
Get the latest news and updates from DawnNews
وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے اور گریڈ ایک سے 22 تک کے ملازمین اور افسران کی تنخواہوں میں 30 فیصد ڈسپریٹی ریڈکشن الاؤنس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق تنخواہوں میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی 2025 سے ہو گا، جو جاری بنیادی تنخواہ پر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ گریڈ ایک سے 22 تک کے ملازمین اور افسران کی تنخواہوں میں 30 فیصد ڈسپریٹی ریڈکشن الاؤنس دینے کا علیحدہ سے نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ڈسپریٹی ریڈکشن الاونس کا اطلاق 30 جون 2022 کی بنیادی تنخواہ پر دیا جائے گا، ایسے سرکاری ملازمین جو یکم جولائی 2022 یا اس کے بعد بھرتی ہوئے، ان کو 2017کے بنیادی پے اسکیل کی بنیاد پر الاؤنس ملے گا۔
نوٹی فکیشن کے مطابق ڈسپریٹی ریڈکشن الاونس کا اطلاق یکم جولائی 2025سے ہو گا۔
واضح رہے کہ وفاقی بجٹ میں گریڈ ایک تا 22 کی تنخواہ میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا تھا، جبکہ وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ آئین پاکستان میں مساوی حقوق سے متعلق دی گئی شق پر عمل درآمد کرتے ہوئے اہل سرکاری ملازمین کو 30 فیصد کی شرح سے ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد محمود لنگڑیال نے کہا ہے کہ ٹیکس گزاروں کو تنگ کرنے یا پھر نگرانی اور اصلاحات کے نام پر شہریوں کو ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے ایف بی آر افسران کو اس نظام میں معافی نہیں ملی گی۔
اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والا ہر شہری ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہے، گزشتہ برسوں کے دوران ایف بی آر میں ادارہ جاتی اصلاحات کی ہیں، جس کا مقصد جوابدہی ، بنیادی ڈھانچے اور آرگنائزیشن کے اندر ایمان داری کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام اور ٹیکس جمع کرنے والوں کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے، ہمارا مقصد ٹیکس جمع کروانے والوں کو تنگ نہ کرنا ہے، ٹیکس کلیکشن کو بڑھانے کی خاطر افسران کو کسی بھی شہری کو تنگ کرنے سے منع کیا ہے، ہمارا کام نہ تو زیادہ ٹیکس جمع کرنا ہے اور نہ ہی کم۔
راشد محمود لنگڑیال نے مزید کہا کہ ادارے میں موجود جن افسران کی ساکھ خراب ہے انہیں اہم عہدوں سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ ان کی ترقی بھی روک دی گئی ہے، افسران کی شہریوں تک بآسانی رسائی کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
اس موقع پر وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے باعث مہنگائی میں خاطر خواہ کمی آئی ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران خدشات کے برعکس مہنگائی کی شرح 12 فیصد کے بجائے 4.5 فیصد رہی، جون 2025 میں مہنگائی کی شرح صرف 3.2 فیصد ریکارڈ کی گئی جب کہ پالیسی ریٹ بھی 12 سے 11 فیصد پر آگیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 3 سالہ پروگرام طے کیا گیا جس سے ملک میں استحکام آیا، کچھ لوگوں کو خدشات تھے کہ معیشت سنبھلی نہیں جائے گی لیکن حکومتی اقدامات کے باعث معیشت مستحکم ہوئی، کوئی منی بجٹ بھی نہیں آیا اور ہم نے اپنے اہداف بھی کامیابی کے ساتھ حاصل کیے۔
بلال اظہر کیانی نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا بنیادی جزو پرائمری سر پلس کا ہدف حاصل کیا، ساتھ ہی ایف بی آر کے ریونیو میں 26 فیصد اضافہ بھی کیا گیا، کرنٹ اکاونٹ سرپلس کو حاصل کیا جب کہ زر مبادلہ کے ذخائر بھی مستحکم ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے ہدایت کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران جو اہداف حاصل کیے، انہیں اب برقرار رکھنا ہے، ایکسپورٹ بڑھانا، پائیدار معیشت کو مزید مستحکم بنانا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا اہم اہداف ہیں، ہمیں ایسی ترقی کرنی ہے جس سے ہر پاکستانی شہری مستفید ہو۔
بلال اظہر کیانی نے مزید کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ایک کروڑ خاندانوں کو مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے، مالی سال 25-2024 میں اس پروگرام کے لیے فنڈ 460 ارب سے بڑھا کر 592 ارب کیا، رواں مالی سال میں اس فنڈ کو 592 ارب سے بڑھا کر 716 ارب روپے کر دیا گیا۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشنز میں 7 فیصد اضافہ کیا ہے جب کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکسز میں کمی اور بجٹ میں عوام کے لیے ریلیف رکھا گیا ہے۔
قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ 26-2025 کی منظوری کا عمل مکمل ہوگیا، ایوان نے گزشتہ 2 سال کی سپلمنٹری گرانٹس کی بھی منظوری دے دی، اپوزیشن نے ایوان میں شدید احتجاج اورنعرے بازی کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، حکومتی بینچز نے بھی بھرپور جواب دیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہوا، کارروائی کے آغاز میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری کے لیے اٹھے تو اپوزیشن اراکین نے شدید نعرے بازی شروع کردی، پی ٹی آئی اراکین نعرے بازی کرتے ہوئے اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کی جانب سے بھی اپوزیشن ارکان کو نعروں کا جواب دیا گیا، شدید احتجاج کے دوران ہی مالی سال 24-2023 اور 25-2024 کی 712 ارب 41 کروڑ روپے سے زائد کی سپلمنٹری گرانٹس بھی منظورکرلی گئیں۔
قومی اسمبلی نے گزشتہ 2 سال کے عرصے کے ترقیاتی و غیر ترقیاتی لازمی اخراجات کی منظوری بھی دے دی۔
بعد ازاں ایوان کی کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی جب کہیں گے اسمبلی تحلیل کردیں گے، آئینی بحران سےبچنے کیلئے بجٹ منظور کیا۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ( عمران خان ) جب کہیں گے اسمبلی تحلیل کردیں گے، ہمارے پاس اسمبلی توڑنے کا اختیا رہے۔
انہوں نے کہا کہ میری عمران خان سے ملاقات نہیں کرائی جارہی، بطور وزیراعلیٰ کسی بھی جیل میں ملاقات کا حق ہے، بانی سے ملاقات ہمارا آئینی اور سیاسی حق ہے، ملاقات نہ کرائی تو آئی ایم ایف پروگرام میں تعاون نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کراتے نہیں ہیں، اور پھر کہتے ہیں کہ سخت باتیں کرتا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئینی بحران سےبچنے کیلئے بجٹ منظور کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں قانون پر عملدرآمد نہیں ہورہا، ہم احتجاجاً کسی فنانس کمیٹی میں شرکت نہیں کریں گے، یہ جب پھنسیں گے تب بانی سے ملاقات کرائیں گے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہم احتجاج کریں تو گولیاں ماری جاتی ہیں، ملک میں آئین اور قانون کو روندا جارہاہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے نئے مالی سال 26-2025 کے فنانس بل کی منظوری دے دی۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی، وزیر خزانہ نے فنانس بل پر کابینہ کو بریفنگ دی، جس کے بعد وفاقی کابینہ نے نئے مالی سال کے فنانس بل کی منظوری دی۔
وفاقی کابینہ نے فنانس بل میں ترامیم کی منظوری بھی دی، اجلاس میں ملکی مجموعی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔
یاد رہے کہ آج ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بدھ کے روز آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں شامل کچھ سیاسی طور پر غیر مقبول شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ قومی اسمبلی میں آج (جمعرات) متوقع منظوری سے قبل ان متنازع شقوں میں ترمیم کرے۔
سابق وزیر خزانہ اور پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر (جو اس وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی ہیں) نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی تاکہ فنانس بل 2025 کی اہم شقوں پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
فنانس بل پر قومی اسمبلی کے فیصلہ کن ووٹ سے قبل وقت کم رہ گیا ہے اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اس دوران ارکان قومی اسمبلی سے انفرادی ملاقاتیں تیز کر دی ہیں تاکہ بل کی منظوری سے قبل ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ایک ذرائع کے مطابق بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے وزیراعظم روزانہ 5 سے 6 ارکان اسمبلی سے ملاقات کر رہے ہیں، ان دنوں کو چھوڑ کر جب وہ بیرون ملک ہوتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بدھ کے روز آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں شامل کچھ سیاسی طور پر غیر مقبول شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت پر زور دیا کہ قومی اسمبلی میں آج (جمعرات) متوقع منظوری سے قبل ان متنازع شقوں میں ترمیم کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے سابق وزیر خزانہ اور پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر (جو اس وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی ہیں) نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی تاکہ فنانس بل 2025 کی اہم شقوں پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
فنانس بل پر قومی اسمبلی کے فیصلہ کن ووٹ سے قبل وقت کم رہ گیا ہے اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اس دوران ارکان قومی اسمبلی سے انفرادی ملاقاتیں تیز کر دی ہیں تاکہ بل کی منظوری سے قبل ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ایک ذرائع کے مطابق بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے وزیراعظم روزانہ 5 سے 6 ارکان اسمبلی سے ملاقات کر رہے ہیں، ان دنوں کو چھوڑ کر جب وہ بیرون ملک ہوتے ہیں۔
