مزدور کی کم از کم تنخواہ کیلئے وفاق نے کوئی نمبر نہیں دیا، پنجاب اور خیبرپختونخوا نے 40 ہزار کا نمبر دیا ہے جو ناکافی ہے، مراد علی شاہ
اپ ڈیٹ23 جون 202508:09pm
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ مزدور کی کم از کم اجرت 42 ہزار روپے ہونی چاہیے۔
ڈان نیوز کے مطابق صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ کے لیے وفاق نے بھی کوئی نمبر نہیں دیا، پنجاب اور خیبرپختونخوا نے 40 ہزار کا نمبر دیا ہے جو ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم گریڈ ایک سے گریڈ 16 کے ملازمین کی تنخواہ 12 فیصد بڑھا رہے ہیں تو وہ جو مزدور ہے اس کی اجرت کم از کم 12 فیصد (کی شرح) سے تو بڑھائیں، تو یہ 42 ہزار بنتی ہے، چنانچہ مزدور کی کم از کم تنخواہ 42 ہزار روپے ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ 21 جون کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد، پینشنرز کی پینشن میں 20 فیصد اضافے، کم از کم ماہانہ اجرت 50 ہزار روپے اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) کی پینشن 23 ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارشات پیش کی تھیں۔
قائمہ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 7 فیصد کے بجائے 20 فیصد اضافہ کیا جائے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کے بجائے 50 فیصد اضافہ کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی نے کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار روپے مقرر کرنے، ای او بی آئی کی پینشن ساڑھے 11 ہزار روپے سے بڑھاکر 23 ہزار روپےکرنے کی سفارش کی تھی۔
خیال رہے کہ سندھ کابینہ نے رواں مالی سال 25-2024 کے لیے کم از کم اجرت 32 ہزار روپے سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کرنے کی منظوری دی تھی، اسی اجرت کا 12 فیصد 4440روپے بنتا ہے۔
یہ رقم اگر 37 ہزار روپے کی اجرت میں جمع کی جائے تو تقریباً ساڑھے 41 ہزار ہوجاتی ہے۔
یہ چاہتے ہیں کہ بجٹ پاس نہ ہو، اور فنانشل ایمرجنسی لگا کر حکومت کو ختم کیا جائے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا اسمبلی میں خطاب
اپ ڈیٹ23 جون 202506:53pm
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے بجٹ کو بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) و سابق وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، ان سے ہماری ملاقات نہیں کروائی جا رہی۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ بجٹ پاس نہ ہو، اور فنانشل ایمرجنسی لگا کر حکومت کو ختم کیا جائے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہم اس سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے، جس دن بانی نے حکم دیا یہ حکومت ختم کر دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سازش کے تحت ختم کیا گیا، سب کو پتا ہے کہ یہ سازش کس نے کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جمہوریت کی خاطر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو تحلیل کیا، جب بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں ہم حکومت ختم کردینگے مگر سازش نہیں ہونے دینگے۔
انہوں نے کہا کہ جس نے طاقت کا غلط استعمال کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، اگر یہ سمجھتے ہیں ان کا احتساب نہیں ہو گا تو وہ بھول میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہمیں صوبہ ملا تو یہاں پر صرف 18 دنوں کی تنخواہیں موجود تھیں، اس صوبے میں امن و امان کو خراب کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی، اور اب بھی ڈرون حملے بند نہیں کیے جا رہے۔
12 لاکھ تک کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح ایک فیصد کر دی، درآمدی خام مال اور ٹیرف لائنز میں سہولت سے برآمدات بڑھیں گی، قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب
اپ ڈیٹ23 جون 202504:36pm
وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے مشکل حالات میں متوازن بجٹ پیش کیا، تمام شراکت داروں کی تجاویز اور سفارشات بجٹ کا حصہ ہیں، 12 لاکھ تک کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح ایک فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ سولر پینلز پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہوگی۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر عام بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ وزیراعظم، ڈپٹی وزیراعظم، اراکین قومی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیز کے چیئرمینوں اور اراکین، اتحادی جماعتوں کے اراکین، اراکین قومی اسمبلی اور تمام شراکت داروں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بجٹ کی تیاری، بحث، اس حوالے سے تجاویز اور سفارشات کو حتمی شکل دینے میں تعاون کیا، اس رہنمائی کی وجہ سے حکومت کومتوازن بجٹ دینے میں مدد ملی۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات میں کمی اورٹیکس کی بنیاد اور تعمیل پر زور دیا گیا ہے، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت اور تعمیل کے لیے ایف بی آر میں اصلاحات اور ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کر دیا گیا ہے، تعمیراتی شعبہ کو ریلیف دیا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیرف کو معقول بنانا اہمیت کا حامل ہے، درآمدی خام مال اور ٹیرف لائنز میں سہولت سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا، بلکہ صنعتوں کو فروغ دینے اور اصلاحات کے عمل کوآگے بڑھانے میں بھی مدد ملے گی، صنعتی پالیسی تیار ہے، اور اس کا اعلان جلد ہو گا جبکہ الیکٹرانک گاڑیوں کے لیے پالیسی کا اعلان بھی جلد کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی سمیت اہم شعبوں میں اصلاحات کاعمل جاری رہے گا، سماجی بہبود کے شعبے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 592 ارب روپے سے بڑھا کر 716 ارب روپے کر دیا ہے، اس اقدام سے تقریباً ایک کروڑ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھرپور کوشش ہو گی کہ ان خاندانوں کے افراد کو ہنر مند کارکن بنایا جائے اور ان کو اپنی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانے، غربت کے چکر کو توڑنے اور معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حکومت، بینظیر ہنر مند پروگرام کو مطلوبہ وسائل فراہم کرے گی، اسی طرح حکومت برٹش ایشین ٹرسٹ کے اشتراک سے پاکستان کا پہلا سکلز ایمپیکٹ بانڈ متعارف کرانے جا رہی ہے جو نتائج پر مبنی مالی معاونت کی نئی مثال بنے گا اور نوجوانوں کو مارکیٹ سے ہم آہنگ تربیت فراہم کرے گا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت نے زرعی شعبے کے فروغ اور چھوٹے کسانوں کی معاونت کے لیے بغیر ضمانت اور نقد بنیادوں پر قرضے فراہم کرنے کا فلیگ شپ پروگرام بنایا ہے، جس کے تحت ساڑھے 12 ایکڑ تک اراضی والے چھوٹے کسانوں کو ڈیجیٹل ذرائع سے 10 لاکھ روپے تک کے قرضے دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس قرض سے منظور شدہ بیج، کھاد، زرعی ادویات اور ڈیزل کی ادائیگی کی جا سکے گی اور کسان کو فصل اور زندگی کی بیمہ سہولت بھی فراہم کی جائے گی، اس کے علاوہ حکومت کسانوں کے لیے الیکٹرانک ویئر ہاؤس رسید کا نظام وضع کرنے جا رہی ہے، جس کے تحت اناج کو اسٹور کرنے میں مدد ملے گی، کسانوں کو اپنی فصل کی بہتر قیمت ملے گی اور مجموعی فوڈ سیکیورٹی میں استحکام آئے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت قابل اسطاعت ہاؤسنگ فنانس کے فروغ اور پہلی بار گھر خریدنے یا تعمیر کرنے کے خواہشمند کم آمدنی والے افراد کے لیے 20 سالہ مدت کی قرض اسکیم متعارف کرانے جا رہی ہے، مالی شمولیت کی غرض سے خواتین کے لیے مخصوص مالیاتی پروگرام کے تحت ایک لاکھ 93 ہزار سے زیادہ خواتین کو 14 ارب روپے کے قرضے فراہم کیے جا چکے ہیں، اگلے مالی سال میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے خواتین کو تقریباً 14 ارب روپے کے مزید قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ کا بخوبی احساس ہے، دستیاب مالی گنجائش میں رہتے ہوئے ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکومت نے ابتدائی طور پر 32 لاکھ روپے تک کی آمدن کی سلیبز پر ٹیکس کی شرح کم کرنے کی تجویز دی، اسی طرح 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد کرنے کی تجویز تھی، تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر حکومت نے اس آمدن یعنی 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے پر ٹیکس کی شرح مزید کم کر کے صرف ایک فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے اس کیٹیگری میں شامل تنخواہ دار طبقے کو اضافی ریلیف ملے گا اور ان کی مالی مشکلات میں کمی آئے گی، اس کے علاوہ میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بجٹ تقریر سے یہ تاثر لیا گیا کہ پنشن پر ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے کمیوٹیشن اور گریجویٹی کی رقم پر بھی ٹیکس عائد ہو گا، لیکن ایسا نہیں ہے جو لوگ سالانہ ایک کروڑ سے زائد پنشن وصول کرتے ہیں صرف انہی پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایات پر 75 سال سے زائد عمر والے پنشنر کسی بھی قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، سولر آلات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا تھا، جس کو اب کم کر کے 10 فیصد کر دیا گیا ہے، اس ٹیکس کا اطلاق صرف 46 فیصد درآمدی پرزہ جات پر ہوگا، جس سے امپورٹڈ سولر پینلز کی قیمت میں صرف 4.6 فیصد اضافہ ہو گا، ہمیں درآمدی سولر پینلز پر مجوزہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل ہی بعض عناصر کی جانب سے ناجائز منافع اور ذخیرہ اندوزی کی اطلاعات ملی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تجویز کے عملی نفاذ سے قبل ہی موقع پرست عناصر کی جانب سے قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کرنا قابل مذمت ہے، جیسا کہ میں نے سینیٹ میں کہا تھا میں ان عناصر کو سختی سے متنبہ کرتا ہوں کہ حکومت کسی کو عوام کے استحصال کی اجازت نہیں دے گی اور ان عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ تقریر میں ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، واضح کرنا چاہوں گا کہ مقامی طور پر تیار کردہ کسی ہائبرڈ گاڑی پر سیلز ٹیکس رجیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی ہے،۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پا کستان کی خصوصی ہدایت پر ٹیکس فراڈ کے حوالے سے ایف بی آر کے موجودہ اختیارات اور فنانس بل کے ذریعے مجوزہ تبدیلیوں کا ایک مرتبہ پھر بغور جائزہ لیا گیا، جس کے تحت ٹیکس فراڈ کی قابل اور ناقابل دست اندازی کیٹیگریز بنا دی گئی ہیں، اب مزید 5 کروڑ روپے تک کے کیسز میں ایف بی آر بغیر عدالتی وارنٹ گرفتاری نہیں کر سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ علاوہ ازیں گرفتاری کے لیے 3 بار نوٹسز کے باوجود جان بوجھ کر انکوائری کا حصہ نہ بننے، راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرنے اور ریکارڈ کو ٹیمپر کرنے کی صورت میں کارروائی کی جائے گی، ان شرائط کے باوجود گرفتاری کی منظوری کسی ایک افسر کے بجائے ایف بی آر کی اعلیٰ سطح کی 3 رکنی کمیٹی دے گی، اور گرفتار شدہ افراد کو 24 گھنٹوں میں اسپیشل جج کی عدالت میں پیش کرنا لازم ہوگا، اس کے علاوہ یہ امر بھی یقینی بنایا جائے گا کہ اس عمل کے دوران کسی شہری سے زیادتی نہ ہو اور اختیارات کا ناجائز استعمال نہ ہو۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کی زیادہ تر سفارشات کو بھی مجوزہ ترمیمی فنانس بل میں شامل کر لیا گیا ہے، مالی بل میں اس بار ای کامرس پر ٹیکس لگانے کے خصوصی اقدامات تجویز کیے گئے تھے، ان اقدامات کی بنیادی وجہ ریٹیل بزنس اور ای کامرس کے درمیان لیول پلے انگ فیلڈ پیدا کرنا تھا تاہم معاشی سرگرمیوں میں ای کامرس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ای کامرس سرگرمیوں میں شامل مائیکرو اور اسمال بزنس کو ایک آسان نظام پر منتقل کیا جا رہا ہے جہاں ان پر ٹیکسوں میں اضافے کا اطلاق محدود بنیاد پر ہو گا، اس اقدام سے ای کامرس میں گھر سے کام کرنے والوں اور چھوٹے کاروبار کی سہولت میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں لوگ ظاہر کیے گئے معاشی وسائل سے بڑھ کر بڑی بڑی جائیدادیں خریدتے تھے، مجوزہ فنانس بل میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 114 سی کے تحت ایسے لوگوں پر بڑی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز تھی، وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایات پر اس نئے قانون کا اطلاق فی الوقت 5 کروڑ روپے مالیت کے رہائشی پلاٹ یا مکان، 10 کروڑ روپے مالیت تک کے کمرشل پلاٹ یا جائیداد اور 70 لاکھ روپے تک کی گاڑی کی خریداری پر نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو