی تھی۔
امریکی حملوں سے شدید نقصان تو ہوا مگر ( ایرانی ایٹمی سائٹس) تباہ نہیں ہوئیں، رافیل گروسی
اپ ڈیٹ29 جون 202511:06pm
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے ) کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ایران ’ چند ماہ کے اندر’ دوبارہ یورینیم افزودہ کرنا شروع کر سکتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گروسی نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں تین ایرانی مقامات ( ایٹمی سائٹس) پر امریکی حملوں سے شدید نقصان تو ہوا لیکن ( یہ سائٹس) ’ مکمل’ تباہ نہیں ہوئیں۔
سربراہ آئی اے ای اے کا یہ بیان ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کے خلاف ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات ’ مکمل طور پر تباہ’ ہو چکی تھیں۔
رافیل گروسی نے ہفتے کے روز کہا کہ ’ صاف الفاظ میں، کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ سب کچھ غائب ہو گیا ہے اور وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔’
خیال رہے کہ اسرائیل نے 13 جون کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے، ایران کے جوہری اور فوجی ٹھکانوں پر حملہ کردیا تھا۔
بعدازاں امریکا ان حملوں میں شامل ہو گیا تھا اور اس نے ایران کی تین جوہری تنصیبات: فردو، نطنز اور اصفہان پر بم گرائے تھے، تاہم امریکی بمباری سے جوہری سائٹس کو پہنچنے والے نقصان کی حقیقی حد غیر واضح ہے۔
ہفتے کے روز، گروسی نے بی بی سی کے امریکی میڈیا پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ تہران ’ چند ماہ کے اندر افزودہ یورینیم پیدا کر سکتا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے پاس اب بھی’ صنعتی اور تکنیکی صلاحیتیں… موجود ہیں، لہٰذا اگر وہ چاہیں گے، تو وہ اسے دوبارہ شروع کر سکیں گے۔’
آئی اے ای اے یہ تجویز کرنے والی پہلی تنظیم نہیں ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں جاری رہ سکتی ہیں، اس ہفتے کے شروع میں، پینٹاگون کے ایک لیک ہونے والے ابتدائی جائزے میں پایا گیا کہ امریکی حملوں نے ایرانی ایٹمی پروگرام کو شاید صرف چند ماہ پیچھے دھکیلا ہے۔
یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد ٹرمپ نے غصے سے جواب دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات ’ مکمل طور پر تباہ’ ہو چکی ہیں اور میڈیا پر ’ تاریخ کے سب سے کامیاب فوجی حملوں میں سے ایک کو مسخ کرنے کی کوشش’ کا الزام لگایا۔
فی الحال، ایران اور اسرائیل کے جنگ بندی ہے، لیکن ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر انٹیلی جنس کو یہ معلوم ہوا کہ ایران یورینیم کو خطرناک سطح تک افزودہ کر سکتا ہے تو وہ ایران پر دوبارہ بمباری کرنے پر غور کریں گے۔
ایران کے مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف عبدالرحیم موسوی نے اتوار کو کہا کہ تہران کو یقین نہیں ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کی پابندی کرے گا۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق موسوی نے کہا کہ ’ ہم نے جنگ شروع نہیں کی تھی، لیکن ہم نے جارح کو اپنی پوری طاقت سے جواب دیا ہے، اور چونکہ ہمیں جنگ بندی سمیت دشمن کے وعدوں کی تعمیل پر سنگین شکوک و شبہات ہیں، اس لیے ہم دوبارہ حملہ ہونے پر طاقت کے ساتھ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔’
دونوں ممالک کی' معاوضے اور ہرجانے کی ادائیگی کی ذمے داری کو بھی ' تسلیم کیا جائے، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط
شائع29 جون 202506:20pm
ایران نے اقوام متحدہ سے امریکا اور اسرائیل کو ’ جارح ’ قرار دینے کی درخواست کردی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ایک خط لکھا ہے جس میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حالیہ تنازعے میں امریکا اور اسرائیل کو باضابطہ طور پر ’ جارحیت کے مرتکب’ کے طور پر تسلیم کرے۔