ہر ملاقات تقریباً 10 منٹ کی ہوتی ہے جس کا مقصد پارلیمنٹ میں حاضری کو یقینی بنانا اور ارکان کے انفرادی تحفظات کو دور کرنا ہوتا ہے، یہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ایک ترغیب ہے، اس عمل کی بدولت ارکان بجٹ سیشنز میں بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے اس معاملے پر پیغامات یا کالز کا جواب نہیں دیا۔
نوید قمر نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ فنانس بل کا حتمی مسودہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کی عکاسی کرتا ہے، ان ترامیم کو حتمی ووٹنگ سے قبل کمیٹی کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس افسران کے لیے گرفتاری کے مجوزہ اختیارات پر پی پی پی کے تحفظات تسلیم کیے اور کہا کہ یہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ زیر بحث ہے اور حتمی ووٹ سے قبل اسے حل کر لیا جائے گا۔
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت آج کابینہ کا اجلاس بلا رہی ہے تاکہ نظر ثانی شدہ فنانس بل کی منظوری دی جا سکے، یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے قائمہ کمیٹی کی تقریباً نصف سفارشات کو حتمی مسودے میں شامل کیا ہے، کابینہ اس ترمیم شدہ بل کی منظوری دے گی اور پھر اسے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔
سب سے متنازع شق ایف بی آر کو توسیعی اختیارات دینے سے متعلق ہے، خاص طور پر سیلز ٹیکس فراڈ کے مقدمات میں گرفتاری اور قانونی کارروائی کے اختیارات، اس پر پی پی پی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی تجویز پر مفاہمت ہوئی اور ترمیم شدہ شقیں اب حتمی مسودے میں شامل کیے جانے کی توقع ہے۔
ایک اور متنازع اقدام میں جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری کو فرد کے آمدنی گوشوارے سے منسلک کیا گیا ہے، حکومت نے اس کی حد بڑھا دی ہے تاہم پی پی پی کا مؤقف ہے کہ یہ شق سیاسی طور پر غیر مقبول ہے اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
تیسرا تنازع سیلز ٹیکس رجیم کے تحت کاروباری رجسٹریشن سے متعلق ہے، ابتدائی طور پر تجویز دی گئی تھی کہ غیر رجسٹرڈ کاروباروں کی یوٹیلیٹی سروسز منقطع یا ان کے کاروبار بند کر دیے جائیں گے، تاہم حکومت نے اب اس تجویز کا ترمیم شدہ ورژن پیش کر دیا ہے۔
ماضی کی روایت سے ہٹتے ہوئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی چیئرمین شپ اب حکومت کے بجائے اتحادی جماعت کے رکن کے پاس ہے، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کمیٹی نے فنانس بل کا شق وار جائزہ لیا ہے۔
نوید قمر (جو قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں) نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ یہ تبدیلی قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط 2007 کے قاعدہ 122 میں ستمبر 2024 میں ان کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم کے ذریعے ممکن ہوئی۔
یہ ترمیم، جسے قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاق نے متفقہ طور پر منظور کیا، لازمی قرار دیتی ہے کہ فنانس بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو منظوری سے قبل بھیجا جائے اور کمیٹی کو 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنا لازم ہے۔
ماضی میں فنانس بل کو سینیٹ میں پیش کیا جاتا تھا، جہاں چیئرمین اسے سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے سپرد کرتا تھا۔
ادھر، قومی اسمبلی عموماً بجٹ کو 28 دن بعد منظور کرتی تھی، جس سے قبل طویل بحث و مباحثہ ہوتا تھا، تاہم سینیٹ کی سفارشات محض مشاورتی حیثیت رکھتی تھیں اور اکثر اوقات انہیں حتمی بل میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔
اس کے برعکس، قومی اسمبلی کی سفارشات اب لازمی حیثیت رکھتی ہیں، جو بجٹ سازی کے عمل میں ایوانِ زیریں کے اختیارات میں اضافے کی عکاسی کرتی ہیں، فی الوقت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سلیم مانڈوی والا ہیں۔
اس ترمیم کے نتیجے میں، قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس 2025 کے دوران نوید قمر نے فنانس بل پر کمیٹی کی پہلی تفصیلی رپورٹ پیش کی، جس کا مقصد وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو یکم جولائی سے نافذ کرنا ہے۔
نوید قمر نے اس پیش رفت کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کو بجٹ پر مائیکرو سطح پر غور کرنے کا اختیار حاصل ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے اراکین باقاعدگی سے اجلاسوں میں شریک رہے اور فنانس بل پر تفصیلی مباحثوں میں بھرپور حصہ لیا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی پابندیوں کے باوجود کمیٹی کی بیشتر سفارشات تسلیم کیں۔
نوید قمر نے کہا کہ یہ عمل اب محض رسمی منظوری تک محدود نہیں رہا، بجٹ سازی کا اختیار بیوروکریسی سے نکل کر عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ مزدور کی کم از کم اجرت 42 ہزار روپے ہونی چاہیے۔
ڈان نیوز کے مطابق صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ کے لیے وفاق نے بھی کوئی نمبر نہیں دیا، پنجاب اور خیبرپختونخوا نے 40 ہزار کا نمبر دیا ہے جو ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم گریڈ ایک سے گریڈ 16 کے ملازمین کی تنخواہ 12 فیصد بڑھا رہے ہیں تو وہ جو مزدور ہے اس کی اجرت کم از کم 12 فیصد (کی شرح) سے تو بڑھائیں، تو یہ 42 ہزار بنتی ہے، چنانچہ مزدور کی کم از کم تنخواہ 42 ہزار روپے ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ 21 جون کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد، پینشنرز کی پینشن میں 20 فیصد اضافے، کم از کم ماہانہ اجرت 50 ہزار روپے اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) کی پینشن 23 ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارشات پیش کی تھیں۔
قائمہ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 7 فیصد کے بجائے 20 فیصد اضافہ کیا جائے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کے بجائے 50 فیصد اضافہ کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی نے کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار روپے مقرر کرنے، ای او بی آئی کی پینشن ساڑھے 11 ہزار روپے سے بڑھاکر 23 ہزار روپےکرنے کی سفارش کی تھی۔
خیال رہے کہ سندھ کابینہ نے رواں مالی سال 25-2024 کے لیے کم از کم اجرت 32 ہزار روپے سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کرنے کی منظوری دی تھی، اسی اجرت کا 12 فیصد 4440روپے بنتا ہے۔
یہ رقم اگر 37 ہزار روپے کی اجرت میں جمع کی جائے تو تقریباً ساڑھے 41 ہزار ہوجاتی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے بجٹ کو بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) و سابق وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، ان سے ہماری ملاقات نہیں کروائی جا رہی۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ بجٹ پاس نہ ہو، اور فنانشل ایمرجنسی لگا کر حکومت کو ختم کیا جائے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہم اس سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے، جس دن بانی نے حکم دیا یہ حکومت ختم کر دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سازش کے تحت ختم کیا گیا، سب کو پتا ہے کہ یہ سازش کس نے کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جمہوریت کی خاطر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو تحلیل کیا، جب بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں ہم حکومت ختم کردینگے مگر سازش نہیں ہونے دینگے۔
انہوں نے کہا کہ جس نے طاقت کا غلط استعمال کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، اگر یہ سمجھتے ہیں ان کا احتساب نہیں ہو گا تو وہ بھول میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہمیں صوبہ ملا تو یہاں پر صرف 18 دنوں کی تنخواہیں موجود تھیں، اس صوبے میں امن و امان کو خراب کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی، اور اب بھی ڈرون حملے بند نہیں کیے جا رہے۔
وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے مشکل حالات میں متوازن بجٹ پیش کیا، تمام شراکت داروں کی تجاویز اور سفارشات بجٹ کا حصہ ہیں، 12 لاکھ تک کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح ایک فیصد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ سولر پینلز پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہوگی۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر عام بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ وزیراعظم، ڈپٹی وزیراعظم، اراکین قومی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیز کے چیئرمینوں اور اراکین، اتحادی جماعتوں کے اراکین، اراکین قومی اسمبلی اور تمام شراکت داروں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بجٹ کی تیاری، بحث، اس حوالے سے تجاویز اور سفارشات کو حتمی شکل دینے میں تعاون کیا، اس رہنمائی کی وجہ سے حکومت کومتوازن بجٹ دینے میں مدد ملی۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات میں کمی اورٹیکس کی بنیاد اور تعمیل پر زور دیا گیا ہے، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت اور تعمیل کے لیے ایف بی آر میں اصلاحات اور ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کر دیا گیا ہے، تعمیراتی شعبہ کو ریلیف دیا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیرف کو معقول بنانا اہمیت کا حامل ہے، درآمدی خام مال اور ٹیرف لائنز میں سہولت سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا، بلکہ صنعتوں کو فروغ دینے اور اصلاحات کے عمل کوآگے بڑھانے میں بھی مدد ملے گی، صنعتی پالیسی تیار ہے، اور اس کا اعلان جلد ہو گا جبکہ الیکٹرانک گاڑیوں کے لیے پالیسی کا اعلان بھی جلد کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی سمیت اہم شعبوں میں اصلاحات کاعمل جاری رہے گا، سماجی بہبود کے