مناسب وقت پر ان مالیاتی حدود میں کمی بیشی کرنے کا اختیار دینے کی تجویز ہے، اس اقدام سے معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی، موجودہ قانون کے تحت یکم جولائی 2024 سے پہلے خریدی گئی جائیداد پر 6 سال کی مدت گزرنے کے بعد کیپٹل گین ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا، تاہم اس جائیداد کی فروخت پر ساڑھے 4 سے 6 فیصد تک ودہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس عمومی طور پر ریٹرن فائل کرنے پر ریفنڈ کی شکل میں واپس کر دیا جاتا ہے، جس میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وزیراعظم کی ہدایات پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 15 سال یا اس سے زائد مدت تک ذاتی استعمال میں رہنے والی رہائش پر اس ودہولڈنگ ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوگا، اس سہولت کے بے جا استعمال کو روکنے کے لیے اس سہولت کا اطلاق 15 سال میں صرف ایک ذاتی جائیداد کی فروخت پر ہو گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں برآمدات میں اضافے کے لیے چند سال سے برآمدی سہولت اسکیم متعارف کرائی گئی تھی، جس میں ایکسپورٹرز کو بغیر ڈیوٹی اور ٹیکس دیے خام مال درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، پچھلے 3 سال کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اسکیم کے تحت دی گئی رعایت کی وجہ سے پاکستان میں پیدا شدہ کپاس، روئی اور دھاگہ کی قیمت اور درآمد شدہ اشیا کی قیمتوں میں واضح فرق پیدا ہوا، جس کی وجہ سے کپاس کی فصل اور اس کے کاشتکاروں پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درآمدی اور ملکی پیداوار میں اس فرق کو ختم کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ روئی اور دھاگے کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ ختم کر دی جائے، اس اقدام سے کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہو گا، اسپننگ ملوں کی بحالی ہو گی اور غیر ملکی زر مبادلہ کی بچت ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم فنڈ پروگرام کے تحت ملک میں مالیاتی نظم و ضبط میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان بیان کردہ ٹیکس رعایتوں کے نتیجے میں ٹیکس وسائل میں کمی کو پورا کرنے کے لیے 3 مزید بجٹ تجاویز اس ایوان میں پیش کی جا رہی ہیں، ان اقدامات میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ صنعتی اور کاروباری طبقہ کے اوپر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، کوشش ہے کہ یہ نئے ٹیکس اقدامات صاحب حیثیت افراد پر عائد کیے جائیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں یہ بھی واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایات پر صنعتوں کو بھی نئے ٹیکس اقدامات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ ہماری صنعتیں عالمی منڈیوں میں مسابقت کے قابل ہو سکیں، انکم ٹیکس کے ضمن میں سب سے پہلے تجویز یہ ہے کہ میوچل فنڈز کی طرف سے کمپنیوں کو جاری کردہ ڈیویڈنڈ میں سے ڈیبٹ پورشن سے حاصل شدہ آمدن پر ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے بڑھا کر 29 فیصد کی جائے۔
واضح رہے کہ ان کمپنیوں کے دیگر ذرائع آمدن پر 29 فیصد کی شرح پہلے سے لاگو ہے، کارپوریشنز اور کمپنیوں کی طرف سے گورنمنٹ سیکیورٹیز میں کی گئی سرمایہ کاری پر ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے، حکومت کی ایک ترجیح یہ بھی ہے کہ نجی کاروبار وں کو زیادہ سے زیادہ قرضے مل سکیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پولٹری کی صنعت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اور اس صنعت میں چوزوں کی ہیچری کا کاروبار ایک اہم جزو کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس سے وصول ہونے والا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا اس کی درستگی کے لیے تجویز کیا جا رہا ہے کہ ہیچری کے ایک دن کے چوزوں پر 10 روپے فی چوزہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے تاکہ قومی آمدنی میں اس شعبے کا حصہ بھی شامل ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایران۔اسرائیل جنگ کی وجہ سے ہمارے خطے کے معاشی توازن پر منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے، میں معزز ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت ان تمام معاملات پر اور ان کے نتیجے میں ہماری معیشت پر ممکنہ اثرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، وزیراعظم پاکستان نے اس حوالے سے ایک اہم کمیٹی 14 جون کو ہی تشکیل دے دی تھی جس میں میرے علاوہ متعلقہ وزرا اور اعلیٰ حکام شامل ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد، پینشن میں 20 فیصد اضافے، سولر پینلز پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کی سفارشات پیش کردیں
شائع21 جون 202507:06pm
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد، پینشنرز کی پینشن میں 20 فیصد اضافے، کم از کم ماہانہ اجرت 50 ہزار روپے اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) کی پینشن 23 ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارشات پیش کر دی ہیں-
ڈان نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ خزانہ کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں ہوا، جن کی سربراہی میں یہ سفارشات تیار کی گئی ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے سفارش کی کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 7 فیصد کے بجائے 20 فیصد اضافہ کیا جائے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کے بجائے 50 فیصد اضافہ کیا جائے-
قائمہ کمیٹی نے کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار روپے مقرر کرنے، ای او بی آئی کی پینشن ساڑھے 11 ہزار روپے سے بڑھاکر 23 ہزار روپےکرنے کی سفارش کی ہے۔
کمیٹی نےسولر پینلز پر سیلز ٹیکس ختم اور 850 سی سی سےکم گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے کی سفارش کی ہے۔
سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی نے تنخواہ دار طبقے کے لیے سالانہ 12 لاکھ روپے تک آمدنی پر انکم ٹیکس کی چھوٹ اور سالانہ 50 لاکھ روپے سے زائد زرعی آمدن پر 10 فیصد انکم ٹیکس لاگو کرنے کی سفارش کی ہے۔
کمیٹی نے 200 یونٹ تک ماہانہ بجلی کے استعمال پر ڈیبٹ سروس سرچارج نہ لگانے، اسٹیشنری آئٹمز کو زیرو ریٹیڈ کرنے اور ہومیوپیتھک ادویات پر 18 فیصد کے بجائے ایک فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی سفارش کی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کرنے کی سفارش کی ہے، اسی طرح کمیٹی نےگرینڈ چکن پر 3 فیصد ایڈیشنل ٹیکس ختم کرنے، ای ایف ایس اسکیم کے تحت ڈائیز اور کیمیکلز پر سیلز ٹیکس لاگو کرنے، بیوریجز اور جوسز پر ایکسائز ڈیوٹی 15 فیصد کم کرنے اور آن لائن خریداری پر 2 فیصد انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ختم کرنے کی سفارشات بھی پیش کی ہیں۔
سیلز ٹیکس کا اطلاق صرف 46 فیصد درآمدی پرزہ جات پر ہوگا، ایف بی آر افسران کے اختیارات کی تجاویز پر مزید وضاحتیں شامل کی ہیں، محمد اورنگزیب
شائع21 جون 202502:41pm
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے طویل مشاورت کے بعد درآمدی سولر پینلز کے پرزہ جات پر تجویز کردہ 18 فیصد ٹیکس کو کم کر کے 10 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ برآمد شدہ سولرز کے پرزہ جات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ مقامی صنعت کو فروغ دینے اور مسابقتی ماحول قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ایوانوں میں تفصیلی غور و غوض اور اراکان پارلیمنٹ کی تجاویز پر حکومت نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیکس کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس ٹیکس کا اطلاق صرف 46 فیصد درآمدی پرزہ جات پر ہوگا جب کہ امپورٹڈ سولر پینلز کی پلیٹوں پر صرف 4.6 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ درآمدی سولر پینلز کی مجوزہ 10 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل ہی بعض عناصر کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری میں ملوث ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، ان عناصر کو وارننگ دیتا ہوں کہ ان کے خلاف جلد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے مالی سال میں وفاقی حکومت نے کوئی منی بجٹ متعارف نہیں کروایا، ہم نے مالی نظم و ضبط کو کنٹرول کیا، افراط زر پر قابو پایا، کرنٹ اکاؤنٹ میں نمایاں بہتری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام اقدامات کا مقصد پاکستان کو اقتصادی غیر یقینی کی دلدل سے نکال کر پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، حکومت نے اپنے مالی نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں عوامی فلاح کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئندہ برس کے لیے وفاقی حکومت کے اخراجات میں صرف 1.9 فیصد اضافہ ہوا ہے، گزشتہ برسوں کے دوران 10، 12 اور 13 فیصد تک وفاقی اخراجات میں اضافے ہوتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کم اور متوسط آمدن والے افراد قومی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ طبقہ ٹیکس بھی دیتا ہے اور مہنگائی بھی جھیلتا ہے، تنخواہ دار ملازمین پر عائد انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز پہلے سے ہی بجٹ تجاویز کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر 6 سے 12 لاکھ تک سالانہ کمانے والے افراد پر انکم ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دی ہے ، ریاست اس طبقے کو بوجھ تلے دبانا نہیں چاہتی۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنز میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 592 ارب روپے سے بڑھا کر 716 روپے کیا۔
انہوں نے کہا کہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی معاونت کا دائرہ وسیع کرنا اس حکومتی عزم کا عکاس ہے کہ معاشرے میں کمزور افراد، بیواؤں، یتیم اور خصوصی افراد کو بھی معاشی تحفظ حاصل ہو، اس اقدام سے تقریبا ایک کروڑ خاندانوں کو مالی مدد حاصل ہوگی۔
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ایف بی آر افسران کے اختیارات کے حوالے سے تجاویز پر وزیراعظم کی ہدایت پر مزید وضاحت شامل کی ہے تاکہ افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کا خطرہ نہ رہے۔
انہوں نے بتایا کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کی سفارشات حکومت کو موصول ہو چکی ہیں، امید ہے گزشتہ برس کی طرح امسال بھی قائمہ کمیٹی کی 50 فیصد سے زائد سفارشات کو فنانس بل کا حصہ بنایا جائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ساتھ بھی مشاورت جاری ہے جس کی تکمیل کے بعد ہم فنانس بل کی حتمی شکل تک پہنچ جائیں گے۔حکومت کی کوشش ایک جامع، ہمہ گیر اور پائیدار ترقی کا حصول ہے جس میں تمام پاکستانیوں کو ترقی کرنے کا حق حاصل ہو۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں کمیٹی ترامیم کا ازسرنو جائزہ لے گی اور جلد سفارشات وزیر اعظم کو پیش کرے گی، چیئرمین ایف بی آر
شائع20 جون 202505:16pm
وزیر اعظم شہباز شریف نے مالیاتی بل (بجٹ) 2025 کی ترامیم پر تحفظات دور کرنے کیلئے کمیٹی قائم کر دی۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی ترامیم پر تحفظات دور کرنے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی، جس میں وزیر قانون، وزیر اقتصادی امور اور چیئرمین ایف بی آر بھی شامل ہیں۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کاکہنا ہے کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں کمیٹی ترامیم کا ازسرنو جائزہ لے گی اور جلد سفارشات وزیر اعظم کو پیش کرے گی۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ٹیکس فراڈ پر تفتیش ضابطہ فوجداری 1898 کے تحت ہوگی، مجوزہ ترامیم گرفتاری کے اختیارات کو محدود اور شفاف بناتی ہیں، گرفتاری اب صرف کمشنر ان لینڈ ریونیو کی منظوری کے بعد ممکن ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ بدنیتی پر مبنی گرفتاری کی صورت میں معاملہ چیف کمشنر کو بھیجا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ترامیم ایماندار ٹیکس دہندگان کے تحفظ اور فراڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے ہیں۔
کمیٹی ٹیکس افسران کے اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کی روک تھام کیلئے اقدامات بھی تجویز کرے گی۔
خیبرپختونخوا کابینہ کے اجلاس میں شریک وزرا نے بھی وزیر اعلیٰ کی جانب سے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے بیان کی تائید کی ہے۔
شائع20 جون 202504:24pm