اس خط میں اقوام متحدہ سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دونوں ممالک کی ’ بعد کی ذمہ داری کو بھی تسلیم کرے، جس میں معاوضے اور ہرجانے کی ادائیگی’ شامل ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ 13 جون کو شروع ہوئی تھی جب اسرائیل نے ایران کے جوہری اور فوجی ٹھکانوں پر بڑے حملے کیے، جس کے نتیجے میں ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور پاسداران انقلاب کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی سمیت 4 اعلیٰ فوجی افسران اور 6 جوہری سائنسدان شہید ہوگئے تھے۔
بعدازاں اگلے ہی روز سے ایران نےجوابی کارروائی کے تحت آپریشن ’وعده صادق سوم‘ کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل کے مختلف مقامات پر میزائل حملے شروع کردیے تھے۔
دونوں ممالک ایک دوسرے پر میزائلوں اور ڈرونز سے حملے کرتے رہے، 21 جون کو امریکا کو براہ راست اس لڑائی میں شامل ہو گیا، اور اس نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملے کیے۔
اس کے جواب میں ایران نے قطر میں امریکی بیس پر میزائل حملے کیے تھے جس کے بعد اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی ہوگئی تھی۔
اپریل میں اسرائیل کاٹز کے گھر کے قریب دھماکا خیز مواد نصب کیا گیا تھا، ایران نے روئی مزراحی کو ’ٹیلی گرام‘ کے ذریعے بھرتی کیا، بعد میں اس نے اپنے دوست کو بھی ساتھ ملالیا، اسرائیلی حکام
شائع29 جون 202503:37pm
اسرائیلی چینل 12 نے انکشاف کیا ہے کہ 24 سالہ اسرائیلی نوجوان کو اپریل میں ایران کے لیے جاسوسی اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے گھر کے قریب دھماکا خیز مواد رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق ملزم رُوئی مزراحی ایران کے اُس مبینہ منصوبے پر کام کر رہا تھا جس کا مقصد وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کو قتل کرنا تھا۔
مزراحی پر جنگ کے دوران دشمن کی مدد جیسے سنگین سکیورٹی الزام کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جو اسرائیلی قوانین کے مطابق انتہائی خطرناک جرم شمار ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مزراحی نے جو دھماکا خیز مواد وزیر کے گھر کے قریب نصب کیا، وہ اس وقت پھٹنے کے لیے تیار تھام جب وزیر دفاع وہاں سے گزرتے، رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایرانی ’اس کارروائی میں کامیابی سے محض چند قدم دور تھے‘۔
24 سالہ ملزم رُوئی مزراحی نے کفر احیم کے قصبے میں کاٹز کے گھر کے قریب طاقت ور دھماکا خیز مواد نصب کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کاٹز کے خلاف یہ سازش ایران کے کئی ایسے منصوبوں میں سے ایک تھی، جن کے ذریعے اعلیٰ اسرائیلی حکام کو جنگ کی صورت میں نشانہ بنایا جانا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مزراحی کو ٹیلی گرام چینل کے ذریعے بھرتی کیا گیا اور بعد میں اس نے اپنے دوست، 24 سالہ الموغ عطیاس کو بھی شامل کر لیا۔
عطیاس کو اپریل میں مزراحی کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، یہ گرفتاری شاباک (اسرائیلی انٹیلی جنس) اور پولیس کے لاہاؤ 433 یونٹ کی مشترکہ تحقیقات کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی، دونوں افراد حیفہ کے قریب نسہر کے رہائشی ہیں۔
دونوں ملزمان نے ایرانی ایجنٹ ’الیکس‘ کی ہدایت پر مختلف مقامات جیسے کہ شاباک ہیڈکوارٹرز اور تل ابیب کے اسرائیلی ٹاورز کی ویڈیوز بنائیں۔
بعد ازاں، انہیں کفر احیم میں 2 خفیہ کیمرے نصب کرنے کا کہا گیا، یہ کیمرے انہوں نے حولون شہر کے ایک گھر سے حاصل کیے، لیکن سیکیورٹی گاڑی کے قریب سے گزرنے پر وہ گھبرا گئے اور کیمرے جھاڑیوں میں پھینک دیے۔
مزراحی کو بعد میں الیکس کی جانب سے وائزمین انسٹیٹیوٹ کے سائنسدان کو قتل کرنے کی پیشکش کی گئی، جس کے بدلے اسے 10 لاکھ ڈالر ادا کیے جانے تھے، لیکن اس نے نصف رقم پیشگی طلب کی تو انکار کردیا گیا، جس کے بعد اس نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد، مزراحی سے ایک دوسرے ایرانی ایجنٹ ’گیٹز‘ نے رابطہ کیا، اور اسے اسرائیل کاٹز کے گھر کے قریب دھماکا خیز مواد رکھنے کا کام سونپا۔
رپورٹ کے مطابق مزراحی نے دھماکا خیز مواد ایک نیلے رنگ کے بیگ میں حاصل کیا، اور اسے کاٹز کے گھر کے قریب ایک مقام پر رکھ دیا، اس کے عوض کرپٹو کرنسی میں ادائیگی کی گئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مزراحی دھماکا خیز مواد کی ایک اینٹ اپنے گھر بھی لے گیا۔