شعبے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 592 ارب روپے سے بڑھا کر 716 ارب روپے کر دیا ہے، اس اقدام سے تقریباً ایک کروڑ خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھرپور کوشش ہو گی کہ ان خاندانوں کے افراد کو ہنر مند کارکن بنایا جائے اور ان کو اپنی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانے، غربت کے چکر کو توڑنے اور معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حکومت، بینظیر ہنر مند پروگرام کو مطلوبہ وسائل فراہم کرے گی، اسی طرح حکومت برٹش ایشین ٹرسٹ کے اشتراک سے پاکستان کا پہلا سکلز ایمپیکٹ بانڈ متعارف کرانے جا رہی ہے جو نتائج پر مبنی مالی معاونت کی نئی مثال بنے گا اور نوجوانوں کو مارکیٹ سے ہم آہنگ تربیت فراہم کرے گا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت نے زرعی شعبے کے فروغ اور چھوٹے کسانوں کی معاونت کے لیے بغیر ضمانت اور نقد بنیادوں پر قرضے فراہم کرنے کا فلیگ شپ پروگرام بنایا ہے، جس کے تحت ساڑھے 12 ایکڑ تک اراضی والے چھوٹے کسانوں کو ڈیجیٹل ذرائع سے 10 لاکھ روپے تک کے قرضے دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس قرض سے منظور شدہ بیج، کھاد، زرعی ادویات اور ڈیزل کی ادائیگی کی جا سکے گی اور کسان کو فصل اور زندگی کی بیمہ سہولت بھی فراہم کی جائے گی، اس کے علاوہ حکومت کسانوں کے لیے الیکٹرانک ویئر ہاؤس رسید کا نظام وضع کرنے جا رہی ہے، جس کے تحت اناج کو اسٹور کرنے میں مدد ملے گی، کسانوں کو اپنی فصل کی بہتر قیمت ملے گی اور مجموعی فوڈ سیکیورٹی میں استحکام آئے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت قابل اسطاعت ہاؤسنگ فنانس کے فروغ اور پہلی بار گھر خریدنے یا تعمیر کرنے کے خواہشمند کم آمدنی والے افراد کے لیے 20 سالہ مدت کی قرض اسکیم متعارف کرانے جا رہی ہے، مالی شمولیت کی غرض سے خواتین کے لیے مخصوص مالیاتی پروگرام کے تحت ایک لاکھ 93 ہزار سے زیادہ خواتین کو 14 ارب روپے کے قرضے فراہم کیے جا چکے ہیں، اگلے مالی سال میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے خواتین کو تقریباً 14 ارب روپے کے مزید قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ کا بخوبی احساس ہے، دستیاب مالی گنجائش میں رہتے ہوئے ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکومت نے ابتدائی طور پر 32 لاکھ روپے تک کی آمدن کی سلیبز پر ٹیکس کی شرح کم کرنے کی تجویز دی، اسی طرح 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد کرنے کی تجویز تھی، تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر حکومت نے اس آمدن یعنی 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے پر ٹیکس کی شرح مزید کم کر کے صرف ایک فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے اس کیٹیگری میں شامل تنخواہ دار طبقے کو اضافی ریلیف ملے گا اور ان کی مالی مشکلات میں کمی آئے گی، اس کے علاوہ میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بجٹ تقریر سے یہ تاثر لیا گیا کہ پنشن پر ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے کمیوٹیشن اور گریجویٹی کی رقم پر بھی ٹیکس عائد ہو گا، لیکن ایسا نہیں ہے جو لوگ سالانہ ایک کروڑ سے زائد پنشن وصول کرتے ہیں صرف انہی پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایات پر 75 سال سے زائد عمر والے پنشنر کسی بھی قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، سولر آلات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا تھا، جس کو اب کم کر کے 10 فیصد کر دیا گیا ہے، اس ٹیکس کا اطلاق صرف 46 فیصد درآمدی پرزہ جات پر ہوگا، جس سے امپورٹڈ سولر پینلز کی قیمت میں صرف 4.6 فیصد اضافہ ہو گا، ہمیں درآمدی سولر پینلز پر مجوزہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل ہی بعض عناصر کی جانب سے ناجائز منافع اور ذخیرہ اندوزی کی اطلاعات ملی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تجویز کے عملی نفاذ سے قبل ہی موقع پرست عناصر کی جانب سے قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کرنا قابل مذمت ہے، جیسا کہ میں نے سینیٹ میں کہا تھا میں ان عناصر کو سختی سے متنبہ کرتا ہوں کہ حکومت کسی کو عوام کے استحصال کی اجازت نہیں دے گی اور ان عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ تقریر میں ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، واضح کرنا چاہوں گا کہ مقامی طور پر تیار کردہ کسی ہائبرڈ گاڑی پر سیلز ٹیکس رجیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی ہے،۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پا کستان کی خصوصی ہدایت پر ٹیکس فراڈ کے حوالے سے ایف بی آر کے موجودہ اختیارات اور فنانس بل کے ذریعے مجوزہ تبدیلیوں کا ایک مرتبہ پھر بغور جائزہ لیا گیا، جس کے تحت ٹیکس فراڈ کی قابل اور ناقابل دست اندازی کیٹیگریز بنا دی گئی ہیں، اب مزید 5 کروڑ روپے تک کے کیسز میں ایف بی آر بغیر عدالتی وارنٹ گرفتاری نہیں کر سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ علاوہ ازیں گرفتاری کے لیے 3 بار نوٹسز کے باوجود جان بوجھ کر انکوائری کا حصہ نہ بننے، راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرنے اور ریکارڈ کو ٹیمپر کرنے کی صورت میں کارروائی کی جائے گی، ان شرائط کے باوجود گرفتاری کی منظوری کسی ایک افسر کے بجائے ایف بی آر کی اعلیٰ سطح کی 3 رکنی کمیٹی دے گی، اور گرفتار شدہ افراد کو 24 گھنٹوں میں اسپیشل جج کی عدالت میں پیش کرنا لازم ہوگا، اس کے علاوہ یہ امر بھی یقینی بنایا جائے گا کہ اس عمل کے دوران کسی شہری سے زیادتی نہ ہو اور اختیارات کا ناجائز استعمال نہ ہو۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کی زیادہ تر سفارشات کو بھی مجوزہ ترمیمی فنانس بل میں شامل کر لیا گیا ہے، مالی بل میں اس بار ای کامرس پر ٹیکس لگانے کے خصوصی اقدامات تجویز کیے گئے تھے، ان اقدامات کی بنیادی وجہ ریٹیل بزنس اور ای کامرس کے درمیان لیول پلے انگ فیلڈ پیدا کرنا تھا تاہم معاشی سرگرمیوں میں ای کامرس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ای کامرس سرگرمیوں میں شامل مائیکرو اور اسمال بزنس کو ایک آسان نظام پر منتقل کیا جا رہا ہے جہاں ان پر ٹیکسوں میں اضافے کا اطلاق محدود بنیاد پر ہو گا، اس اقدام سے ای کامرس میں گھر سے کام کرنے والوں اور چھوٹے کاروبار کی سہولت میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں لوگ ظاہر کیے گئے معاشی وسائل سے بڑھ کر بڑی بڑی جائیدادیں خریدتے تھے، مجوزہ فنانس بل میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 114 سی کے تحت ایسے لوگوں پر بڑی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز تھی، وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایات پر اس نئے قانون کا اطلاق فی الوقت 5 کروڑ روپے مالیت کے رہائشی پلاٹ یا مکان، 10 کروڑ روپے مالیت تک کے کمرشل پلاٹ یا جائیداد اور 70 لاکھ روپے تک کی گاڑی کی خریداری پر نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو مناسب وقت پر ان مالیاتی حدود میں کمی بیشی کرنے کا اختیار دینے کی تجویز ہے، اس اقدام سے معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی، موجودہ قانون کے تحت یکم جولائی 2024 سے پہلے خریدی گئی جائیداد پر 6 سال کی مدت گزرنے کے بعد کیپٹل گین ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا، تاہم اس جائیداد کی فروخت پر ساڑھے 4 سے 6 فیصد تک ودہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس عمومی طور پر ریٹرن فائل کرنے پر ریفنڈ کی شکل میں واپس کر دیا جاتا ہے، جس میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وزیراعظم کی ہدایات پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 15 سال یا اس سے زائد مدت تک ذاتی استعمال میں رہنے والی رہائش پر اس ودہولڈنگ ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوگا، اس سہولت کے بے جا استعمال کو روکنے کے لیے اس سہولت کا اطلاق 15 سال میں صرف ایک ذاتی جائیداد کی فروخت پر ہو گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں برآمدات میں اضافے کے لیے چند سال سے برآمدی سہولت اسکیم متعارف کرائی گئی تھی، جس میں ایکسپورٹرز کو بغیر ڈیوٹی اور ٹیکس دیے خام مال درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، پچھلے 3 سال کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اسکیم کے تحت دی گئی رعایت کی وجہ سے پاکستان میں پیدا شدہ کپاس، روئی اور دھاگہ کی قیمت اور درآمد شدہ اشیا کی قیمتوں میں واضح فرق پیدا ہوا، جس کی وجہ سے کپاس کی فصل اور اس کے کاشتکاروں پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درآمدی اور ملکی پیداوار میں اس فرق کو ختم کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ روئی اور دھاگے کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ ختم کر دی جائے، اس اقدام سے کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہو گا، اسپننگ ملوں کی بحالی ہو گی اور غیر ملکی زر مبادلہ کی بچت ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم فنڈ پروگرام کے تحت ملک میں مالیاتی نظم و ضبط میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان بیان کردہ ٹیکس رعایتوں کے نتیجے میں ٹیکس وسائل میں کمی کو پورا کرنے کے لیے 3 مزید بجٹ تجاویز اس ایوان میں پیش کی جا رہی ہیں، ان اقدامات میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ صنعتی اور کاروباری طبقہ کے اوپر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، کوشش ہے کہ یہ نئے ٹیکس اقدامات صاحب حیثیت افراد پر عائد کیے جائیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں یہ بھی واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایات پر صنعتوں کو بھی نئے ٹیکس اقدامات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ ہماری صنعتیں عالمی منڈیوں میں مسابقت کے قابل ہو سکیں، انکم ٹیکس کے ضمن میں سب سے پہلے تجویز یہ ہے کہ میوچل فنڈز کی طرف سے کمپنیوں کو جاری کردہ ڈیویڈنڈ میں سے ڈیبٹ پورشن سے حاصل شدہ آمدن پر ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے بڑھا کر 29 فیصد کی جائے۔