وفاق اور خیبرپختونخوا ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے ہیں، اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وفاق کی جانب سے صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگانے پر صوبائی اسمبلی توڑنے کی دھمکی دے دی۔
ڈان نیوز کے مطابق علی امین گنڈاپور نے دھمکی دی ہے کہ وفاق نے اگر صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگائی تو صوبائی اسمبلی توڑ دیں گے۔
خیبرپختونخوا کابینہ کے اجلاس میں شریک وزرا نے بھی وزیر اعلیٰ کی جانب سے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے بیان کی تائید کی ہے۔
کابینہ نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو تمام فیصلوں کا اختیار دیتے ہوئے کہا کہ وفاق ’معاشی ایمرجنسی‘ کی آڑ میں کوئی سازش نہیں کرسکتا۔
واضح رہے کہ علی امین گنڈاپور نے صوبائی بجٹ پیش کرتے وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ خیبرپختونخوا کا بجٹ اُس وقت تک منظور نہیں کریں گے جب تک بانی پی ٹی آئی عمران خان سے بجٹ تجاویز پر مشاورت نہیں کرنے دی جاتی۔
معاشی شرح نمو میں معمولی کمی اور مہنگائی میں اضافہ آئندہ بجٹ کے خسارے کو نمایاں طور پر بڑھا سکتے ہیں، جس سے عوامی مالیات پر شدید دباؤ پڑے گا۔
اپ ڈیٹ20 جون 202502:46pm
حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ کئی سنگین معاشی اور مالیاتی خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے، جن میں سست معاشی نمو، مہنگائی اور قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ شامل ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ اور درمیانی مدت کے معاشی منظرنامے کو درپیش متعدد سنگین خطرات کی نشاندہی کی ہے، جن میں ہدف سے کم جی ڈی پی شرح نمو، مہنگائی کے جھٹکے، زرمبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ، آمدنی میں کمی، قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات، سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی ناقص کارکردگی اور غیر متوقع موسمی یا قدرتی آفات شامل ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے پارلیمنٹ میں مالیاتی خطرات سے متعلق پیش کیے گئے ایک تحریری بیان میں ان خطرات کو سات اقسام میں تقسیم کیا ہے، یعنی معاشی، محصولات، قرضے، ریاستی ادارے، ماحولیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور دیگر ممکنہ ذمہ داریاں اور ان کے مالیاتی خسارے پر ممکنہ اثرات کا تخمینہ لگایا ہے۔
آئندہ سال کے دوران اگر ان میں سے کوئی ایک یا زیادہ خطرات سامنے آئے تو ان سے نمٹنے کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔
بیان کے مطابق معاشی خطرات کا تعلق جی ڈی پی کی سست شرح نمو، مہنگائی کے جھٹکوں اور شرح تبادلہ میں اتار چڑھاؤ سے ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر جی ڈی پی کی شرح نمو ایک فیصد پوائنٹ کم ہو جائے تو ٹیکس محصولات میں کمی اور سوشل سیفٹی نیٹ جیسے پروگرامز پر اخراجات میں اضافے کے باعث حکومتی آمدنی متاثر ہو سکتی ہے۔
ہدف سے کم اقتصادی ترقی، مہنگائی کے جھٹکے اور زرمبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ مالیاتی خسارے کو آئندہ مالی سال میں جی ڈی پی کا تقریباً 0.13 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں، یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ ایف بی آر کو آئندہ سال کے لیے 14 کھرب 13 ارب روپے کی وصولی کا ہدف دیا گیا ہے، جب کہ رواں مالی سال میں 12 کھرب 97 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں ایک کھرب 16 ارب 10 کروڑ روپے کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ مہنگائی میں اچانک اضافہ اور کرنسی کی قدر میں کمی عوامی مالیات پر مزید دباؤ ڈال سکتے ہیں، اگرچہ ان اثرات کا درست اندازہ لگانا زیادہ مشکل ہے۔
محصولات کی وصولی میں رکاوٹیں
محصولاتی خطرات کے بارے میں بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس کی کم استعداد، سست اقتصادی ترقی اور اہم ذرائع کی کارکردگی میں کمی سے محصولات کی وصولی متاثر ہوسکتی ہے۔
بیان کے مطابق اگر ٹیکس آمدن صرف نصف متوقع شرح سے بڑھی تو مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
مزید خطرات میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے حکومت کو منافع کی منتقلی میں ممکنہ 30 فیصد کمی شامل ہے، جو مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 0.32 فیصد تک بڑھا سکتی ہے، جب کہ پیٹرولیم لیوی کی وصولی میں 20 فیصد کمی خسارے کو مزید 0.2 فیصد تک بڑھا سکتی ہے۔
حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے اسٹیٹ بینک سے 2 کھرب 40 ارب روپے کے منافع کا ہدف مقرر کیا ہے، جو کہ رواں مالی سال کے 2 کھرب 62 ارب روپے کے ہدف سے قدرے کم ہے۔
پیٹرولیم لیوی کا ہدف آئندہ سال کے لیے ایک کھرب 47 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو رواں مالی سال کے ایک کھرب 28 ارب روپے کے ہدف سے زیادہ ہے، تاہم اب تک صرف ایک کھرب 16 ارب روپے وصول ہو سکے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کا غیر یقینی ذرائع پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے، اس لیے ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور کمپلائنس کو بہتر بنانا ضروری ہے۔
بیان میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ قرضوں کی ادائیگی مالیاتی لحاظ سے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے، اگر اندرونی شرحِ سود میں 2 فیصد اور بیرونی شرحِ سود میں ایک فیصد اضافہ ہو جائے تو سود کی ادائیگیوں میں اضافے سے مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.42 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
خسارے میں چلنے والے ادارے
بیان کے مطابق ریاستی ادارے (ایس او ایز) مالیاتی خطرات کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ان کے منافع میں کمی یا حکومتی مدد میں اضافے سے مالیاتی بوجھ بڑھ سکتا ہے، اگر ان اداروں کے منافع میں 6.1 فیصد کمی ہو جائے تو مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.02 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح، اگر حکومت ان اداروں کو مزید 1.5 فیصد جی ڈی پی کے برابر مالی معاونت فراہم کرے تو مالیاتی خسارہ مزید 0.4 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
زیادہ خطرناک منظرنامے میں قلیل مدتی اثرات نسبتاً کم ہوں گے، لیکن طویل مدت میں موسمیاتی آفات کے تسلسل اور شدت کی وجہ سے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسیوں کا مالی بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
بیان میں قدرتی آفات کو سب سے بڑا مالیاتی خطرہ قرار دیا گیا ہے، اگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی مخصوص مالیاتی نظام موجود نہ ہو، تو ایک اوسط درجے کی آفت بھی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 1.03 فیصد تک بڑھا سکتی ہے۔
تاہم، اگر حکومت کے پاس انشورنس فنڈز جیسے مؤثر مالیاتی آلات ہوں، تو اس اثر کو کم کرکے 0.44 فیصد تک محدود کیا جاسکتا ہے۔
وزیر خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں کسی قسم کی ایمنسٹی اسکیم شامل نہیں ہوگی، حکومت اب ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور چھوٹ کے بجائے شفاف نظام اپنانے پر توجہ دے رہی ہے۔
اپ ڈیٹ20 جون 202512:20pm
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کسی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم شامل نہیں ہوگی، ان کے مطابق حکومت کی توجہ اب ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور نظام کو شفاف بنانے پر ہے، کیونکہ ٹیکس چھوٹ اور رعایت کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی کمیٹیوں نے پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی عائد کرنے کی حکومتی تجویز کو عوام پر بلاجواز بوجھ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، جب کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واضح کیا کہ ٹیکس چھوٹ اور ایمنسٹی اسکیموں کا دور ختم ہو چکا ہے۔
تاہم، کمیٹیوں نے اعلیٰ پنشنز اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمدن پر نئے ٹیکسز کی منظوری دے دی۔
کاربن لیوی کا معاملہ اُس وقت مرکزِ نگاہ بن گیا جب سینیٹ اور قومی اسمبلی کی خزانہ و ریونیو سے متعلق قائمہ کمیٹیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں بیک وقت آئندہ مالی سال کے فنانس بل کی شق وار جانچ پڑتال کا آغاز کیا۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور رکن قومی اسمبلی نوید قمر کی زیر صدارت دونوں کمیٹیوں نے کئی ترامیم تجویز کیں اور متعدد اقدامات کو مسترد کر دیا، سینیٹ نے جمعرات کو مجوزہ ٹیکس اقدامات پر اپنی بحث مکمل کر لی۔
بحث اس نکتے پر مرکوز رہی کہ آیا یہ اقدام لیوی ہے یا ٹیکس، اس سے متوقع آمدن کتنی ہوگی، صوبوں کو اس میں کتنا حصہ ملے گا اور آیا یہ واقعی ماحولیاتی اقدام ہے یا وفاقی حکومت کی آمدن بڑھانے کا ذریعہ۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے واضح کیا کہ کاربن لیوی اور کاربن ٹیکس میں فرق ہے۔
اُن کے مطابق دنیا میں عموماً کاربن ٹیکس رائج ہے، کاربن لیوی نہیں۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اس قسم کا اقدام فنانس بل کے ذریعے نہیں بلکہ الگ قانون سازی سے نافذ ہونا چاہیے۔
سینیٹر شبلی فراز نے اس اقدام کو حکومت کا تضاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت ماحولیاتی تبدیلی کی بات کرتی ہے، دوسری طرف لیوی لا رہی ہے، یہ کاربن لیوی نہیں، بلکہ بھتہ خوری لگتی ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے سپریم کورٹ کے ظفر اقبال جھگڑا کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس فیصلے کی روشنی میں کاربن لیوی عائد نہیں کی جاسکتی، ایسا کرنا توہینِ عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
انہوں نے ایران سے ایندھن کی اسمگلنگ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ کاربن ٹیکس مخصوص صنعتوں پر ماحولیاتی مقاصد کے تحت لگایا جاتا ہے، نہ کہ براہِ راست عوام پر اور کلائمیٹ فنانس کے نام پر عام شہریوں پر بوجھ ڈالا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کا مؤقف واضح ہے کہ ایسا اقدام فنانس بل کے ذریعے قابلِ عمل نہیں۔
سینیٹر فیصل واڈا نے بھی کاربن لیوی کی مخالفت کی اور اسے عوام پر بلاجواز بوجھ قرار دیا۔
ایم این اے نوید قمر نے کاربن لیوی سے ممکنہ آمدن کی وضاحت طلب کی۔ وزارتِ خزانہ کے حکام نے بتایا کہ اس اقدام سے آئندہ مالی سال میں 45 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔
نوید قمر نے سوال اٹھایا کہ اگر اس کو ٹیکس کی شکل دی جائے تو وفاقی حکومت کو اس میں سے کتنا حصہ ملے گا؟ جس پر وزیرِ مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے وضاحت کی کہ اگر یہ کاربن ٹیکس میں تبدیل ہوا تو وفاق کو 18 ارب روپے ملیں گے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کاربن ٹیکس کی تجویز آئی کہاں سے؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ یہ معاملہ پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں زیرِ بحث آچکا ہے۔
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے وضاحت کی کہ اگر یہ لیوی برقرار رہی تو تمام رقم وفاق کو جائے گی، لیکن اگر اسے ٹیکس بنایا جائے تو صوبے بھی اس میں شریک ہوں گے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ان فنڈز کے مخصوص استعمال کی تفصیلات طلب کیں، جب کہ شیری رحمٰن نے مطالبہ کیا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسیلٹی (آر ایس ایف) معاہدے کی تمام شرائط ظاہر کرے۔
سرچارج کی حد ختم کرنے کی تجویز مسترد
دریں اثنا سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی نے بجلی صارفین پر اضافی بوجھ کے خدشے کے پیش نظر سرچارج کی حد ختم کرنے کی تجویز مسترد کر دی۔ کمیٹی نے چھوٹی گاڑیوں پر لیوی کی تجویز کو بھی رد کر دیا۔
تاہم، کمیٹی نے سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشنز پر ٹیکس، بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمدن پر ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور اکنامک و اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کے لیے ٹیکس چھوٹ کی توسیع کی منظوری دے دی۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی نے سولر مصنوعات پر 10 فیصد سیلز ٹیکس کے مجوزہ اقدام پر بھی غور کیا۔
نوید قمر کے مطابق حکومت نے سولر پینلز پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی اور منظوری کے بعد ایف بی آر اس پر عمل درآمد کرے گا۔
ایم این اے مبین عارف نے تجویز دی کہ اگر سینیٹ نے 10 فیصد کی سفارش کی ہے تو قومی اسمبلی کی کمیٹی کو مزید کمی کی سفارش کرنی چاہیے، اس پر نوید قمر نے واضح کیا کہ یہ تجویز سینیٹ کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی کمیٹی کی طرف سے آئی تھی۔