اس کے وکیل نے چینل 12 کو بتایا کہ وہ ایک ناسمجھ نوجوان تھا، جس نے ریاست کی سیکیورٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
اس کی گرفتاری کے بعد، اسرائیلی حکام نے کہا کہ مزراحی نے 2025 کے دوران ایرانی ایجنٹوں سے رابطے میں رہتے ہوئے متعدد سیکیورٹی مشن انجام دیے، ان میں سے کچھ الموغ عطیاس کے ساتھ انجام دیے گئے، اور اسے مکمل علم تھا کہ وہ ایرانی ہدایات کے تحت کام کر رہا ہے۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ ماعور گورین نے ہفتے کی رپورٹ میں کہا کہ ایران کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران یہ بار بار واضح ہوتا رہا کہ ایران انہی مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے جو اسرائیلی جاسوسوں نے اس کے لیے فلم بند کیے تھے۔
حالیہ مہینوں میں ایران کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں متعدد اسرائیلی شہری گرفتار کیے گئے ہیں۔
حال ہی میں، ایران کے ساتھ جاری تنازع کے دوران 3 مزید اسرائیلیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، ان میں سے ایک نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی آئندہ بہو پر نظر رکھی، جب کہ ایک اور نے سرکاری حکام اور فوجی اڈوں کے گھروں کی تصاویر لیں۔
مئی میں، 18 سالہ موشے عطیاس کو ہسپتال میں موجود سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی جاسوسی کرنے کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا۔
جنوری میں حکام نے 2 آئی ڈی ایف ریزرو فوجیوں (21 سالہ یوری ایلیاسفوف اور جیورجی آندریف) کو گرفتار کیا، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم کے متعلق حساس معلومات ایران کو صرف 50 ڈالر کے عوض فراہم کردی تھیں۔
شہدا میں انتظامی عملے کے ارکان، فوجی جوان، قیدی، قیدیوں سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے اہلِ خانہ اور جیل کے آس پاس کے مکین شامل تھے، ترجمان اصغر جہانگیری
شائع29 جون 202502:16pm
ایرانی عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیری نے تصدیق کی ہے کہ 23 جون کو ایران کے دارالحکومت تہران میں واقع ایوین جیل پر اسرائیلی حملے میں 71 افراد شہید ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ساتھ فضائی جنگ کے اختتام پر اسرائیل نے تہران میں واقع سیاسی قیدیوں کی جیل ’ایوین‘ کو نشانہ بنایا، جو اس بات کا مظہر تھا کہ اسرائیل نے اپنے اہداف کو صرف فوجی، شہری اور جوہری تنصیبات تک محدود رکھنے کے بجائے اب ایران کے حکومتی نظام کی علامتوں تک وسعت دے دی ہے۔
ایرانی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس 12 روزہ جنگ میں ایران میں 610 افراد شہید ہوئے، جن میں 13 بچے اور 49 خواتین شامل تھیں۔
اصغر جہانگیری نے عدلیہ کی سرکاری ویب سائٹ ’میزان‘ پر جاری بیان میں کہا کہ ’ایوین جیل پر حملے میں 71 افراد شہید ہوئے، جن میں انتظامی عملہ، فوجی جوان، قیدی، قیدیوں سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے اہلِ خانہ اور جیل کے آس پاس کے مکین شامل تھے‘۔
جہانگیری پہلے ہی یہ تصدیق کر چکے تھے کہ ایوین جیل کی انتظامی عمارت کا ایک حصہ اس حملے میں تباہ ہوا اور اس میں شہادتیں اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے، عدلیہ کا کہنا ہے کہ بچ جانے والے قیدیوں کو تہران صوبے کی دیگر جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایوین جیل میں متعدد غیر ملکی شہری بھی قید ہیں، جن میں دو فرانسیسی شہری سیسیل کوہلر اور ژاک پیری بھی شامل ہیں، جو گزشتہ 3 سال سے زیر حراست ہیں۔
حملے کے بعد فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ
’تہران میں ایوین جیل پر حملے نے ہمارے شہریوں سیسیل کوہلر اور ژاک پیری کی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ یہ ناقابلِ قبول ہے‘۔
انقلاب چوک اور تہران یونیورسٹی کے ارد گرد کی سڑکوں پر ایرانی عوام کا جم غفیر، صدر مسعود پزشکیان، ہزاروں سوگوار شہدا کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کے ساتھ شریک ہوئے۔
اپ ڈیٹ28 جون 202501:41pm