واضح رہے کہ ان کمپنیوں کے دیگر ذرائع آمدن پر 29 فیصد کی شرح پہلے سے لاگو ہے، کارپوریشنز اور کمپنیوں کی طرف سے گورنمنٹ سیکیورٹیز میں کی گئی سرمایہ کاری پر ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے، حکومت کی ایک ترجیح یہ بھی ہے کہ نجی کاروبار وں کو زیادہ سے زیادہ قرضے مل سکیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پولٹری کی صنعت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اور اس صنعت میں چوزوں کی ہیچری کا کاروبار ایک اہم جزو کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس سے وصول ہونے والا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا اس کی درستگی کے لیے تجویز کیا جا رہا ہے کہ ہیچری کے ایک دن کے چوزوں پر 10 روپے فی چوزہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے تاکہ قومی آمدنی میں اس شعبے کا حصہ بھی شامل ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایران۔اسرائیل جنگ کی وجہ سے ہمارے خطے کے معاشی توازن پر منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے، میں معزز ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت ان تمام معاملات پر اور ان کے نتیجے میں ہماری معیشت پر ممکنہ اثرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، وزیراعظم پاکستان نے اس حوالے سے ایک اہم کمیٹی 14 جون کو ہی تشکیل دے دی تھی جس میں میرے علاوہ متعلقہ وزرا اور اعلیٰ حکام شامل ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد، پینشنرز کی پینشن میں 20 فیصد اضافے، کم از کم ماہانہ اجرت 50 ہزار روپے اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) کی پینشن 23 ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارشات پیش کر دی ہیں-
ڈان نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ خزانہ کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں ہوا، جن کی سربراہی میں یہ سفارشات تیار کی گئی ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے سفارش کی کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 7 فیصد کے بجائے 20 فیصد اضافہ کیا جائے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کے بجائے 50 فیصد اضافہ کیا جائے-
قائمہ کمیٹی نے کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار روپے مقرر کرنے، ای او بی آئی کی پینشن ساڑھے 11 ہزار روپے سے بڑھاکر 23 ہزار روپےکرنے کی سفارش کی ہے۔
کمیٹی نےسولر پینلز پر سیلز ٹیکس ختم اور 850 سی سی سےکم گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے کی سفارش کی ہے۔
سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی نے تنخواہ دار طبقے کے لیے سالانہ 12 لاکھ روپے تک آمدنی پر انکم ٹیکس کی چھوٹ اور سالانہ 50 لاکھ روپے سے زائد زرعی آمدن پر 10 فیصد انکم ٹیکس لاگو کرنے کی سفارش کی ہے۔
کمیٹی نے 200 یونٹ تک ماہانہ بجلی کے استعمال پر ڈیبٹ سروس سرچارج نہ لگانے، اسٹیشنری آئٹمز کو زیرو ریٹیڈ کرنے اور ہومیوپیتھک ادویات پر 18 فیصد کے بجائے ایک فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی سفارش کی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کرنے کی سفارش کی ہے، اسی طرح کمیٹی نےگرینڈ چکن پر 3 فیصد ایڈیشنل ٹیکس ختم کرنے، ای ایف ایس اسکیم کے تحت ڈائیز اور کیمیکلز پر سیلز ٹیکس لاگو کرنے، بیوریجز اور جوسز پر ایکسائز ڈیوٹی 15 فیصد کم کرنے اور آن لائن خریداری پر 2 فیصد انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ختم کرنے کی سفارشات بھی پیش کی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے طویل مشاورت کے بعد درآمدی سولر پینلز کے پرزہ جات پر تجویز کردہ 18 فیصد ٹیکس کو کم کر کے 10 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ برآمد شدہ سولرز کے پرزہ جات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ مقامی صنعت کو فروغ دینے اور مسابقتی ماحول قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ایوانوں میں تفصیلی غور و غوض اور اراکان پارلیمنٹ کی تجاویز پر حکومت نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیکس کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس ٹیکس کا اطلاق صرف 46 فیصد درآمدی پرزہ جات پر ہوگا جب کہ امپورٹڈ سولر پینلز کی پلیٹوں پر صرف 4.6 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ درآمدی سولر پینلز کی مجوزہ 10 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل ہی بعض عناصر کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری میں ملوث ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، ان عناصر کو وارننگ دیتا ہوں کہ ان کے خلاف جلد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے مالی سال میں وفاقی حکومت نے کوئی منی بجٹ متعارف نہیں کروایا، ہم نے مالی نظم و ضبط کو کنٹرول کیا، افراط زر پر قابو پایا، کرنٹ اکاؤنٹ میں نمایاں بہتری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام اقدامات کا مقصد پاکستان کو اقتصادی غیر یقینی کی دلدل سے نکال کر پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، حکومت نے اپنے مالی نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں عوامی فلاح کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئندہ برس کے لیے وفاقی حکومت کے اخراجات میں صرف 1.9 فیصد اضافہ ہوا ہے، گزشتہ برسوں کے دوران 10، 12 اور 13 فیصد تک وفاقی اخراجات میں اضافے ہوتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کم اور متوسط آمدن والے افراد قومی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ طبقہ ٹیکس بھی دیتا ہے اور مہنگائی بھی جھیلتا ہے، تنخواہ دار ملازمین پر عائد انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز پہلے سے ہی بجٹ تجاویز کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر 6 سے 12 لاکھ تک سالانہ کمانے والے افراد پر انکم ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دی ہے ، ریاست اس طبقے کو بوجھ تلے دبانا نہیں چاہتی۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنز میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 592 ارب روپے سے بڑھا کر 716 روپے کیا۔
انہوں نے کہا کہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی معاونت کا دائرہ وسیع کرنا اس حکومتی عزم کا عکاس ہے کہ معاشرے میں کمزور افراد، بیواؤں، یتیم اور خصوصی افراد کو بھی معاشی تحفظ حاصل ہو، اس اقدام سے تقریبا ایک کروڑ خاندانوں کو مالی مدد حاصل ہوگی۔
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ایف بی آر افسران کے اختیارات کے حوالے سے تجاویز پر وزیراعظم کی ہدایت پر مزید وضاحت شامل کی ہے تاکہ افسران کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کا خطرہ نہ رہے۔
انہوں نے بتایا کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کی سفارشات حکومت کو موصول ہو چکی ہیں، امید ہے گزشتہ برس کی طرح امسال بھی قائمہ کمیٹی کی 50 فیصد سے زائد سفارشات کو فنانس بل کا حصہ بنایا جائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ساتھ بھی مشاورت جاری ہے جس کی تکمیل کے بعد ہم فنانس بل کی حتمی شکل تک پہنچ جائیں گے۔حکومت کی کوشش ایک جامع، ہمہ گیر اور پائیدار ترقی کا حصول ہے جس میں تمام پاکستانیوں کو ترقی کرنے کا حق حاصل ہو۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مالیاتی بل (بجٹ) 2025 کی ترامیم پر تحفظات دور کرنے کیلئے کمیٹی قائم کر دی۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی ترامیم پر تحفظات دور کرنے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی، جس میں وزیر قانون، وزیر اقتصادی امور اور چیئرمین ایف بی آر بھی شامل ہیں۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کاکہنا ہے کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں کمیٹی ترامیم کا ازسرنو جائزہ لے گی اور جلد سفارشات وزیر اعظم کو پیش کرے گی۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ٹیکس فراڈ پر تفتیش ضابطہ فوجداری 1898 کے تحت ہوگی، مجوزہ ترامیم گرفتاری کے اختیارات کو محدود اور شفاف بناتی ہیں، گرفتاری اب صرف کمشنر ان لینڈ ریونیو کی منظوری کے بعد ممکن ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ بدنیتی پر مبنی گرفتاری کی صورت میں معاملہ چیف کمشنر کو بھیجا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ترامیم ایماندار ٹیکس دہندگان کے تحفظ اور فراڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے ہیں۔
کمیٹی ٹیکس افسران کے اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کی روک تھام کیلئے اقدامات بھی تجویز کرے گی۔
وفاق اور خیبرپختونخوا ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے ہیں، اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وفاق کی جانب سے صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگانے پر صوبائی اسمبلی توڑنے کی دھمکی دے دی۔
ڈان نیوز کے مطابق علی امین گنڈاپور نے دھمکی دی ہے کہ وفاق نے اگر صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگائی تو صوبائی اسمبلی توڑ دیں گے۔
خیبرپختونخوا کابینہ کے اجلاس میں شریک وزرا نے بھی وزیر اعلیٰ کی جانب سے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے بیان کی تائید کی ہے۔
کابینہ نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو تمام فیصلوں کا اختیار دیتے ہوئے کہا کہ وفاق ’معاشی ایمرجنسی‘ کی آڑ میں کوئی سازش نہیں کرسکتا۔