دھوکہ دہی سے متعلق شقوں پر مزید غور کے لیے فیصلہ مؤخر کر دیا گیا اور فنانس بل کو آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا۔
کمیٹی نے خام کپاس کے لیے ایکسپورٹ فنانس اسکیم پر نظرِ ثانی اور مقامی کپاس پر ٹیکس کو درآمدی کپاس کے برابر کرنے کی تجویز دی۔
نئی انرجی وہیکلز لیوی
اراکین نے نیو انرجی وہیکل ایڈاپشن لیوی ایکٹ 2025 پر بات کی اور الیکٹرک گاڑیوں کی منتقلی کے لیے مؤثر حکمتِ عملی کی کمی اور چارجنگ اسٹیشنز کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کیا۔
اراکین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مجوزہ اقدامات میں ہائبرڈ گاڑیاں شامل نہیں۔
ان خدشات کے باعث کمیٹی نے معاملے پر غور آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا اور وزارت سے قابلِ عمل منصوبہ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
بعد ازاں، کمیٹی نے اسٹامپ ایکٹ میں مجوزہ ترامیم پر غور کیا۔ تفصیلی بحث کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ترمیم میں نان فائلر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، حالانکہ یہ زمرہ موجودہ قوانین سے حذف ہو چکا ہے۔
اس تضاد کے پیش نظر کمیٹی نے فیصلہ آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دیا۔
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا خاتمہ
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اب کوئی نئی ٹیکس چھوٹ یا ایمنسٹی اسکیم نہیں دی جائے گی۔
اُن کے مطابق حکومت اب ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر توجہ دے رہی ہے اور یہ عمل سرگرمی سے جاری ہے۔
کمیٹی کے مباحثے میں ٹیکس تعمیل (ٹیکس کمپلائنس) پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ ایف بی آر نے تجویز دی کہ غیر رجسٹرڈ افراد کے بینک اکاؤنٹس بند کیے جائیں اور غیر مطیع ٹیئر-1 ریٹیلرز کی یوٹیلیٹیز منقطع کی جائیں۔
تاہم، ایف بی آر نے اعتراف کیا کہ نظام میں خامیاں موجود ہیں، کیونکہ 3 لاکھ صنعتی یونٹس میں سے صرف 35 ہزار سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔
ایم این اے جاوید حنیف نے سخت اقدامات کی حمایت کی، جب کہ شرمیلا فاروقی نے سزاؤں کے بجائے مراعاتی پالیسی کی تجویز دی۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پوچھا کہ اب تک کتنے نان فائلرز کے کنکشن منقطع کیے گئے ہیں؟ انہوں نے خبردار کیا کہ ٹیکس حکام کو بہت زیادہ اختیارات دینا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے ٹیکس چوری کے حربوں کا اعتراف کیا اور اختیارات میں اضافے پر زور دیا، ساتھ ہی یقین دہانی کروائی کہ بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا عمل عارضی ہوگا۔
ہمیں خطے میں ایران کو اعتماد میں لینا ہوگا، ہمیں خطے کے لیے سوچ سمجھ کر پالیسی بنانی ہوگی، یاد رکھیں یہود اور ہنود ایک دوسرے کے اتحادی ہیں، سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف)
اپ ڈیٹ19 جون 202509:03pm
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ آج ہم ایران کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان کو کھل کر ایران کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے، اور ہمیں کھل کر اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ایران اگر اسرائیل کو جواب دے رہا ہے تو اس کے ہاتھ روکے جا رہے ہیں، اسی طرح پاکستان اگر بھارت کو جواب دیتا ہے تو پاکستان کے ہاتھ روکے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اور اسرائیل مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں تو انہیں کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے، دوستوں سے معذرت کے ساتھ کہ اسے پاکستان اور بھارت کی جنگ نہ کہا جائے، یہ پاک-مودی جنگ تھی، جس میں پاکستان متحد تھا لیکن مودی کو اپنے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اکیلے ہندوتوا کارڈ کھیل رہا تھا اور ایک سرکار پاکستان پہ حملہ کر رہی تھی، بھارت کی اپوزیشن، سکھ اور مسلمان اقلیت نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ جو جنگ لڑے گا اور قوم ساتھ نہیں ہوگی تو وہ انجام ہوگا جو بھارت کا ہوا، آپ بنگال میں جنگ لڑ رہے تھے تو قوم اپ کے ساتھ نہیں تھی، تو نتیجہ کیا نکلا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آج کو ہم آپ کے ساتھ تھے تو دیکھ لیں نتائج کیا سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خطے میں ایران کو اعتماد میں لینا ہوگا، ہمیں خطے کے لیے سوچ سمجھ کر پالیسی بنانی ہوگی، آج ہم ایران کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان کو کھل کر ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے، ہمیں کھل کر اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یاد رکھیں یہود اور ہنود ایک دوسرے کے اتحادی ہیں، اسرائیل کئی مسلم ممالک پر حملہ کر چکا ہے، ایران کے بعد پاکستان کی باری ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فلسطین، لبنان، شام، عراق، ایران اور اب پاکستان اور پاکستان کی ایٹمی قوت تباہ کرنا ان کا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔
امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اظہار خیال کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم خطے کی ممالک کے ساتھ انگیج نہیں ہو رہے، ہمیں اس حوالے سے بھی مؤثر پالیسی بنانی ہوگی، آج دوست ممالک ہم سے دور ہو رہے ہیں اور وہ گرم جوشی نہیں رہی جو ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ممبران اپنے حل کو کے مسائل کی بات کرتے ہیں، وزیراعظم نے جن منصوبوں کا خود افتتاح کیا تھا آج ان کے فنڈز روک دیے ہیں، اب بتائیں کہ ہم کس سے امید رکھیں؟
انہوں نے کہا کہ اللہ کی حاکمیت کے نیچے اس کی نیابت ہم کر رہے ہیں، کیا اسے کہتے ہیں اللہ کی نیابت کہ ہم قانون پاس کریں، قران و سنت کی بجائے اقوام متحدہ تابع۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم قانون سازی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے تابع کر رہے ہیں، میرا ملک چلانے والوں کی حالت یہ ہے کہ ان پر فاتحہ پڑھ لی جائے، کیا یہ لوگ میرے ملک کو چلائیں گے؟
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں انقلاب چاہیے، روایتی سیاست کا دور اب ختم ہو چکا،
عوام کو بیدار کرو اور شعور اجاگر کرو تاکہ وہ اپنے مسائل کے لیے آواز بلند کر سکیں ۔
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ اللہ کرے کہ ہم اپنی روش پر نظر ثانی کریں، اپنے ملک میں جمہوری روش کو بحال کریں، سیاست دانوں کے ساتھ انتقامی رویہ نہ رکھیں اور ملک میں انصاف پر مبنی نظام ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت قوت کے استعمال سے بہتر نہیں ہوگی، معیشت قوم کو انصاف مہیا کرنے سے بہتر ہو سکتی ہے۔
کمیٹی نے سالانہ ایک کروڑ روپے سے زیادہ پینشن پر ٹیکس لگانے، بین الاقوامی کھلاڑیوں کو انکم ٹیکس اور اقتصادی و خصوصی ٹیکنالوجی زونز کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجاویز منظور کرلیں۔
شائع19 جون 202508:09pm
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی عائد کرنے،بجلی صارفین پر 10 فیصد ڈیٹ سروس سرچارج کی حد ختم اور چھوٹی گاڑیوں پر لیوی لگانے کی تجاویز کو مسترد کردیا۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں بجٹ تجاویز پر تفصیلی غور کیا گیا اور ’ پبلک فنانس منیجمنٹ ترمیمی ایکٹ’ پر بحث ہوئی۔
وزارت خزانہ کے مطابق مجوزہ ترمیم کے تحت خودمختار اداروں کو اپنی آمدنی قومی خزانے میں جمع کرانے کی شرط ختم کر دی جائے گی اور انہیں اپنی آمدنی خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
سینیٹر انوشہ رحمٰن نے اس ترمیم کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ ایسے ادارے اپنی آمدنی اور منافع قومی خزانے میں جمع کرانے کے پابند ہونے چاہئیں، انہوں نے اداروں کی بیلنس شیٹس بھی طلب کیں۔
سینیٹر فیصل واڈا نے اسٹیٹ لائف انشورنس کی اربوں روپے کی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا ذکر کیا جبکہ وزیر خزانہ نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ادارہ اپنا منافع اپنے پاس نہیں رکھ سکتا،خاص طور پر ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
کمیٹی نے بجلی صارفین پر 10 فیصد ڈیٹ سروس سرچارج کی حد ختم کرنے کی تجویز مسترد کر دی، حکام نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت اس حد کو ختم کیا جانا چاہیے تاکہ مالی ضروریات کے وقت سرچارج بڑھایا جا سکے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور سینیٹر فیصل واڈا نے اس تجویز کی مخالفت کی اور صارفین پر بوجھ میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کیا، اجلاس میں سالانہ ایک کروڑ روپے سے زیادہ پینشن پر ٹیکس لگانے، بین الاقوامی کھلاڑیوں کو انکم ٹیکس چھوٹ دینے اور اقتصادی و خصوصی ٹیکنالوجی زونز کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجاویز منظور کر لی گئیں۔
دوران اجلاس چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ حکومت عمومی ٹیکس چھوٹ ختم کر رہی ہے۔
اجلاس میں پیٹرولیم مصنوعات پر آئندہ مالی سال مجوزہ ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی کی تجویز کو بھی کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔
سینیٹر شیری رحمٰن، شبلی فراز اور فیصل واڈا نے لیوی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے، کمیٹی نےچھوٹی گاڑیوں پر ایک، دو اور تین فیصد لیوی کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
اجلاس میں غیر ملکی آن لائن پلیٹ فارمز پر 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی۔
پیٹرولیم مصنوعات پر یکم جولائی سے ڈھائی روپے فی لیٹر لیوی عائد ہوگی جس سے 45 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے، سیکریٹری پیٹرولیم
اپ ڈیٹ19 جون 202508:09pm
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے کی منظوری دے دی۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین نوید قمر کے زیرصدارت ہوا جس میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر یکم جولائی سے ڈھائی روپے فی لیٹر لیوی عائد ہوگی جس سے 45 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے مزید کہا کہ آئندہ سال سے یہ لیوی پانچ روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا تھا کہ فوسل فیول کے زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی اور موسمیاتی تبدیلی اور گرین انرجی پروگرام کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کے لیے یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ مالی سال 26-2025 کے لیے پیٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر 2 روپے 50 پیسے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جائے۔
وزیرخزانہ نے کہا تھا کہ کاربن لیوی مالی سال 27-2026 میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دی جائے گی، اس کے علاوہ فرنس آئل پر پیٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔
ایف بی آر افسران کو بزنس اکاؤنٹس سے رقم نکالنے اور فیکڑیوں پر چھاپے مارنے کی اجازت دینے کے اختیارات کو مسترد کرتے ہیں، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے تاجر بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں، سینیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی
شائع19 جون 202505:16pm
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولی کے طریقہ کار پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے، تاجر رہنماؤں نے کہا ہے کہ ٹیکس افسران کو بے جا اختیارات دیے گئے جو ناقابل قبول ہیں، ناقص پالیسوں کے باعث کئی بزنس مین ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق ایف پی سی سی آئی کے سینیئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے ایک بیان میں کہا کہ ایف بی آر افسران کو ایس ایچ او جیسے اختیارات دینے، کاروبار پر بلا نوٹس چھاپے مارنے کے اختیارات دینے کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہیں۔
ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ ای ایف ایس اسکیم کے دائرہ کار میں مقامی مینوفیکچررز کو شامل کرنے کے بجائے مزید ٹیکس لگا دیے گئے۔
نائب صدر ایف پی سی سی آئی آصف سخی نے کہا کہ حکومت ہماری نہیں سن رہی، فیلڈ مارشل عاصم منیر کاروبار دوست پالیسیاں بنوائیں، تاجروں کو چور بولنا بند کیا جائے، ہم معیشت کو چلا رہے ہیں۔
ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر امان پراچہ نے اس موقع پر کہا کہ پچھلے سال کا ٹیکس ہدف کیوں پورا نہیں ہوا، اس حوالے سے کمیٹی بنائی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔
تاجر رہنما ناصرخان نے کہا کہ موجودہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے صنعت کار بیرون ملک جا رہے ہیں، ہم بھی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
واضح رہے فنانس بل 26-2025 میں ایف بی آر افسران کو مزید اختیارات دینے کی تجویز سامنے آئی تھی تاہم اسے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ملازمت پیشہ افراد کیلئے انکم ٹیکس کی شرح کو کم ترین سطح پر لے آئے، ایران ہمارا برادر اسلامی ملک، عالمی برداری فوری طور پر اسرائیل کو جارحیت سے روکے، شہباز شریف
اپ ڈیٹ19 جون 202504:06pm
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والے تنخواہ دار طبقے پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 5 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کر دیا گیا ہے، اس سے قبل انکم ٹیکس ریٹ سلیب کی شرح میں کچھ ابہام موجود تھا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق فنانس بل 26-2025 میں اشارہ دیا گیا تھا کہ ملازمت پیشہ افراد پر انکم ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم ہو کر 1 فیصد ہو گی، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ خطاب میں کہا تھا کہ ٹیکس کی نئی شرح 2.5 فیصد ہوگی۔
بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حالیہ اضافے سے پیدا ہونے والے ’مالی بوجھ‘ کو کم کرنے کے لیے بجٹ پیش کرنے سے قبل انکم ٹیکس کی شرح میں 2.5 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی تھی۔
ادھر چیئرمین ایف بی آر نے بھی پارلیمانی کمیٹی کےایک اجلاس میں کہا تھا کہ ماہانہ ایک لاکھ کی آمدن پر ملازمت پیشہ شخص کو ایک ہزار روپے ٹیکس ادا کرنے پڑے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے مختص بجٹ میں اضافے کا بھر پور دفاع کیا، انہوں نے علاقائی تنازعات میں روز بروز اضافے کے پیش نظر مسلح افواج کے لیے جدید جنگی ساز و سامان کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ایران-اسرائیل جنگ کی وجہ سے علاقائی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے خبردار کیا کہ یہ بحران خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایران اور اس کے عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اعادہ کیا اور بین الاقوامی برادری کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کو فوری روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی بھی درخواست کی۔
کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے بتایا کہ نئے بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کو ایک ہزار ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے، شہباز شریف نے اہداف کو حاصل کرنے کا بھی عہد کیا۔
وفاقی حکومت نے حال ہی میں مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کیا ہے اور اب یہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے سے قبل سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں شق بہ شق زیر غور ہے، حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے 12 کھرب 90 ارب روپے کا دفاعی بجٹ تجویز کیا ہے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 11.8 فیصد زیادہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب کے دوران کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف مسلح افواج کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ بھارت کے خلاف تنازع میں پاک افواج نے 24 کروڑ عوام کی حمایت سے شاندار کامیابی حاصل کی، یہ کارنامہ مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انہوں نے ایران کے ساتھ پاکستان کی غیرمتزلزل یکجہتی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری فوری طور پر سیز فائر کروانے اور اسرائیل کو مزید جارحیت دکھانے سے روکے۔
شہباز شریف نے کابینہ ارکان کو بتایا کہ ان کی ایرانی صدر مسعود پزشکیان اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے بھی اس حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے غزہ کے موجودہ صورتحال کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیتے ہوئےکہا کہ 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا ہے، غزہ میں ظلم و بربریت جاری ہے، دنیا کا ضمیر کب جاگے گا؟
انہوں نے کابینہ کو بتایا کہ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار 21 اور 22 جون کو ترکیہ میں شیڈول اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزارئے خارجہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف کو زرعی شعبے بشمول کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس نہ لگانے پر قائل کر لیا ہے، کسان پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں، حکومتی مؤقف کو تسلیم کرنے پر آئی ایم ایف کے شکر گزار ہیں۔
شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کا نام لیے بغیر کہا کہ موجودہ حکومت ان لوگوں کی طرح نہیں، جنہوں نے اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا اور ملک کو دیوالیہ کے قریب لے آئے تھے، ہماری حکومت معاشی صورتحال پر قابو پاتے ہوئے پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔
وزیراعظم نے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت وفد کی جانب سے بھارت جارحیت کے خلاف یورپ اور امریکا میں پاکستان کا مقدمہ شاندار انداز میں پیش کرنے پر تعریف کی۔
بجلی کے شعبے میں اصلاحات
دوران اجلاس وفاقی کابینہ نے بجلی کے شعبے کو مستحکم بنانے کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے مالیاتی منصوبے کو منظوری دے دی، جس کے تحت اگلے 6 سال میں 12 کھرب 75 روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کیا جائے گا، جس کا قومی بجٹ پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔
منصوبے کے تحت پاور ہولڈنگ کمپنی کے 683 ارب روپے کے قرضے کو ری فنانس کیا جائے گا جب کہ آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو بقایاجات کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ اسکیم کا مقصد پائیدار اصلاحات کا نفاظ، مالی دباؤ کم کرنا اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا ہے۔
وزیراعظم نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی مفادات کے تحفظ کے لیے فیلڈ مارشل کا عزم قومی فخر کا باعث ہے۔
کابینہ نے ’عوام دوست بجٹ‘ پیش کرنے پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کی معاشی ٹیم کی تعریف کی، دوران اجلاس وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کو حجاج کرام کے لیے بہترین انتظامات کرنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔
کابینہ نے 21 مئی کو منعقدہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی بھی توثیق کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تمام صوبوں کے لیے یکساں پالیسی ہونی چاہیے، اب پی آئی ڈی سی ایل تمام صوبوں میں وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرے گی۔
اپ ڈیٹ19 جون 202502:45pm
حکومت نے اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے چار بڑے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں، جن میں سولر پینلز پر جی ایس ٹی میں کمی اور سندھ کی جامعات کے لیے فنڈز کی مکمل بحالی شامل ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے بالآخر اپنی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چار بڑے مطالبات مان لیے ہیں، جس سے قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ کی باآسانی منظوری کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
بدھ کے روز پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں بجٹ پر بحث کے دوران ڈپٹی وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے انکشاف کیا کہ پی پی پی کے رہنماؤں جن میں بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعظم شہباز شریف شامل ہیں، سے تفصیلی مشاورت کے بعد حکومت نے پی پی پی کے اہم مطالبات تسلیم کر لیے ہیں، جن میں سولر پینلز پر مجوزہ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں کمی بھی شامل ہے۔
یہ یقین دہانی بجٹ پر جاری بحث کے دوران خاص طور پر پی پی پی کے ارکان کی جانب سے مختلف بجٹ تجاویز پر تنقید کے بعد سامنے آئی۔
پارلیمنٹ میں متعدد ارکان کی جانب سے ڈیسک بجا کر حوصلہ افزائی کے دوران اسحٰق ڈار نے اعلان کیا کہ ڈیجیٹل سروسز پر سیلز ٹیکس کا اختیار بدستور صوبوں کے پاس رہے گا، جب کہ سولر پینلز پر 18 فیصد مجوزہ جی ایس ٹی کو کم کر کے 10 فیصد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اتحادی جماعتوں اور متعلقہ فریقین، بشمول وزارتِ خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد منگل کی رات بجٹ سے متعلق کئی متنازع امور پر اتفاقِ رائے ہو گیا۔
اسحٰق ڈار نے پی پی پی کی جانب سے ڈیجیٹل ٹیکسیشن پر اٹھائے گئے تحفظات کو درست قرار دیا اور کہا کہ یہ معاملہ وزیر خزانہ اپنی اختتامی تقریر میں واضح طور پر بیان کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ سولرائزیشن میں استعمال ہونے والے 54 فیصد پرزہ جات پر پہلے ہی ٹیکس نافذ ہے، تاہم باقی 46 فیصد پر 18 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ کی تجویز پر اسٹیک ہولڈرز میں شدید تشویش پائی جاتی تھی۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اب ہم نے یہ تجویز دی ہے کہ سولر پر جی ایس ٹی کو 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا جائے گا۔
ڈپٹی وزیراعظم نے کہا کہ جب کسی شعبے میں ریلیف دیا جاتا ہے تو حکومت کو اس خسارے کی تلافی کے لیے دیگر ذرائع سے محصولات اکٹھا کرنے پر غور کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ابتدائی طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 6 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن وفاقی کابینہ میں مشاورت کے بعد اسے بڑھا کر 10 فیصد کر دیا گیا اور اب اس اضافی خرچ کی تلافی کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے۔
پی پی پی کے ایک اور مطالبے کا ذکر کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ سندھ کی جامعات کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ذریعے پی ایس ڈی پی میں 4 ارب 70 کروڑ روپے کی فنڈنگ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ بجٹ میں یہ رقم کم کر کے 2 ارب 60 کروڑ روپے کر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پی پی پی کے ان تحفظات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ غیر فعال پی ڈبلیو ڈی کے منصوبوں کو تین صوبوں کے حوالے کرنے اور سندھ کے منصوبوں کو نو قائم شدہ پاکستان انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) کے سپرد کرنے کے معاملے پر نظرِثانی کی جائے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تمام صوبوں کے لیے یکساں پالیسی ہونی چاہیے، اب پی آئی ڈی سی ایل تمام صوبوں میں وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرے گی۔
تاہم اسحٰق ڈار نے سندھ میں جاری منصوبوں، بشمول سکھر-حیدرآباد موٹر وے کے لیے کم فنڈز مختص کرنے کے معاملے کا ذکر نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی کے کئی ارکان نے اپنی بجٹ تقاریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ موجودہ صورت میں بجٹ کی حمایت ان کے لیے ممکن نہیں ہوگی۔
پی پی پی ارکان نہ صرف سولر پینلز پر 18 فیصد جی ایس ٹی کی مخالفت کر رہے تھے بلکہ وہ سندھ کے ساتھ ’سوتیلا سلوک‘ کیے جانے پر بھی سراپا احتجاج تھے، کیونکہ وہاں کے جاری منصوبوں کے لیے نہایت کم فنڈز مختص کیے گئے تھے۔
ان کا احتجاج وفاقی حکومت کی جانب سے ختم شدہ پی ڈبلیو ڈی کے منصوبے سندھ حکومت کو منتقل نہ کرنے اور ڈیجیٹل سروسز پر ٹیکس براہِ راست مرکز کے ذریعے وصول کرنے پر بھی تھا۔
پی پی پی کے سینئر پارلیمنٹیرین سید نوید قمر نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمارے بیشتر مسائل کو حل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم اور ڈپٹی وزیراعظم کے شکر گزار ہیں، ہمارے مسائل کسی حد تک کم ہوگئے ہیں۔
انہوں نے سولر آلات پر جی ایس ٹی کو 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے کا خیرمقدم کیا، تاہم کہا کہ پارٹی چاہتی ہے کہ اسے مزید کم کر کے 5 فیصد کر دیا جائے۔
نوید قمر نے اعلان کیا کہ معاملات اب طے پا چکے ہیں۔
اس سے قبل بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے اعجاز جاکھرانی نے اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ ان کی جماعت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلافات ختم ہو چکے ہیں اور اب وہ بجٹ کی حمایت میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب حکومت نے ہماری بات سن لی ہے، تو ہم بجٹ کے حق میں ووٹ کیوں نہ دیں؟