تہران میں اسرائیل کی جارحیت اور بمباری کے دوران شہید ہونے والے سائنسدانوں اور فوجی افسران کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی، نماز جنازہ کے اجتماع میں پورا شہر امڈ آیا۔
ایرانی خبر رساں ادارے ’مہر نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں ایرانی آج صبح تہران کے مرکزی علاقے میں جمع ہوئے تاکہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں میں شہید ہونے والے ایرانی شہدا جن میں سینئر کمانڈرز اور عام شہری شامل ہیں، ان کی آخری رسومات میں شرکت کر سکیں۔
تہران میں جنازے کا جلوس باضابطہ طور پر شروع ہوا اور ہزاروں سوگوار شہدا کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کے ساتھ غم و احترام کے ساتھ شریک ہوئے، نماز جنازہ کے اجتماع میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان بھی شریک تھے، ایرانی مسلح افواج کے اعلیٰ افسران، وزرا نے بھی نماز جنازہ کے اجتماع میں شرکت کی۔
انقلاب چوک اور تہران یونیورسٹی کے ارد گرد کی سڑکیں ان لوگوں سے بھری ہوئی تھیں، جو شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔
دارالحکومت کی فضا غم، یکجہتی، اور اُن افراد کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے جذبے سے بوجھل ہے، جنہوں نے حالیہ اسرائیلی جارحیت میں اپنی جانیں قربان کیں۔
یاد رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے جنگ کا آغاز کیا تھا، اور پہلے ہی دن ایران کے متعدد اعلیٰ فوجی رہنما، جوہری سائنسدان اور عام شہری شہید ہو گئے تھے۔
اسی رات سے ایران کے جوابی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا، جوابی حملوں میں تل ابیب اور حیفہ سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں میں فوجی اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اس کے بعد دونوں جانب سے مسلسل 12 روز ایک دوسرے پر تواتر سے حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔
22 جون کو امریکا بھی ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شامل ہوگیا اور امریکی طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری تنصیبات پر بمباری کی، 23 جون کی رات ایران نے آپریشن ’بشارت فتح‘ کے تحت عراق اور قطر میں امریکی اڈوں پر بیلسٹک میزائل حملے کیے، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
24 جون کو قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے ایران کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ کیا، جب کہ تہران نے بھی امریکی تجویز پر اتفاق کیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی ایران کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کا اعلان کیا اور دونوں جانب سے جنگ بندی نافذ ہوگئی، جو تاحال برقرار ہے۔
ایران بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی یا ہمارے قابل بھروسہ ادارے سے معائنہ کرائے، وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو
شائع27 جون 202511:55pm
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ایٹمی تنصیبات کے معائنے کا مطالبہ کردیا۔
ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) یا ’کوئی اور جس پر ہمیں بھروسہ ہو‘ ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرے۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آئی اے ای اے کو ایران میں مکمل معائنہ کرنے کا حق دینے کا مطالبہ کریں گے؟
اس پر ٹرمپ نے کہا،’ یا کوئی اور، ہاں، یا کوئی ایسا جس پر ہمیں بھروسہ ہو، اس میں ہم خود بھی شامل ہیں۔’
ٹرمپ نے کہا کہ’ ایران ملاقات کرنا چاہتا ہے۔’ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ امریکی حملوں میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کو ’ تباہ’ کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے کہاکہ ،’ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ( ایران) جلد ایٹمی پروگرام کی طرف واپس جائیں گے۔’
انہوں نے کہا کہ اگر انٹیلی جنس رپورٹوں سے پتا چلا کہ ایران یورینیم کی افزودگی اس سطح تک کر رہا ہے جو امریکہ کے لیے تشویشناک ہے تو وہ دوبارہ ایران پر بمباری کرنے پر غور کریں گے۔