واضح رہے کہ علی امین گنڈاپور نے صوبائی بجٹ پیش کرتے وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ خیبرپختونخوا کا بجٹ اُس وقت تک منظور نہیں کریں گے جب تک بانی پی ٹی آئی عمران خان سے بجٹ تجاویز پر مشاورت نہیں کرنے دی جاتی۔
حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ کئی سنگین معاشی اور مالیاتی خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے، جن میں سست معاشی نمو، مہنگائی اور قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ شامل ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ اور درمیانی مدت کے معاشی منظرنامے کو درپیش متعدد سنگین خطرات کی نشاندہی کی ہے، جن میں ہدف سے کم جی ڈی پی شرح نمو، مہنگائی کے جھٹکے، زرمبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ، آمدنی میں کمی، قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات، سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی ناقص کارکردگی اور غیر متوقع موسمی یا قدرتی آفات شامل ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے پارلیمنٹ میں مالیاتی خطرات سے متعلق پیش کیے گئے ایک تحریری بیان میں ان خطرات کو سات اقسام میں تقسیم کیا ہے، یعنی معاشی، محصولات، قرضے، ریاستی ادارے، ماحولیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور دیگر ممکنہ ذمہ داریاں اور ان کے مالیاتی خسارے پر ممکنہ اثرات کا تخمینہ لگایا ہے۔
آئندہ سال کے دوران اگر ان میں سے کوئی ایک یا زیادہ خطرات سامنے آئے تو ان سے نمٹنے کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔
بیان کے مطابق معاشی خطرات کا تعلق جی ڈی پی کی سست شرح نمو، مہنگائی کے جھٹکوں اور شرح تبادلہ میں اتار چڑھاؤ سے ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر جی ڈی پی کی شرح نمو ایک فیصد پوائنٹ کم ہو جائے تو ٹیکس محصولات میں کمی اور سوشل سیفٹی نیٹ جیسے پروگرامز پر اخراجات میں اضافے کے باعث حکومتی آمدنی متاثر ہو سکتی ہے۔
ہدف سے کم اقتصادی ترقی، مہنگائی کے جھٹکے اور زرمبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ مالیاتی خسارے کو آئندہ مالی سال میں جی ڈی پی کا تقریباً 0.13 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں، یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ ایف بی آر کو آئندہ سال کے لیے 14 کھرب 13 ارب روپے کی وصولی کا ہدف دیا گیا ہے، جب کہ رواں مالی سال میں 12 کھرب 97 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں ایک کھرب 16 ارب 10 کروڑ روپے کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ مہنگائی میں اچانک اضافہ اور کرنسی کی قدر میں کمی عوامی مالیات پر مزید دباؤ ڈال سکتے ہیں، اگرچہ ان اثرات کا درست اندازہ لگانا زیادہ مشکل ہے۔
محصولاتی خطرات کے بارے میں بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس کی کم استعداد، سست اقتصادی ترقی اور اہم ذرائع کی کارکردگی میں کمی سے محصولات کی وصولی متاثر ہوسکتی ہے۔
بیان کے مطابق اگر ٹیکس آمدن صرف نصف متوقع شرح سے بڑھی تو مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
مزید خطرات میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے حکومت کو منافع کی منتقلی میں ممکنہ 30 فیصد کمی شامل ہے، جو مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 0.32 فیصد تک بڑھا سکتی ہے، جب کہ پیٹرولیم لیوی کی وصولی میں 20 فیصد کمی خسارے کو مزید 0.2 فیصد تک بڑھا سکتی ہے۔
حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے اسٹیٹ بینک سے 2 کھرب 40 ارب روپے کے منافع کا ہدف مقرر کیا ہے، جو کہ رواں مالی سال کے 2 کھرب 62 ارب روپے کے ہدف سے قدرے کم ہے۔
پیٹرولیم لیوی کا ہدف آئندہ سال کے لیے ایک کھرب 47 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو رواں مالی سال کے ایک کھرب 28 ارب روپے کے ہدف سے زیادہ ہے، تاہم اب تک صرف ایک کھرب 16 ارب روپے وصول ہو سکے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کا غیر یقینی ذرائع پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے، اس لیے ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور کمپلائنس کو بہتر بنانا ضروری ہے۔
بیان میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ قرضوں کی ادائیگی مالیاتی لحاظ سے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے، اگر اندرونی شرحِ سود میں 2 فیصد اور بیرونی شرحِ سود میں ایک فیصد اضافہ ہو جائے تو سود کی ادائیگیوں میں اضافے سے مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.42 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
بیان کے مطابق ریاستی ادارے (ایس او ایز) مالیاتی خطرات کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ان کے منافع میں کمی یا حکومتی مدد میں اضافے سے مالیاتی بوجھ بڑھ سکتا ہے، اگر ان اداروں کے منافع میں 6.1 فیصد کمی ہو جائے تو مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.02 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح، اگر حکومت ان اداروں کو مزید 1.5 فیصد جی ڈی پی کے برابر مالی معاونت فراہم کرے تو مالیاتی خسارہ مزید 0.4 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
زیادہ خطرناک منظرنامے میں قلیل مدتی اثرات نسبتاً کم ہوں گے، لیکن طویل مدت میں موسمیاتی آفات کے تسلسل اور شدت کی وجہ سے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسیوں کا مالی بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
بیان میں قدرتی آفات کو سب سے بڑا مالیاتی خطرہ قرار دیا گیا ہے، اگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی مخصوص مالیاتی نظام موجود نہ ہو، تو ایک اوسط درجے کی آفت بھی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 1.03 فیصد تک بڑھا سکتی ہے۔
تاہم، اگر حکومت کے پاس انشورنس فنڈز جیسے مؤثر مالیاتی آلات ہوں، تو اس اثر کو کم کرکے 0.44 فیصد تک محدود کیا جاسکتا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کسی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم شامل نہیں ہوگی، ان کے مطابق حکومت کی توجہ اب ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور نظام کو شفاف بنانے پر ہے، کیونکہ ٹیکس چھوٹ اور رعایت کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی کمیٹیوں نے پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی عائد کرنے کی حکومتی تجویز کو عوام پر بلاجواز بوجھ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، جب کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واضح کیا کہ ٹیکس چھوٹ اور ایمنسٹی اسکیموں کا دور ختم ہو چکا ہے۔
تاہم، کمیٹیوں نے اعلیٰ پنشنز اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمدن پر نئے ٹیکسز کی منظوری دے دی۔
کاربن لیوی کا معاملہ اُس وقت مرکزِ نگاہ بن گیا جب سینیٹ اور قومی اسمبلی کی خزانہ و ریونیو سے متعلق قائمہ کمیٹیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں بیک وقت آئندہ مالی سال کے فنانس بل کی شق وار جانچ پڑتال کا آغاز کیا۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور رکن قومی اسمبلی نوید قمر کی زیر صدارت دونوں کمیٹیوں نے کئی ترامیم تجویز کیں اور متعدد اقدامات کو مسترد کر دیا، سینیٹ نے جمعرات کو مجوزہ ٹیکس اقدامات پر اپنی بحث مکمل کر لی۔
بحث اس نکتے پر مرکوز رہی کہ آیا یہ اقدام لیوی ہے یا ٹیکس، اس سے متوقع آمدن کتنی ہوگی، صوبوں کو اس میں کتنا حصہ ملے گا اور آیا یہ واقعی ماحولیاتی اقدام ہے یا وفاقی حکومت کی آمدن بڑھانے کا ذریعہ۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے واضح کیا کہ کاربن لیوی اور کاربن ٹیکس میں فرق ہے۔
اُن کے مطابق دنیا میں عموماً کاربن ٹیکس رائج ہے، کاربن لیوی نہیں۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اس قسم کا اقدام فنانس بل کے ذریعے نہیں بلکہ الگ قانون سازی سے نافذ ہونا چاہیے۔
سینیٹر شبلی فراز نے اس اقدام کو حکومت کا تضاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت ماحولیاتی تبدیلی کی بات کرتی ہے، دوسری طرف لیوی لا رہی ہے، یہ کاربن لیوی نہیں، بلکہ بھتہ خوری لگتی ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے سپریم کورٹ کے ظفر اقبال جھگڑا کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس فیصلے کی روشنی میں کاربن لیوی عائد نہیں کی جاسکتی، ایسا کرنا توہینِ عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
انہوں نے ایران سے ایندھن کی اسمگلنگ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ کاربن ٹیکس مخصوص صنعتوں پر ماحولیاتی مقاصد کے تحت لگایا جاتا ہے، نہ کہ براہِ راست عوام پر اور کلائمیٹ فنانس کے نام پر عام شہریوں پر بوجھ ڈالا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کا مؤقف واضح ہے کہ ایسا اقدام فنانس بل کے ذریعے قابلِ عمل نہیں۔
سینیٹر فیصل واڈا نے بھی کاربن لیوی کی مخالفت کی اور اسے عوام پر بلاجواز بوجھ قرار دیا۔
ایم این اے نوید قمر نے کاربن لیوی سے ممکنہ آمدن کی وضاحت طلب کی۔ وزارتِ خزانہ کے حکام نے بتایا کہ اس اقدام سے آئندہ مالی سال میں 45 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔
نوید قمر نے سوال اٹھایا کہ اگر اس کو ٹیکس کی شکل دی جائے تو وفاقی حکومت کو اس میں سے کتنا حصہ ملے گا؟ جس پر وزیرِ مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے وضاحت کی کہ اگر یہ کاربن ٹیکس میں تبدیل ہوا تو وفاق کو 18 ارب روپے ملیں گے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کاربن ٹیکس کی تجویز آئی کہاں سے؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ یہ معاملہ پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں زیرِ بحث آچکا ہے۔