نئے مالی سال کے بجٹ میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں، یہ بجٹ اطلاق سے قبل ہی ختم ہو جائےگا، ملک میں ورچوئل مارشل لا لگا ہوا ہے، اپوزیشن لیڈر
شائع18 جون 202504:52pm
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر و پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ نئی مالی سال کے بجٹ میں عوام کو گمراہ کیا گیا، بجٹ 26-2025 میں عوام کے گلے پر چھری پھیری گئی ہے،گزشتہ 3 سالوں کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اسلام آباد میں دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب خان نے وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ میری بجٹ تقریر کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا، قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی، ہماری جماعت کی ایران کے حق اور اسرائیل کی مخالفت میں قرارداد کو بھی براہ راست نشر نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ’ورچوئل مارشل لا‘ لگا ہوا ہے، یہاں نہ آزادی اظہار کی اجازت ہے اور نہ ہی جمہوریت، جس طرح ہمارے حقوق کو سلب کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔
رہنما پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ وفاقی حکومت کا 6 ہزار 500 ارب روپے خسارے کے ساتھ نئی مال سال کا بجٹ اطلاق سے قبل ہی اپنی موت آپ مر جائے گا، وزارت خزانہ میں بجٹ لانے سے قبل خسارے کا سائز، آمدن کا تخمینہ، ایکسچینج ریٹ کیا ہوگا اس کا اندازہ لگایا جاتا ہےکیونکہ اس میں قرضوں کی سود کے ساتھ واپسی اور اپنے اخراجات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ٹریڈ بیلنس پر بھی دھیان رکھنا ہوتا ہے، تاہم یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ایران-اسرائیل کشیدگی کے پہلے دن ہی تیل کی قیمت 64 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 74 سے 75 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے، مستقبل میں تیل کی عالمی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
رہنما پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کی درآمدات کا 25 فیصد خرچ پیٹرولیم مصنوعات پر ہوتا ہے، یہ خرچہ اگر خطے کی موجودہ صورتحال میں بڑھے گا تو پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی اوپر جائے گا جس سے روپے پر مزید دباؤ آنے کا امکان ہے، پاکستان کو 7 ہزار 500 ارب سے 8 ہزار ارب روپے کے قرض بمعہ سود واپس کرنے ہیں جس سے وفاق کا بجٹ ختم ہو جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ ایران-اسرائیل جنگ کے دوران امریکا کی 2 سے 3 نیوکلیئر سب میرینز پھر رہی ہیں، ایران نے بھی جوابی کارروائیوں کی دھمکی دے رکھی ہے۔
عمر ایوب خان نے کہا کہ دنیا بھر میں یومیہ خام تیل کی پیداوار 8 کروڑ 20 لاکھ بیرل ہے، جس میں سے ایران کا حصہ 35 سے 40 لاکھ بیرل ہے جب کہ تیل کی یومیہ کھپت 10 کروڑ 40 لاکھ بیرل ہے۔
انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں خام تیل کا 1.2 ارب بیرل کا ذخیرہ موجود ہے جو کہ صرف 10 سے 12 دن کے لیے کافی ہے، ان حالات میں پاکستان کا کیا شیئر ہوگا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ حکومت متبادل جگہوں سے تیل کی خریداری کرے گی، کیا وہ تیل افغانستان اور تاشقند سے جہاز کے ذریعے لائیں گے؟ ان کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وفاقی حکومت روز مرہ کے اخراجات کو نئے مالی سال کے لیے تقریباً 5 ہزار 300 ارب سے کم کر کے 2 ہزار 400 ارب روپے تک لے آئی ہے، جب میں نے متعلقہ افراد سے پوچھا تو انہوں نے کہا یہ غلطی ہوگئی ہے، یہ کون سے غلطی ہے جس میں اربوں روپے کو کم کر دیا گیا۔
بحث کے دوران پی پی پی نے وفاق پر سندھ کو ترقیاتی منصوبوں میں نظرانداز کرنے کا الزام لگایا، ایم کیو ایم نے نہ صرف وفاقی پالیسی کی حمایت کی بلکہ سندھ حکومت پر کراچی کو نظرانداز کرنے کا الزام بھی لگایا۔
اپ ڈیٹ18 جون 202501:31pm
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر بحث کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکانِ اسمبلی نے وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وفاقی ترقیاتی منصوبوں میں سندھ کو اس کا جائز حصہ نہیں دیا جارہا، جو کہ صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی، جو کہ حکومتی اتحاد کے ایک بڑے اتحادی ہیں، انہوں نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر اپنی تنقید جاری رکھی اور وفاقی حکومت کو صوبہ سندھ کے ساتھ مبینہ امتیازی سلوک پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران تقریباً تمام پی پی پی ارکان نے یکساں نوعیت کی تقاریر کیں، جن میں انہوں نے وفاق کی جانب سے سندھ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کو اجاگر کیا۔
ان کے مطابق سندھ کو ترقیاتی منصوبوں میں اس کا جائز حصہ نہیں دیا جارہا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان جو کہ حکومتی اتحاد کے ایک اور اہم اتحادی ہیں، انہوں نے بھی سندھ کے مختلف منصوبوں کے لیے مختص بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا، ساتھ ہی انہوں نے پی پی پی کی زیر قیادت سندھ حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کراچی کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا۔
پی پی پی کے ارکان نے بنیادی طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے ان منصوبوں کو سندھ حکومت کے حوالے نہ کرنے پر احتجاج کیا جو سابقہ پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے ذریعے چلائے جارہے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پہلے ہی یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کے تمام منصوبے صوبوں کے حوالے کیے جائیں گے، لیکن باقی تین صوبوں کے برعکس یہ فیصلہ سندھ پر لاگو نہیں کیا جارہا۔
دوسری جانب ایم کیو ایم-پی کے ارکان نے ان منصوبوں کو سندھ حکومت کے حوالے نہ کرنے کے وفاقی اقدام کی حمایت کی۔
ان کا مؤقف تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ صوبائی حکومت ان منصوبوں کو مکمل نہیں کر پائے گی۔
بحث کے دوران پی پی پی اور ایم کیو ایم کے ارکان کے درمیان زبانی جھڑپیں بھی ہوئیں اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو کراچی کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔
شازیہ مری کی تقریر پر ایم کیو ایم-پی کے ارکان نے احتجاج کیا، جب انہوں نے بالواسطہ ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کو بھی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ کراچی کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔
ایم کیو ایم-پی کی آسیہ اسحٰق کو پی پی پی کی نشستوں کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا گیا تاکہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکیں، جس پر کئی پی پی پی رہنما اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے تاکہ کسی ممکنہ تصادم کو روکا جاسکے، کیونکہ آصفہ بھٹو زرداری بھی شازیہ مری کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔
ایم کیو ایم کی نگہت شکیل نے الزام لگایا کہ وفاق اور سندھ دونوں حکومتیں کراچی کو نظرانداز کررہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت سندھ میں کچھ منصوبے مکمل کررہی ہے، تو پی پی پی کو بلاوجہ شور مچانے کی ضرورت نہیں۔
ادھر پی ٹی آئی کے رائے حسن نواز نے پی پی پی اور ایم کیو ایم کی اس چپقلش کو ایک ڈرامہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ دونوں جماعتیں بجٹ پر تنقید کر رہی ہیں، لیکن آخر میں دونوں بجٹ کے حق میں ووٹ دیں گی۔
پی پی پی کے صادق میمن نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اُن کی جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ ہے اور اہم آئینی عہدے بھی رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے سندھ کے عوام کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے۔
پی پی پی کے عبدالقادر گیلانی نے پنجاب حکومت کی جنوبی پنجاب کے ساتھ امتیازی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ اس خطے میں احساسِ محرومی بڑھتا جارہا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب کے لیے صرف تین ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کیا گیا ہے، جب کہ لاہور اور وسطی پنجاب کے لیے تقریباً 40 منصوبے رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ہم ’تختِ لاہور‘ سے کب نجات پائیں گے، لیکن ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جو کہ الگ جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبے کی جانب اشارہ تھا۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس آج (بدھ) صبح 11 بجے دوبارہ ہوگا۔
جولائی 2024 تا مئی 2025 کے دوران وفاقی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 596 ارب 61 کروڑ روپےخرچ ہوئے، وزارت منصوبہ بندی
شائع17 جون 202510:43pm
وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا محض 54 فیصد ہی خرچ ہوسکا۔
وزارت منصوبہ بندی نے وفاقی ترقیاتی بجٹ کے اخراجات کی تفصیلات جاری کردی، جس کے مطابق جولائی 2024 تا مئی 2025 کے دوران وفاقی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 596 ارب 61 کروڑ روپےخرچ ہوئے۔
وزارت منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ایک ہزار 35 ارب87 کروڑ روپے جاری کرنے کی منظوری دی گئی۔
وزارت منصوبہ بندی کے مطابق رواں مالی سال کا نظرثانی شدہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا حجم ایک ہزار 96 ارب روپے ہے۔
تفصیلات میں مزید بتایا گیا کہ جولائی تا مئی وفاقی وزارتوں، ڈویژنز نے ترقیاتی منصوبوں پر437 ارب خرچ کیے، اسی دوران کارپوریشنز نے 159ارب 56 کروڑ روپےخرچ کیے گئے۔
کمزور طبقات کی معاونت کے لیے سماجی تحفظ کی اسکیموں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
شائع17 جون 202507:01pm
صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ملاقات ہوئی ہے، جس میں ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر کو اپنے حالیہ دورۂ متحدہ عرب امارات سے آگاہ کیا۔
وفاقی بجٹ کے حوالے سے بھی وزیراعظم اور صدر کے درمیان بات چیت ہوئی، اس موقع پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کمزور طبقات کی معاونت کے لیے سماجی تحفظ کی اسکیموں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ اور پنشنرز، مزدور، پسماندہ طبقات کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے، بجٹ میں عام آدمی اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جائے۔
ترقیاتی پروگراموں کے لیے 240 ارب روپے، غیرترقیاتی بجٹ 642 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے
اپ ڈیٹ17 جون 202506:57pm
بلوچستان کا آئندہ مالی سال کے لیے1028 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا گیا، ترقیاتی پروگراموں کے لیے 240 ارب روپے، غیرترقیاتی بجٹ 642 ارب روپے تجویز ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ تجویز کیا گیاہے۔
بلوچستان اسمبلی میں وزیرخزانہ شعیب نوشیروانی نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے قلیل وقت میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، رواں مالی سال کا 100 فیصد ترقیاتی بجٹ استعمال کیا جاچکا ہے جس سے بلوچستان کے ترقیاتی کاموں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران ترقیاتی بجٹ کا 21 فیصد سڑکوں، 18 فیصد آبپاشی، 13 فیصد تعلیم ، 8 فیصد صحت اور 2.3 فیص توانائی کے لیے رکھا گیا تھا، تعلیمی شعبے میں بہتری کے لیے حکومت نے 32ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی, عوام کو صاف پانی کی رسائی، ڈیموں کی تعمیر اور پانی دیگر منصوبوں پر 46 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی گئی۔
تنخواہ اور پنشن
وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اہل ملازمین کو گریڈ 1 سے 16 تک ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
صحت
صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ 36 ارب 50 کروڑ روپے کا سرپلس بجٹ ہے، بجٹ میں محکمہ صحت کے مختلف منصوبوں اور نئی آسامیوں کیلئے ترقیاتی مد میں 16 ارب 40 کروڑ اور غیرترقیاتی مد میں 71ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہیلتھ کارڈ اسکیم کے لیے چار ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔
تعلیم
شعیب نوشیرانی نےکہا کہ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کا شعبہ سرفہرست ہے، محکمہ تعلیم کے لیے 1170کنٹریکٹ،67 ریگولر آسامیاں تخلیق کی گئیں، رواں مالی سال میں ای سی ای اور اسکول ایجوکیشن کے لیے 28 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، گلوبل پارٹنرشپ ایجوکیشن گرانٹ کے تحت تعلیم میں مزید بہتری اصلاحات کے لیے 6 ارب 70 کروڑ روپے کی گرانٹس مختص کی گئی ہیں.