خیال رہے کہ 22 جون کو امریکا نے ایران کے فردو نیوکلیئر پلانٹ پر چھ بنکر بسٹر بم گرائے اور نطنز اور اصفہان میں دو دیگر مقامات پر آبدوزوں سے کروز میزائل حملے کیے، جو ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکی مہم کا حصہ تھے۔
یہ حملے 13 جون کو ایران کے ایٹمی اور عسکری انفرااسٹرکچر پر اسرائیلی فضائی حملوں کی حمایت میں کیے گئے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام پر ہونے والی 12 روزہ جنگ منگل کو صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ جنگ بندی معاہدے کے بعد رک گئی تھی۔
دریں اثنا امریکی صدر نے کہا کہ ایران پر پابندیوں کے ممکنہ خاتمے پر کام کررہا تھا مگر ایران سےنفرت انگیز بیانات کے بعد پابندیاں ختم کرنےپرکام بندکردیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایران ورلڈ آرڈر میں واپس آئے ورنہ سنگین نتائج ہوں گے۔
ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے، جرمن چانسلر کی آسٹریا کے چانسلر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس
شائع27 جون 202506:52pm
جرمن چانسلر فریڈرک میرٹس نے ایران سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جرمن چانسلر فریڈرک میرٹس نے اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آئے۔
برلن میں آسٹریا کے چانسلر کرسچین اسٹاکر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فریڈرک میرٹس نے کہا کہ تہران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں نے ’ کافی نقصان پہنچایا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ’ ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر جاری تنازع کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے، ہم خطے کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔’
آسٹریا کے رہنما اسٹاکر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ’ ایک اہم پہلا قدم’ ہے جس کے بعد سفارتکاری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آی اے ای اے ) کے ساتھ تعاون جاری رکھے۔
انہوں نے کہا کہ’ نگرانی کا نظام غیر فعال نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا غیر یقینی صورتحال کی طرف ایک اور قدم ہوگا۔’
واضح رہے کہ اسرائیل سے جنگ کے دوران امریکا کی جانب سے فردو نیوکلیئر سائٹ کو نشانہ بنائے جانے اور بعدازاں جنگ بندی کے بعد ایران کی پارلیمان نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دی تھی۔
ایرانی پارلیمان کی منظوری کے ایک روز بعد یعنی گذشتہ روز نگہبان شوریٰ نے بھی اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے کے قانون کی توثیق کردی تھی۔
نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ پر ارب پتی افراد سے سیاسی فائدے کے بدلے قیمتی تحائف لینے اور میڈیا اداروں سے اپنے حق میں بہتر کوریج کیلئے سودے بازی کی کوشش کے الزامات ہیں
شائع27 جون 202505:58pm
اسرائیلی عدالت نے بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت مؤخر کرنے کی نیتن یاہو کی درخواست مسترد کردی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی عدالت نے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے میں گواہی دینے کی سماعت مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
جمعرات کو نیتن یاہو کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اگلے دو ہفتوں کے دوران وزیر اعظم کو سماعتوں سے مستثنیٰ رکھا جائے کیونکہ اسرائیل کی ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد انہیں ’ سیکیورٹی امور’ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یروشلم ڈسٹرکٹ کورٹ نے آن لائن شائع ہونے والے فیصلے میں کہا کہ ’ (ان کی درخواست) موجودہ شکل میں سماعتوں کی منسوخی کے لیے کوئی بنیاد یا تفصیلی جواز فراہم نہیں کرتی۔’
نیتن یاہو نے کسی بھی بدعنوانی کے الزام سے انکار کیا ہے، جبکہ ان کے حامی اس طویل عرصے سے جاری مقدمے کو سیاسی سازش قرار دیتے ہیں۔
پہلے مقدمے میں نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ سارہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ارب پتی افراد سے سیاسی فائدے کے بدلے سگار، زیورات اور شیمپیئن سمیت 2 لاکھ 60 ہزار ڈالر سے زائد مالیت کے قیمتی تحائف وصول کیے۔