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے وضاحت کی کہ اگر یہ لیوی برقرار رہی تو تمام رقم وفاق کو جائے گی، لیکن اگر اسے ٹیکس بنایا جائے تو صوبے بھی اس میں شریک ہوں گے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ان فنڈز کے مخصوص استعمال کی تفصیلات طلب کیں، جب کہ شیری رحمٰن نے مطالبہ کیا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسیلٹی (آر ایس ایف) معاہدے کی تمام شرائط ظاہر کرے۔
دریں اثنا سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی نے بجلی صارفین پر اضافی بوجھ کے خدشے کے پیش نظر سرچارج کی حد ختم کرنے کی تجویز مسترد کر دی۔ کمیٹی نے چھوٹی گاڑیوں پر لیوی کی تجویز کو بھی رد کر دیا۔
تاہم، کمیٹی نے سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشنز پر ٹیکس، بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمدن پر ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور اکنامک و اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کے لیے ٹیکس چھوٹ کی توسیع کی منظوری دے دی۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی نے سولر مصنوعات پر 10 فیصد سیلز ٹیکس کے مجوزہ اقدام پر بھی غور کیا۔
نوید قمر کے مطابق حکومت نے سولر پینلز پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی اور منظوری کے بعد ایف بی آر اس پر عمل درآمد کرے گا۔
ایم این اے مبین عارف نے تجویز دی کہ اگر سینیٹ نے 10 فیصد کی سفارش کی ہے تو قومی اسمبلی کی کمیٹی کو مزید کمی کی سفارش کرنی چاہیے، اس پر نوید قمر نے واضح کیا کہ یہ تجویز سینیٹ کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی کمیٹی کی طرف سے آئی تھی۔
دھوکہ دہی سے متعلق شقوں پر مزید غور کے لیے فیصلہ مؤخر کر دیا گیا اور فنانس بل کو آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا۔
کمیٹی نے خام کپاس کے لیے ایکسپورٹ فنانس اسکیم پر نظرِ ثانی اور مقامی کپاس پر ٹیکس کو درآمدی کپاس کے برابر کرنے کی تجویز دی۔
اراکین نے نیو انرجی وہیکل ایڈاپشن لیوی ایکٹ 2025 پر بات کی اور الیکٹرک گاڑیوں کی منتقلی کے لیے مؤثر حکمتِ عملی کی کمی اور چارجنگ اسٹیشنز کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کیا۔
اراکین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مجوزہ اقدامات میں ہائبرڈ گاڑیاں شامل نہیں۔
ان خدشات کے باعث کمیٹی نے معاملے پر غور آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا اور وزارت سے قابلِ عمل منصوبہ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
بعد ازاں، کمیٹی نے اسٹامپ ایکٹ میں مجوزہ ترامیم پر غور کیا۔ تفصیلی بحث کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ترمیم میں نان فائلر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، حالانکہ یہ زمرہ موجودہ قوانین سے حذف ہو چکا ہے۔
اس تضاد کے پیش نظر کمیٹی نے فیصلہ آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دیا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اب کوئی نئی ٹیکس چھوٹ یا ایمنسٹی اسکیم نہیں دی جائے گی۔
اُن کے مطابق حکومت اب ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر توجہ دے رہی ہے اور یہ عمل سرگرمی سے جاری ہے۔
کمیٹی کے مباحثے میں ٹیکس تعمیل (ٹیکس کمپلائنس) پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ ایف بی آر نے تجویز دی کہ غیر رجسٹرڈ افراد کے بینک اکاؤنٹس بند کیے جائیں اور غیر مطیع ٹیئر-1 ریٹیلرز کی یوٹیلیٹیز منقطع کی جائیں۔
تاہم، ایف بی آر نے اعتراف کیا کہ نظام میں خامیاں موجود ہیں، کیونکہ 3 لاکھ صنعتی یونٹس میں سے صرف 35 ہزار سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔
ایم این اے جاوید حنیف نے سخت اقدامات کی حمایت کی، جب کہ شرمیلا فاروقی نے سزاؤں کے بجائے مراعاتی پالیسی کی تجویز دی۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پوچھا کہ اب تک کتنے نان فائلرز کے کنکشن منقطع کیے گئے ہیں؟ انہوں نے خبردار کیا کہ ٹیکس حکام کو بہت زیادہ اختیارات دینا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے ٹیکس چوری کے حربوں کا اعتراف کیا اور اختیارات میں اضافے پر زور دیا، ساتھ ہی یقین دہانی کروائی کہ بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا عمل عارضی ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ آج ہم ایران کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان کو کھل کر ایران کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے، اور ہمیں کھل کر اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ایران اگر اسرائیل کو جواب دے رہا ہے تو اس کے ہاتھ روکے جا رہے ہیں، اسی طرح پاکستان اگر بھارت کو جواب دیتا ہے تو پاکستان کے ہاتھ روکے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اور اسرائیل مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں تو انہیں کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے، دوستوں سے معذرت کے ساتھ کہ اسے پاکستان اور بھارت کی جنگ نہ کہا جائے، یہ پاک-مودی جنگ تھی، جس میں پاکستان متحد تھا لیکن مودی کو اپنے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اکیلے ہندوتوا کارڈ کھیل رہا تھا اور ایک سرکار پاکستان پہ حملہ کر رہی تھی، بھارت کی اپوزیشن، سکھ اور مسلمان اقلیت نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ جو جنگ لڑے گا اور قوم ساتھ نہیں ہوگی تو وہ انجام ہوگا جو بھارت کا ہوا، آپ بنگال میں جنگ لڑ رہے تھے تو قوم اپ کے ساتھ نہیں تھی، تو نتیجہ کیا نکلا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آج کو ہم آپ کے ساتھ تھے تو دیکھ لیں نتائج کیا سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خطے میں ایران کو اعتماد میں لینا ہوگا، ہمیں خطے کے لیے سوچ سمجھ کر پالیسی بنانی ہوگی، آج ہم ایران کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان کو کھل کر ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے، ہمیں کھل کر اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہو جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یاد رکھیں یہود اور ہنود ایک دوسرے کے اتحادی ہیں، اسرائیل کئی مسلم ممالک پر حملہ کر چکا ہے، ایران کے بعد پاکستان کی باری ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فلسطین، لبنان، شام، عراق، ایران اور اب پاکستان اور پاکستان کی ایٹمی قوت تباہ کرنا ان کا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔
امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اظہار خیال کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم خطے کی ممالک کے ساتھ انگیج نہیں ہو رہے، ہمیں اس حوالے سے بھی مؤثر پالیسی بنانی ہوگی، آج دوست ممالک ہم سے دور ہو رہے ہیں اور وہ گرم جوشی نہیں رہی جو ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ممبران اپنے حل کو کے مسائل کی بات کرتے ہیں، وزیراعظم نے جن منصوبوں کا خود افتتاح کیا تھا آج ان کے فنڈز روک دیے ہیں، اب بتائیں کہ ہم کس سے امید رکھیں؟
انہوں نے کہا کہ اللہ کی حاکمیت کے نیچے اس کی نیابت ہم کر رہے ہیں، کیا اسے کہتے ہیں اللہ کی نیابت کہ ہم قانون پاس کریں، قران و سنت کی بجائے اقوام متحدہ تابع۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم قانون سازی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے تابع کر رہے ہیں، میرا ملک چلانے والوں کی حالت یہ ہے کہ ان پر فاتحہ پڑھ لی جائے، کیا یہ لوگ میرے ملک کو چلائیں گے؟
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں انقلاب چاہیے، روایتی سیاست کا دور اب ختم ہو چکا، عوام کو بیدار کرو اور شعور اجاگر کرو تاکہ وہ اپنے مسائل کے لیے آواز بلند کر سکیں ۔
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ اللہ کرے کہ ہم اپنی روش پر نظر ثانی کریں، اپنے ملک میں جمہوری روش کو بحال کریں، سیاست دانوں کے ساتھ انتقامی رویہ نہ رکھیں اور ملک میں انصاف پر مبنی نظام ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت قوت کے استعمال سے بہتر نہیں ہوگی، معیشت قوم کو انصاف مہیا کرنے سے بہتر ہو سکتی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی عائد کرنے،بجلی صارفین پر 10 فیصد ڈیٹ سروس سرچارج کی حد ختم اور چھوٹی گاڑیوں پر لیوی لگانے کی تجاویز کو مسترد کردیا۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں بجٹ تجاویز پر تفصیلی غور کیا گیا اور ’ پبلک فنانس منیجمنٹ ترمیمی ایکٹ’ پر بحث ہوئی۔
وزارت خزانہ کے مطابق مجوزہ ترمیم کے تحت خودمختار اداروں کو اپنی آمدنی قومی خزانے میں جمع کرانے کی شرط ختم کر دی جائے گی اور انہیں اپنی آمدنی خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
سینیٹر انوشہ رحمٰن نے اس ترمیم کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ ایسے ادارے اپنی آمدنی اور منافع قومی خزانے میں جمع کرانے کے پابند ہونے چاہئیں، انہوں نے اداروں کی بیلنس شیٹس بھی طلب کیں۔
سینیٹر فیصل واڈا نے اسٹیٹ لائف انشورنس کی اربوں روپے کی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا ذکر کیا جبکہ وزیر خزانہ نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ادارہ اپنا منافع اپنے پاس نہیں رکھ سکتا،خاص طور پر ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
کمیٹی نے بجلی صارفین پر 10 فیصد ڈیٹ سروس سرچارج کی حد ختم کرنے کی تجویز مسترد کر دی، حکام نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت اس حد کو ختم کیا جانا چاہیے تاکہ مالی ضروریات کے وقت سرچارج بڑھایا جا سکے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور سینیٹر فیصل واڈا نے اس تجویز کی مخالفت کی اور صارفین پر بوجھ میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کیا، اجلاس میں سالانہ ایک کروڑ روپے سے زیادہ پینشن پر ٹیکس لگانے، بین الاقوامی کھلاڑیوں کو انکم ٹیکس چھوٹ دینے اور اقتصادی و خصوصی ٹیکنالوجی زونز کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجاویز منظور کر لی گئیں۔