انہوں نے کہاکہ آئندہ مالی سال میں 1200 سے زائد اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں، آئندہ بجٹ میں اسکول ایجوکیشن کے لیے ترقیاتی مد میں 19ارب 80 کروڑ اور غیرترقیاتی مد میں 101 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ ہائیر ایجوکیشن اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لیے رواں مالی سال 22 ارب 81 کروڑ روپے رکھے گئے تھے، اس سال جامعات کےبجٹ میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شعبہ کالجزکے غیرترقیاتی بجٹ کیلئے 24ارب اور ترقیاتی امور کیلئے 5ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں ایک ہزار ملین روپے کی رقم میرچاکر خان یونیورسٹی کے سب کیمپس کو فعال بنانے کے لیے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
زراعت
صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، زراعت کے شعبے کے ترقیاتی امور کیلئے 10ارب،غیرترقیاتی امور کیلئے 16ارب 77کروڑ روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
محکمہ خوراک
صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں اس شعبے کےلیے ترقیاتی مد میں 26.9 ملین روپے اور ترقیاتی مد میں ایک ارب 19 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی
محکمہ لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی کے ترقیاتی امور کے لیے 12 ارب 90 کروڑ اور غیرترقیاتی امور کیلئے 42ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مواصلات و تعمیرات
صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں محکمہ مواصلات و تعمیرات کےلیے ترقیاتی مد میں 66 ارب 80 کروڑ اور غیرترقیاتی مد میں 17 ارب 48 کروڑ روپےمختص کیے گئے ہیں۔
امن و امان
وزیرخزانہ شعیب نوشیروانی نے کہا کہ صوبے کی ترقی کے لیے امن و امان کاقیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے میں امن قائم کیا ہے، آئندہ مالی سال میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے غیرترقیاتی مد میں 83 ارب 70 کروڑ روپے اور ترقیاتی مد میں 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
آبپاشی
محکمہ آبپاشی کے غیر ترقیاتی امور کیلئے 5ارب 30کروڑ روپے اور ترقیاتی امور کیلئے 42 ارب 70 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
ٹرانسپورٹ
وزیر خزانہ شعیب نوشیروانی کا کہنا تھا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے غیرترقیاتی امور کیلئے 46 کروڑ 35لاکھ روپے اور ترقیاتی امور کے لیے 54 کروڑ 30 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلویز کے اشتراک سے پیپلزٹرین سروس چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ ٹرین سروس ابتدائی طور پر کوئٹہ کے نواحی علاقوں سریاب اور کچلاک کے درمیان چلے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلویز کے موجودہ 5 اسٹیشنوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا جبکہ2 نئے اسٹیشن بھی تعمیر ہوں گے۔
پالیسی کے تحت پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر کوآرڈینری اعزازیہ دینےکا اختیار حاصل ہو گا، آرڈینری اعزازیہ گریڈ ایک تا 22 کے تمام ملازمین کو ایک بنیادی تنخواہ کے برابر دیا جاسکےگا۔
شائع16 جون 202505:43pm
وفاقی کابینہ نے وفاقی سرکاری ملازمین کے لیے نئی اعزازیہ پالیسی کی منظوری دے دی، پالیسی کےتحت بجٹ اعزازیہ، آرڈینری اعزازیہ اورکارکردگی اعزازیہ دیاجائےگا۔
پالیسی کے تحت بجٹ اعزازیہ وفاقی حکومت کی بجٹ سازی کی مشق میں شامل ملازمین کوملے گا، بجٹ اعزازیہ کے لیے وزارت خزانہ، ایف بی آر، وزارت منصوبہ بندی، قومی اسمبلی، سینیٹ سیکریٹریٹ اور وزیرِ اعظم آفس کےملازمین حقدارہوں گے، ہرمالی سال کے لیےاعزازیہ کی تعداد اور کن وزارتوں یا دفاتر کو دیا جائےگا، یہ فیصلہ وزیرخزانہ کریں گے۔
پالیسی کے تحت پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر کوآرڈینری اعزازیہ دینےکا اختیار حاصل ہو گا، آرڈینری اعزازیہ گریڈ ایک تا 22 کے تمام ملازمین کو ایک بنیادی تنخواہ کے برابر دیا جاسکےگا۔
کارکردگی اعزازیہ پر مالی سال کے دوران قابل قدر کارکردگی کی بنیاد پر دیاجائے گا، کارکردگی اعزازیہ مالی سال میں ایک بنیادی ماہانہ تنخواہ کے برابر دیا جاسکےگا، لیکن یہ تعداد کل ملازمین کے 25 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔
مذکورہ بالا 25 فیصد کے علاوہ دیگر اہل ملازمین کو ’کارکردگی اعزازیہ‘ دیاجاسکےگا، کارکردگی اعزازیہ ایک مالی سال میں ایک ماہ کی بنیادی تنخواہ کے برابرہوگا۔
پالیسی کے تحت اعزازیہ کی تمام ادائیگیاں پے رول اسٹیٹمنٹس میں ظاہرکی جائیں گی، اعزازیہ کی ٹیکسیشن مو نیٹائزیشن الاؤنس کی طرز پر ہوگی، کسی وزارت یا ڈویژن میں 6 ماہ سےکم مدت کے لیے تعینات ملازمین کو پرفارمنس اعزازیہ نہیں دیاجائےگا۔
وہ ملازمین جنہیں بجٹ اعزازیہ مل چکا یا ملنے کا امکان ہو، انہیں ’آرڈینری‘ یا ’پرفارمنس آنریریم‘ نہیں دیاجائے گا، بجٹ اعزازیے کی رقم اُس کے پہلے سے دیےگئے اعزازیہ میں ایڈجسٹ کی جائےگی،کوئی بھی ملازم ایک سے زائد اداروں سے اعزازیہ وصول نہیں کر سکےگا۔
اس پالیسی میں بیان کردہ اعزازیہ کے علاوہ کوئی اور اعزازیہ نہیں دیا جائےگا-
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے پر اعزازیہ پالیسی کی منظوری دی،ای سی سی نے اس حوالے سے 2 جون 2025 کو فیصلہ کیا تھا
ماحولیاتی تبدیلی پر فوکس، آئی ٹی اور صنعتی شہر آباد ہورہے ہیں، نیا بجٹ پنجاب میں ترقی کے ریکارڈ قائم کرے گا اور عوام کو ریلیف ملےگا، وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع کی بجٹ تقریر
اپ ڈیٹ16 جون 202504:23pm
وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے پنجاب اسمبلی میں 5 ہزار 335 ارب روپے مالیت کا ٹیکس فری بجٹ برائے مالی سال 26-2025 پیش کردیا۔
ڈان نیوز کے مطابق بجٹ تقریر میں صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ پنجاب کے وسائل کا درست استعمال کیا جا رہا ہے، عوامی خدمت کا تاریخی پیکیج پیش کر رہے ہیں، معاشی نظم و ضبط کی وجہ سے گورننس بہتر ہورہی ہے، ای ٹینڈرنگ اور گڈ گورننس کی وجہ سے کوئی اسکینڈل نہیں بنا، بجٹ میں صحت،تعلیم اور زراعت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے کہا کہ گزشتہ سال کی طرح بجٹ 26-2025 بھی ٹیکس فری ہے، ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسئلے کے خلاف اقدامات کیے گئے ہیں، آئی ٹی اور صنعتی شہر آباد ہورہے ہیں، بجٹ 26-2025 پنجاب میں ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کرے گا اور عوام کو ریلیف ملے گا۔
پنجاب اسمبلی میں بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ مریم نواز پنجاب کو غربت اور بے روزگاری سے پاک کر رہی ہیں، نوجوانوں کے لیے ترقی کے راستے کھول دیے، پنجاب میں طلبہ کوبلا تفریق لیپ ٹاپ دیے گئے، پنجاب میں دن رات ترقیاتی کام ہو رہے ہیں، پنجاب مریم نواز کی قیادت میں ترقی کررہا ہے۔
مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے کہا کہ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں47 فیصد اضافہ کیا گیا، تاریخ میں پہلی بار موٹرویز پر ایمبرجنسی ایمبولینس سروس متعارف کروا رہے ہیں، سی ایم پنجاب چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام کے تحت 4300 سے زائد سرجریز کی گئیں، پنجاب میں 20 ہزار مریضوں کو مفت ڈائیلائسز سہولت فراہم کی گئی۔
کارڈ کے تحت 10 لاکھ کسانوں کو106 ارب روپے کے بلاسود قرضے دیے، پنجاب کے اضلاع میں ایک ارب 10 کروڑ روپے کی لاگت سے ماڈل ایگری مالز اسکیم شروع کی ہے، ناررووال، اوکاڑہ اور لیہ میں میڈیکل کالجز بنائے جارہے ہیں۔
مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے کہا کہ پنجاب میں مفت ادویات کے لیے خطیر رقم خرچ کی گئی، فوڈ نیوٹریشن پروگرام شروع کیا گیا ہے، سرگودھا میں نوازشریف کاررڈیالوجی انسٹیٹیوٹ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے خلاف فتح پرپوری قوم کو سلام پیش کرتا ہوں، پاک فوج نے تاریخی کامیابی حاصل کی، جنگ کےدوران وزیراعلیٰ نےپنجاب میں قائدانہ کردار ادا کیا، اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی مذمت کرتے ہیں، ایران پر بلا جواز حملہ قابل مذمت ہے۔
وزیر خزانہ پنجاب نے کہا کہ سی ایم پنجاب اسکیم کےتحت یونیورسٹی کو 27 ارب روپے مالیت کےلیپ ٹاپ دیے جائیں گے، اسکولوں میں سہولیات کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے کہا کہ شعبہ صحت کے لیے ترقیاتی بجٹ میں 181 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، شعبہ صحت کے غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 450 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف کینسر انسٹیٹیوٹ ریسرچ سینٹر کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے ہیں، نوازشریف میڈیکل ڈسٹرکٹ کے قیام، لینڈ ایکوزیشن کے لیے 109 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، مریم نواز ہیلتھ کلینک پروگرام کے لیے 9 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
تعلیم و صحت کیلئے 77 سال میں ریکارڈ بجٹ رکھا، مریم نواز
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب کے بجٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ بڑی خوشی ہے اللَہ کے فضل سے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، دوسرا سال ہے پنجاب نے نیا ٹیکس نہیں لگایا۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں 77 سال کی تاریخ میں سب سے زیادہ رقم محتص کی ہے، تاکہ ہمارے نوجوان جو ملک کا مستقبل ہیں، وہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بن سکیں۔
بجٹ کا مجموعی حجم 3 ہزار 450 ارب ہے، تنخواہوں اور پنشن کے اخراجات ایک ہزار 100 ارب روپے ہوں گے، مقامی حکومتوں کو 132 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ دیا جائے گا، پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس
اپ ڈیٹ14 جون 202501:54pm
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال 26-2025 کے بجٹ کا حجم 3 ہزار 450 ارب روپے ہے، آئندہ مالی سال ہم ریکارڈ 1460 اسکیمیں مکمل کرنے جا رہے ہیں، الیکشن کے بعد پہلے 2 سال اسکیمیں کم ہوتی ہیں، گزشتہ سال 603 اسکیمیں رکھی گئی تھیں۔
کراچی میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرس کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ ایک ہزار ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ بنانے جا رہے ہیں، اگر وفاق نے پورے پیسے دیے تو یہ اعدادوشمار زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، وفاق نے گزشتہ سال بھی مسلسل محاصل کی منتقلی کم کی ہے، صوبائی ترقیاتی بجٹ کا کل بجٹ ایک ہزار 18 ارب روپے ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2 ہزار 150 ارب روپے کے موجودہ مالی اخراجات ہیں، جاری اخراجات میں سب سب سے بڑا حصہ تنخواہوں اور پنشنز کا ہے، آئندہ مالی سال تنخواہوں اور پنشن کے اخراجات ایک ہزار 100 ارب روپے ہوں گے، ہمارے تنخواہوں کے اخراجات ماہانہ 100 ارب روپے ہیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ مشکلات کے باوجود گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین کی تنخواہ 12 فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، گریڈ 17 سے 22 کی تنخواہیں 10 فیصد بڑھیں گی، یہ سب غیرترقیاتی اخراجات ہیں، دوسرا سب سے بڑا بجٹ ہمارا تعلیم کا ہے، اس سال تعلیمی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ کیا ہے، اس کے بعد بڑا بجٹ صحت کے شعبے کو جاتا ہے، صحت کے بجٹ میں 11 فیصد ضافہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے بجٹ میں گزشتہ سال بڑھایا تھا، اس سال بھی 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، مقامی حکومتوں کو 132 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ دیا جائے گا، محکمہ داخلہ کے بجٹ میں ساڑھے 15 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے، محکمہ توانائی کے بجٹ میں ساڑھے 16 فیصد اضافہ ہوا ہے، محکمہ آبپاشی کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت کے بجٹ میں 16 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، محکمہ زراعت کو ترقیاتی بجٹ ساڑھے 22 ارب روپے دیں گے، ورکس اینڈ سروسز کے غیرترقیاتی بجٹ کو کم کیا ہے، محکمہ تعلیم میں ترقیاتی اخراجات بڑھائے ہیں، محکمہ آبپاشی میں 43 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ افسوس ہے کہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن نے اس اہم قرارداد کے دوران بھی شورشرابہ جاری رکھا، مجھے نہیں پتہ اپوزیشن کس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، دہشت گرد اسرائیل کی سخت مذمت کروں گا، پیپلزپارٹی حکومت نے صوبے کا مسلسل 17واں بجٹ پیش کیا، رواں مالی سال وفاق سے محاصل کی منتقلی پوری نہیں آئی، وفاقی حکومت سے رابطہ کیا لیکن وہ مسلسل کہتے رہے کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ بجٹ سے صرف ایک روز پہلے خط میں آگاہ کیا گیا کہ 105 ارب روپے کم دیں گے، گزشتہ سال سے آج تک 1478 ارب روپے قابل تقسیم پول سے ہمیں ملے، 422 ارب روپے اب بھی وفاقی محاصل سے ہمیں کم ملے ہیں، اگر حکومت اپنے وعدے پر پورا اترتی ہے تو انہیں بقیہ پیسے جون میں ہی دے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام میں ہیں، جس کے تحت صوبوں کو بڑی رقم بچا کر رکھنی ہے، خرچ نہیں کرنی۔
بجٹ کا مجموعی حجم 34 کھرب 51 ارب روپے ہے، ترقیاتی پروگرام کیلئے 1018ارب، تعلیم کیلئے 523 ارب اور صحت کیلئے 326 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں
اپ ڈیٹ13 جون 202509:31pm