دو دیگر مقدمات میں نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے دو اسرائیلی میڈیا اداروں سے اپنے حق میں بہتر کوریج کے لیے سودے بازی کی کوشش کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز نیتن یاہو کے خلاف مقدمے کو ’ ڈائن کا شکار’ قرار دیا اور کہا کہ اس مقدمے کو ’ فوری طور پر منسوخ کر دینا چاہیے، یا اس عظیم ہیرو کو معافی دے دی جائے۔’
خامنہ ای کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا، اسی لیے وہ بہت گہرائی میں زیر زمین چلے گئے اور نئے کمانڈروں سے بھی رابطے ختم کر دیے، اس لیے یہ عملی طور پر ممکن نہ رہا، اسرائیل کاٹز
اپ ڈیٹ27 جون 202501:12pm
اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی اہلکاروں نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کی بہت کوشش کی، مگر کوئی عملی موقع نہیں مل سکا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جمعرات کو کہا ہے کہ اگر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای تک رسائی ممکن ہوتی تو اسرائیل 12 روزہ جنگ کے دوران انہیں شہید کر دیتا۔
اسرائیلی پبلک ٹی وی چینل ’کان‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیل کاٹز نے کہا کہ ’میرا اندازہ ہے کہ اگر خامنہ ای ہمارے نشانے پر آ جاتے، تو ہم انہیں ختم کر دیتے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن خامنہ ای کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا، اسی لیے وہ بہت گہرائی میں زیر زمین چلے گئے اور ان کمانڈروں سے بھی رابطے ختم کر دیے جنہیں شہید کیے گئے کمانڈروں کی جگہ تعینات کیا گیا تھا، اس لیے یہ عملی طور پر ممکن نہ رہا‘۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ میں متعدد حملے اور جوابی کارروائیاں ہوئیں، جن میں دونوں جانب جانی و مالی نقصان ہوا، اسرائیل کی جانب سے کئی ایرانی فوجی و سیکیورٹی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا، تاہم خامنہ ای پر حملہ ممکن نہ ہو سکا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایران کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل، جنگ بندی کے باوجود خامنہ ای کو قتل کرنے کی کوششیں جاری رکھ سکتا ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان اس وقت ایک نازک جنگ بندی قائم ہے۔
اسرائیلی ٹی وی چینل 13 سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کاٹز نے دعویٰ کیا کہ انہیں ایسا کوئی منظر نظر نہیں آتا جس میں ایران اپنی جوہری تنصیبات کو دوبارہ مکمل طور پر بحال کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اسرائیلی حملوں نے تہران کی ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
تاہم، جنگ بندی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ امریکی حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔
پاکستان مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا، شہبازشریف نےایران اسرائیل جنگ بندی کیلیے صدر ٹرمپ کی قیادت کو سراہا
شائع26 جون 202511:39pm
وزیراعظم شہباز شریف کو جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فون کیا جس میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے جمعرات کی شام امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔
گفتگو کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فیصلہ کن قیادت کو سراہا جس کی وجہ سے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔
بیان کے مطابق شہباز شریف نے پاک- بھارت جنگ بندی میں امریکا کے کلیدی کردار پر سیکریٹری روبیو کا شکریہ بھی ادا کیا۔
ٹیلی فونک رابطے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو مضبوط بنانے اور خاص طور پر تجارت بڑھانےکے لیے مل کر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔۔
مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔
دوسری جانب، مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ امریکا خطے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