دوران اجلاس چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ حکومت عمومی ٹیکس چھوٹ ختم کر رہی ہے۔
اجلاس میں پیٹرولیم مصنوعات پر آئندہ مالی سال مجوزہ ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی کی تجویز کو بھی کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔
سینیٹر شیری رحمٰن، شبلی فراز اور فیصل واڈا نے لیوی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے، کمیٹی نےچھوٹی گاڑیوں پر ایک، دو اور تین فیصد لیوی کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
اجلاس میں غیر ملکی آن لائن پلیٹ فارمز پر 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے کی منظوری دے دی۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین نوید قمر کے زیرصدارت ہوا جس میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر یکم جولائی سے ڈھائی روپے فی لیٹر لیوی عائد ہوگی جس سے 45 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے مزید کہا کہ آئندہ سال سے یہ لیوی پانچ روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا تھا کہ فوسل فیول کے زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی اور موسمیاتی تبدیلی اور گرین انرجی پروگرام کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کے لیے یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ مالی سال 26-2025 کے لیے پیٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر 2 روپے 50 پیسے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جائے۔
وزیرخزانہ نے کہا تھا کہ کاربن لیوی مالی سال 27-2026 میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دی جائے گی، اس کے علاوہ فرنس آئل پر پیٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولی کے طریقہ کار پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے، تاجر رہنماؤں نے کہا ہے کہ ٹیکس افسران کو بے جا اختیارات دیے گئے جو ناقابل قبول ہیں، ناقص پالیسوں کے باعث کئی بزنس مین ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق ایف پی سی سی آئی کے سینیئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے ایک بیان میں کہا کہ ایف بی آر افسران کو ایس ایچ او جیسے اختیارات دینے، کاروبار پر بلا نوٹس چھاپے مارنے کے اختیارات دینے کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہیں۔
ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ ای ایف ایس اسکیم کے دائرہ کار میں مقامی مینوفیکچررز کو شامل کرنے کے بجائے مزید ٹیکس لگا دیے گئے۔
نائب صدر ایف پی سی سی آئی آصف سخی نے کہا کہ حکومت ہماری نہیں سن رہی، فیلڈ مارشل عاصم منیر کاروبار دوست پالیسیاں بنوائیں، تاجروں کو چور بولنا بند کیا جائے، ہم معیشت کو چلا رہے ہیں۔
ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر امان پراچہ نے اس موقع پر کہا کہ پچھلے سال کا ٹیکس ہدف کیوں پورا نہیں ہوا، اس حوالے سے کمیٹی بنائی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔
تاجر رہنما ناصرخان نے کہا کہ موجودہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے صنعت کار بیرون ملک جا رہے ہیں، ہم بھی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
واضح رہے فنانس بل 26-2025 میں ایف بی آر افسران کو مزید اختیارات دینے کی تجویز سامنے آئی تھی تاہم اسے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والے تنخواہ دار طبقے پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 5 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کر دیا گیا ہے، اس سے قبل انکم ٹیکس ریٹ سلیب کی شرح میں کچھ ابہام موجود تھا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق فنانس بل 26-2025 میں اشارہ دیا گیا تھا کہ ملازمت پیشہ افراد پر انکم ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم ہو کر 1 فیصد ہو گی، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ خطاب میں کہا تھا کہ ٹیکس کی نئی شرح 2.5 فیصد ہوگی۔
بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حالیہ اضافے سے پیدا ہونے والے ’مالی بوجھ‘ کو کم کرنے کے لیے بجٹ پیش کرنے سے قبل انکم ٹیکس کی شرح میں 2.5 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی تھی۔
ادھر چیئرمین ایف بی آر نے بھی پارلیمانی کمیٹی کےایک اجلاس میں کہا تھا کہ ماہانہ ایک لاکھ کی آمدن پر ملازمت پیشہ شخص کو ایک ہزار روپے ٹیکس ادا کرنے پڑے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے مختص بجٹ میں اضافے کا بھر پور دفاع کیا، انہوں نے علاقائی تنازعات میں روز بروز اضافے کے پیش نظر مسلح افواج کے لیے جدید جنگی ساز و سامان کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ایران-اسرائیل جنگ کی وجہ سے علاقائی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے خبردار کیا کہ یہ بحران خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایران اور اس کے عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اعادہ کیا اور بین الاقوامی برادری کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کو فوری روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی بھی درخواست کی۔
کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے بتایا کہ نئے بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کو ایک ہزار ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے، شہباز شریف نے اہداف کو حاصل کرنے کا بھی عہد کیا۔
وفاقی حکومت نے حال ہی میں مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کیا ہے اور اب یہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے سے قبل سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں شق بہ شق زیر غور ہے، حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے 12 کھرب 90 ارب روپے کا دفاعی بجٹ تجویز کیا ہے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 11.8 فیصد زیادہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب کے دوران کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف مسلح افواج کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ بھارت کے خلاف تنازع میں پاک افواج نے 24 کروڑ عوام کی حمایت سے شاندار کامیابی حاصل کی، یہ کارنامہ مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انہوں نے ایران کے ساتھ پاکستان کی غیرمتزلزل یکجہتی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری فوری طور پر سیز فائر کروانے اور اسرائیل کو مزید جارحیت دکھانے سے روکے۔
شہباز شریف نے کابینہ ارکان کو بتایا کہ ان کی ایرانی صدر مسعود پزشکیان اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے بھی اس حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے غزہ کے موجودہ صورتحال کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیتے ہوئےکہا کہ 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا ہے، غزہ میں ظلم و بربریت جاری ہے، دنیا کا ضمیر کب جاگے گا؟
انہوں نے کابینہ کو بتایا کہ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار 21 اور 22 جون کو ترکیہ میں شیڈول اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزارئے خارجہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف کو زرعی شعبے بشمول کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس نہ لگانے پر قائل کر لیا ہے، کسان پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں، حکومتی مؤقف کو تسلیم کرنے پر آئی ایم ایف کے شکر گزار ہیں۔
شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کا نام لیے بغیر کہا کہ موجودہ حکومت ان لوگوں کی طرح نہیں، جنہوں نے اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا اور ملک کو دیوالیہ کے قریب لے آئے تھے، ہماری حکومت معاشی صورتحال پر قابو پاتے ہوئے پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔
وزیراعظم نے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت وفد کی جانب سے بھارت جارحیت کے خلاف یورپ اور امریکا میں پاکستان کا مقدمہ شاندار انداز میں پیش کرنے پر تعریف کی۔
دوران اجلاس وفاقی کابینہ نے بجلی کے شعبے کو مستحکم بنانے کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے مالیاتی منصوبے کو منظوری دے دی، جس کے تحت اگلے 6 سال میں 12 کھرب 75 روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کیا جائے گا، جس کا قومی بجٹ پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔
منصوبے کے تحت پاور ہولڈنگ کمپنی کے 683 ارب روپے کے قرضے کو ری فنانس کیا جائے گا جب کہ آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو بقایاجات کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ اسکیم کا مقصد پائیدار اصلاحات کا نفاظ، مالی دباؤ کم کرنا اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا ہے۔
وزیراعظم نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی مفادات کے تحفظ کے لیے فیلڈ مارشل کا عزم قومی فخر کا باعث ہے۔
کابینہ نے ’عوام دوست بجٹ‘ پیش کرنے پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کی معاشی ٹیم کی تعریف کی، دوران اجلاس وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کو حجاج کرام کے لیے بہترین انتظامات کرنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔
کابینہ نے 21 مئی کو منعقدہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی بھی توثیق کی۔