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مالی سال 26-2025 کے لیے 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا، سرکاری ملازمین کے لیے بجٹ میں 10 تا 12 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دینے، 5 فیصد محصولات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ و وزیرخزانہ سید مراد علی شاہ اسمبلی میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جامع بجٹ ہے جو سندھ کی غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کرے گا، انہوں نے کہا کہ سماجی بہتری، بنیادی ڈھانچے کی جدت اور اقتصادی خودمختاری کے لیے پرعزم ہیں۔
سرکاری ملازمین کیلئے ایڈہاک ریلیف الاؤنس
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جارہا ہے، گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کےلیے 12 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس ملےگا، جبکہ گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کو 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ پنشن میں 8 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ معذور ملازمین کے لیے کنوینس الاؤنس میں اضافہ کیا جارہا ہے اور واجب الادا پنشن کی مکمل ادائیگی کی جائے گی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ شہریوں کا مالی بوجھ کم کرنے کےلیے 5 محصولات ختم کیے جارہے ہیں، سندھ میں پروفیشنل ٹیکس اور انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ موٹر وہیکل ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے اور سیلز ٹیکس کو آسان بنانے کے لیے نیگیٹو لسٹ سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔
صوبائی وصولیاں
وزیراعلیٰ نے کہا کہ مالی سال 26-2025 کے لیے صوبے کی وصولیاں 34 کھرب 11 ارب روپے متوقع ہیں، جو رواں سال کے مقابلے میں 11.6 فیصد زیادہ ہیں، وفاقی قابل تقسیم پول سے منتقلی، جو کل آمدنی کا 75 فیصد ہے، کا تخمینہ 19 کھرب 27 ارب روپے لگایا گیا ہے، جو 10.2 فیصد اضافہ ہے، اس کے باوجود رواں سال کے نظرثانی شدہ تخمینوں میں 5.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اضافی وفاقی منتقلی، بشمول براہ راست منتقلی اور آکٹرائے ضلع ٹیکس کے خاتمے سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے گرانٹس بھی بڑھنے والی ہیں، جس سے کل وفاقی منتقلی 20 کھرب 95 ارب روپے ہو جائے گی۔
موجودہ ریونیو اخراجات
وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ ریونیو اخراجات 21کھرب 49 ارب ارب روپے مقرر کیے گئے ہیں، جو مالی سال 25-2024 کے 19 کھرب 12 ارب ارب روپے سے 12.4 فیصد زیادہ ہیں، یہ اضافہ افراط زر کے دباؤ، ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں جیسے غیر مالیاتی اداروں کو دی جانے والی گرانٹس میں اضافے، سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہ ریلیف الاؤنس، اور پنشن کی زیادہ ادائیگیوں کی وجہ سے ہے۔
اخراجات اور شعبہ جاتی مختص رقم
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ کل اخراجات میں 12.9 فیصد اضافہ ہو کر 34 کھرب 50 ارب روپے ہونے کی توقع ہے، موجودہ ریونیو اخراجات میں 12.4 فیصد اضافہ ہو کر 21 کھرب 50 ارب روپے ہو جائیں گے، جس کی بنیادی وجوہات تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ (6 فیصد)، مقامی اداروں کو گرانٹس (3 فیصد) اور اہم شعبوں میں نمایاں اضافہ ہیں۔
تعلیم
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ تعلیم کے شعبے کیلئے 523.73 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، جو گزشتہ سال کے 458.2 ارب روپے کے مقابلے میں 12.4 فیصد اضافہ ہے، یہ کل موجودہ ریونیو اخراجات کا 25.3 فیصد بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام تعلیمی سطحوں پر نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، پرائمری تعلیم کا بجٹ 136.2 ارب روپے سے بڑھ کر 156.2 ارب روپے ہو گیا ہے، جبکہ سیکنڈری تعلیم کا بجٹ 68.5 ارب روپے سے بڑھ کر 77.2 ارب روپے ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شعبہ تعلیم کے لیے نئے اقدامات میں 4400 نئے عملے کی بھرتی، چار آئی بی اے کمیونٹی کالجز کا قیام، اور 34100 سے زیادہ پرائمری اسکولوں کو مخصوص لاگت کے مراکز اور بجٹ کے ساتھ بااختیار بنانا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مستحق اور پسماندہ طلبہ کی مدد کے لیے سندھ ایجوکیشنل اینڈوومنٹ فنڈ میں 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، معذور افراد کے ترقیاتی پروگرام (ڈی ای پی ڈی ) کا بجٹ 11.6 ارب روپے سے بڑھ کر 17.3 ارب روپے ہو گیا ہے، جو معاون آلات، وظائف، اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز ) کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے مزید مدد فراہم کرے گا۔
صحت
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحت کے شعبے کے لیے بجٹ 326.5 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کی 302.2 ارب روپے کی مختص رقم کے مقابلے میں 8 فیصد زائد ہے، اس رقم میں سے، 146.9 ارب روپے صحت کے یونٹوں اور اداروں کے لیے امدادی گرانٹس کے طور پر مختص کیے گئے ہیں۔
صحت کے بجٹ میں سے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن ( ایس آئی یو ٹی) کے لیے 19 ارب روپے، پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشی ایٹو (پی پی ایچ آئی) کے لیے 16.5 ارب روپے اور لاڑکانہ میں ایک نئے ہسپتال کے لیے 10 ارب روپے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، دیہی علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے ایمبولینس سروسز اور موبائل تشخیصی یونٹس کو بھی توسیع دی جائے گی۔
ترقیاتی پورٹ فولیو اور سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی)
وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کے لیے 1018 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس میں سے صوبائی اے ڈی پی کیلئے 520 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے ساتھ ضلعی اے ڈی پی، غیر ملکی منصوبوں کی امداد (ایف پی اے ) اور وفاقی ترقیاتی گرانٹس بھی شامل ہیں۔
سالانہ ترقیاتی پروگرام کے اہم نکات
• صوبائی اے ڈی پی : 520 ارب روپے
• ضلعی اے ڈی پی : 55 ارب روپے
• غیر ملکی منصوبوں کی امداد (ایف پی اے): 366.72 ارب روپے
• وفاقی ترقیاتی پروگرام: 76.28 ارب روپے
سالانہ ترقیاتی پروگرام اور ترقیاتی پورٹ فولیو کی توجہ درج ذیل پر مرکوز ہے:
• سیلاب سے متاثرہ اسکولوں اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی تاکہ تعلیمی رسائی کو بہتر بنایا جا سکے۔
• خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے صحت کی سہولیات کو اپ گریڈ کرنا۔
• آب و ہوا کے لحاظ سے پائیدار زراعت اور آبپاشی کے نظام کی بحالی کو فروغ دینا۔
• عوامی صحت کو بہتر بنانے کے لیے صاف پینے کے پانی اور صفائی کی فراہمی۔
• کراچی میں سڑکوں کے رابطے اور شہری بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا، بشمول ماس ٹرانزٹ اور سیف سٹی منصوبے۔
• گرین انرجی کے اقدامات اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کا نفاذ۔
• غذائی امداد، کمیونٹی انفراسٹرکچر، اور کم لاگت رہائش کے ذریعے غربت کا خاتمہ۔
جاری اور نئے منصوبے
سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 3642 اسکیمیں شامل ہیں جن کے لیے 400.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اس کا 82.6 فیصد (3161 ارب روپے) جاری منصوبوں کے لیے ہے اور 17.4 فیصد (481 ارب روپے) نئے اقدامات کے لیے ہے، خصوصی ترقیاتی اقدامات کے لیے 119.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
شعبہ وار مختص رقم
• تعلیم: 102.8 ارب روپے
• صحت: 45.4 ارب روپے
• آبپاشی: 84 ارب روپے
• مقامی حکومت: 132 ارب روپے
• ورکس اینڈ سروسز: 143 ارب روپے
• توانائی (بشمول تھر کول اور قابل تجدید): 36.3 ارب روپے
• زراعت، لائیو اسٹاک، ماہی گیری: 22.5 ارب روپے
• ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ: 59.7 ارب روپے
کراچی کیلئے منصوبے
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی کے لیے اہم بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے منصوبے بنائے گئے ہیں جن میں سڑکوں کی بحالی اور متعدد اضلاع میں سیوریج اور پانی کی فراہمی میں بہتری شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں شہری نقل و حمل پاکستان کی پہلی 50 الیکٹرک بسوں کے آغاز کے ساتھ وسیع ہوگی، اور اگست 2025 تک مزید 100 بسیں شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبوں میں یلو لائن تکمیل کے قریب ہے اور ریڈ لائن 50 فیصد سے زیادہ مکمل ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی سیف سٹی پروجیکٹ AI-integrated CCTV سسٹمز کے نفاذ اور کوریج کی توسیع کے ساتھ نمایاں پیشرفت کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کورنگی کاز وے برج اور شاہراہِ بھٹو کی بہتری جیسے بڑے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے، نئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل اقدامات ورثہ کی بحالی، کاروباری علاقوں کو بہتر بنانے، اور اہم سڑکوں کی تعمیر میں سہولت فراہم کریں گے۔
ڈیجیٹل گورننس
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایک مرکزی ’ کی پرفارمینس انڈیکیٹر’ ( کے پی آئی) مانیٹرنگ ڈیش بورڈ کا آغاز منصوبوں کی حقیقی وقت میں ٹریکنگ کو ممکن بنائے گا، بلاک چین پر مبنی اراضی ریکارڈ اصلاحات کا مقصد جائیداد کے لین دین کو آسان بنانا اور شفافیت کو بڑھانا ہے۔
مزید برآں، ایک ڈیجیٹل پیدائش رجسٹریشن سسٹم کا ہدف 2028 تک 100 فیصد کوریج حاصل کرنا ہے، جس میں صحت اور تعلیم کا ڈیٹا بھی شامل ہوگا۔
زرعی اصلاحات
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بینظیر ہاری کارڈ کا اجرا 2 لاکھ سے زیادہ کسانوں کو سبسڈی اور میکانائزیشن کی مدد فراہم کرے گا، کلائمیٹ اسمارٹ زراعت کو ڈرپ اریگیشن سبسڈی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر مبنی کلسٹر فارمنگ منصوبوں کے ذریعے فروغ دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ترقی پسند کسانوں کو بلاسود قرضے فراہم کرنے کے لیے سندھ کوآپریٹو بینک کے لیے فیزیبلٹی اسٹڈی جاری ہے۔
سماجی بہبود
انہوں نے کہا کہ تعلیمی بجٹ کی نچلی سطح پر منتقلی اسکولوں کے ہیڈ ٹیچرز کو عملی فنڈز کے ساتھ بااختیار بنائے گی، معذور افراد کے لیے مدد میں اضافہ کیا جائے گا، جس میں وظائف میں اضافہ اور نئے بحالی مراکز کا قیام شامل ہے۔
مزید برآں، سندھ بھر میں یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے، جو ہنر کی تربیت، کیریئر کونسلنگ، اور ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام فراہم کریں گے۔
ٹیکس اور امدادی اقدامات
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ پروفیشنل ٹیکس اور انٹرٹینمنٹ ڈیوٹی سمیت پانچ ٹیکسوں (لیویز) کا خاتمہ مالی بوجھ کو کم کرنے کا مقصد ہے، موٹر وہیکل ٹیکس میں بھی کمی ہوگی اور نیگیٹو لسٹ سسٹم میں منتقلی کے ذریعے سیلز ٹیکس کو آسان بنایا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ وکلا، صحافیوں اور اقلیتوں کے لیے فلاحی اور ترقیاتی اقدامات کی مد میں خصوصی گرانٹس بھی فراہم کی جائیں گی۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پابندیوں کے باوجود ہم نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے، صحت اور تعلیم کےلیے زیادہ فنڈز مہیا کیے، ہرسال کی طرح اس سال بھی عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنا حکومت ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال صحت پر 344 ارب روپے خرچ کیے گئے اور این آئی سی وی ڈی میں پورے پاکستان سے زیادہ مرضوں کا علاج کیا گیا، ایس آئی سی وی ڈی کے پاس اسپتالوں کا وسیع نیٹ ورک ہے۔
انہوں نے کہا کہ گمبٹ انسٹی ٹیوٹ میں اس سال 308 لیور ٹرانسپلانٹ کیے گئے، ایس آئی سی ایچ میں بچوں کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، یہ بچوں کی صحت کا دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جے پی ایم سی میں دو سال کے دوران بستروں کی تعداد دگنی کردی گئی ہے، جناح اسپتال دنیا کی واحد جگہ ہے جہاں سائبر نائف کے ذریعے کینسر کا علاج مفت فراہم کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس آئی یو ٹی صحت کا جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا سرکاری ادارہ بن گیا ہے، ایس آئی یو ٹی کے پاس پاکستان کا سب سے بڑا ڈائلائسز سنٹر ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بلقیس عبدالستار ایدھی بریسٹ ریڈیولاجی ہسپتال کی تعمیر جاری ہے۔
2024-25 کی کارکردگی کا جائزہ
وزیراعلیٰ سندھ نے گزشتہ مالی سال کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال 1460 اسکیمیں مکمل ہوئیں، جو حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ ہیں، جبکہ سیلاب متاثرین کے لیے رہائش کے شعبے میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے لیے 4 لاکھ سے زیادہ مکانات مکمل ہو چکے ہیں اور مزید زیر تعمیر ہیں، کل ترقیاتی اخراجات 468 ارب روپے تک پہنچ گئے، جس میں جاری کردہ فنڈز کا 73 فیصد استعمال ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ جامع سالانہ ترقیاتی پروگرام سندھ کی پائیدار ترقی، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، اور سماجی بہبود کے عزم کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد صوبے بھر میں اقتصادی ترقی اور معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔
اپوزیشن کا شدید احتجاج
وزیراعلیٰ سندھ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج اور شورشرابہ کیا، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی کا کہنا تھا کہ کہ یہ بجٹ سندھ کا نہیں وڈیرا شاہی کا بجٹ ہے اور اس میں صرف جاگیرداروں اور وڈیروں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔
رہنما ایم کیو ایم پاکستان نے مزید کہا کہ بجٹ میں شہری سندھ کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا ہے۔