حکومت نے اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے چار بڑے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں، جن میں سولر پینلز پر جی ایس ٹی میں کمی اور سندھ کی جامعات کے لیے فنڈز کی مکمل بحالی شامل ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے بالآخر اپنی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چار بڑے مطالبات مان لیے ہیں، جس سے قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ کی باآسانی منظوری کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
بدھ کے روز پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں بجٹ پر بحث کے دوران ڈپٹی وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے انکشاف کیا کہ پی پی پی کے رہنماؤں جن میں بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعظم شہباز شریف شامل ہیں، سے تفصیلی مشاورت کے بعد حکومت نے پی پی پی کے اہم مطالبات تسلیم کر لیے ہیں، جن میں سولر پینلز پر مجوزہ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں کمی بھی شامل ہے۔
یہ یقین دہانی بجٹ پر جاری بحث کے دوران خاص طور پر پی پی پی کے ارکان کی جانب سے مختلف بجٹ تجاویز پر تنقید کے بعد سامنے آئی۔
پارلیمنٹ میں متعدد ارکان کی جانب سے ڈیسک بجا کر حوصلہ افزائی کے دوران اسحٰق ڈار نے اعلان کیا کہ ڈیجیٹل سروسز پر سیلز ٹیکس کا اختیار بدستور صوبوں کے پاس رہے گا، جب کہ سولر پینلز پر 18 فیصد مجوزہ جی ایس ٹی کو کم کر کے 10 فیصد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اتحادی جماعتوں اور متعلقہ فریقین، بشمول وزارتِ خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد منگل کی رات بجٹ سے متعلق کئی متنازع امور پر اتفاقِ رائے ہو گیا۔
اسحٰق ڈار نے پی پی پی کی جانب سے ڈیجیٹل ٹیکسیشن پر اٹھائے گئے تحفظات کو درست قرار دیا اور کہا کہ یہ معاملہ وزیر خزانہ اپنی اختتامی تقریر میں واضح طور پر بیان کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ سولرائزیشن میں استعمال ہونے والے 54 فیصد پرزہ جات پر پہلے ہی ٹیکس نافذ ہے، تاہم باقی 46 فیصد پر 18 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ کی تجویز پر اسٹیک ہولڈرز میں شدید تشویش پائی جاتی تھی۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اب ہم نے یہ تجویز دی ہے کہ سولر پر جی ایس ٹی کو 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا جائے گا۔
ڈپٹی وزیراعظم نے کہا کہ جب کسی شعبے میں ریلیف دیا جاتا ہے تو حکومت کو اس خسارے کی تلافی کے لیے دیگر ذرائع سے محصولات اکٹھا کرنے پر غور کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ابتدائی طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 6 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن وفاقی کابینہ میں مشاورت کے بعد اسے بڑھا کر 10 فیصد کر دیا گیا اور اب اس اضافی خرچ کی تلافی کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے۔
پی پی پی کے ایک اور مطالبے کا ذکر کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ سندھ کی جامعات کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ذریعے پی ایس ڈی پی میں 4 ارب 70 کروڑ روپے کی فنڈنگ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ بجٹ میں یہ رقم کم کر کے 2 ارب 60 کروڑ روپے کر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پی پی پی کے ان تحفظات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ غیر فعال پی ڈبلیو ڈی کے منصوبوں کو تین صوبوں کے حوالے کرنے اور سندھ کے منصوبوں کو نو قائم شدہ پاکستان انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) کے سپرد کرنے کے معاملے پر نظرِثانی کی جائے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تمام صوبوں کے لیے یکساں پالیسی ہونی چاہیے، اب پی آئی ڈی سی ایل تمام صوبوں میں وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرے گی۔
تاہم اسحٰق ڈار نے سندھ میں جاری منصوبوں، بشمول سکھر-حیدرآباد موٹر وے کے لیے کم فنڈز مختص کرنے کے معاملے کا ذکر نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی کے کئی ارکان نے اپنی بجٹ تقاریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ موجودہ صورت میں بجٹ کی حمایت ان کے لیے ممکن نہیں ہوگی۔
پی پی پی ارکان نہ صرف سولر پینلز پر 18 فیصد جی ایس ٹی کی مخالفت کر رہے تھے بلکہ وہ سندھ کے ساتھ ’سوتیلا سلوک‘ کیے جانے پر بھی سراپا احتجاج تھے، کیونکہ وہاں کے جاری منصوبوں کے لیے نہایت کم فنڈز مختص کیے گئے تھے۔
ان کا احتجاج وفاقی حکومت کی جانب سے ختم شدہ پی ڈبلیو ڈی کے منصوبے سندھ حکومت کو منتقل نہ کرنے اور ڈیجیٹل سروسز پر ٹیکس براہِ راست مرکز کے ذریعے وصول کرنے پر بھی تھا۔
پی پی پی کے سینئر پارلیمنٹیرین سید نوید قمر نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمارے بیشتر مسائل کو حل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم اور ڈپٹی وزیراعظم کے شکر گزار ہیں، ہمارے مسائل کسی حد تک کم ہوگئے ہیں۔
انہوں نے سولر آلات پر جی ایس ٹی کو 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے کا خیرمقدم کیا، تاہم کہا کہ پارٹی چاہتی ہے کہ اسے مزید کم کر کے 5 فیصد کر دیا جائے۔
نوید قمر نے اعلان کیا کہ معاملات اب طے پا چکے ہیں۔
اس سے قبل بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے اعجاز جاکھرانی نے اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ ان کی جماعت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلافات ختم ہو چکے ہیں اور اب وہ بجٹ کی حمایت میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب حکومت نے ہماری بات سن لی ہے، تو ہم بجٹ کے حق میں ووٹ کیوں نہ دیں؟
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر و پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ نئی مالی سال کے بجٹ میں عوام کو گمراہ کیا گیا، بجٹ 26-2025 میں عوام کے گلے پر چھری پھیری گئی ہے،گزشتہ 3 سالوں کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اسلام آباد میں دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب خان نے وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ میری بجٹ تقریر کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا، قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی، ہماری جماعت کی ایران کے حق اور اسرائیل کی مخالفت میں قرارداد کو بھی براہ راست نشر نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ’ورچوئل مارشل لا‘ لگا ہوا ہے، یہاں نہ آزادی اظہار کی اجازت ہے اور نہ ہی جمہوریت، جس طرح ہمارے حقوق کو سلب کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔
رہنما پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ وفاقی حکومت کا 6 ہزار 500 ارب روپے خسارے کے ساتھ نئی مال سال کا بجٹ اطلاق سے قبل ہی اپنی موت آپ مر جائے گا، وزارت خزانہ میں بجٹ لانے سے قبل خسارے کا سائز، آمدن کا تخمینہ، ایکسچینج ریٹ کیا ہوگا اس کا اندازہ لگایا جاتا ہےکیونکہ اس میں قرضوں کی سود کے ساتھ واپسی اور اپنے اخراجات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ٹریڈ بیلنس پر بھی دھیان رکھنا ہوتا ہے، تاہم یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ایران-اسرائیل کشیدگی کے پہلے دن ہی تیل کی قیمت 64 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 74 سے 75 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے، مستقبل میں تیل کی عالمی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
رہنما پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کی درآمدات کا 25 فیصد خرچ پیٹرولیم مصنوعات پر ہوتا ہے، یہ خرچہ اگر خطے کی موجودہ صورتحال میں بڑھے گا تو پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی اوپر جائے گا جس سے روپے پر مزید دباؤ آنے کا امکان ہے، پاکستان کو 7 ہزار 500 ارب سے 8 ہزار ارب روپے کے قرض بمعہ سود واپس کرنے ہیں جس سے وفاق کا بجٹ ختم ہو جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ ایران-اسرائیل جنگ کے دوران امریکا کی 2 سے 3 نیوکلیئر سب میرینز پھر رہی ہیں، ایران نے بھی جوابی کارروائیوں کی دھمکی دے رکھی ہے۔
عمر ایوب خان نے کہا کہ دنیا بھر میں یومیہ خام تیل کی پیداوار 8 کروڑ 20 لاکھ بیرل ہے، جس میں سے ایران کا حصہ 35 سے 40 لاکھ بیرل ہے جب کہ تیل کی یومیہ کھپت 10 کروڑ 40 لاکھ بیرل ہے۔
انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں خام تیل کا 1.2 ارب بیرل کا ذخیرہ موجود ہے جو کہ صرف 10 سے 12 دن کے لیے کافی ہے، ان حالات میں پاکستان کا کیا شیئر ہوگا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ حکومت متبادل جگہوں سے تیل کی خریداری کرے گی، کیا وہ تیل افغانستان اور تاشقند سے جہاز کے ذریعے لائیں گے؟ ان کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وفاقی حکومت روز مرہ کے اخراجات کو نئے مالی سال کے لیے تقریباً 5 ہزار 300 ارب سے کم کر کے 2 ہزار 400 ارب روپے تک لے آئی ہے، جب میں نے متعلقہ افراد سے پوچھا تو انہوں نے کہا یہ غلطی ہوگئی ہے، یہ کون سے غلطی ہے جس میں اربوں روپے کو کم کر دیا گیا۔
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر بحث کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکانِ اسمبلی نے وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وفاقی ترقیاتی منصوبوں میں سندھ کو اس کا جائز حصہ نہیں دیا جارہا، جو کہ صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی، جو کہ حکومتی اتحاد کے ایک بڑے اتحادی ہیں، انہوں نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر اپنی تنقید جاری رکھی اور وفاقی حکومت کو صوبہ سندھ کے ساتھ مبینہ امتیازی سلوک پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران تقریباً تمام پی پی پی ارکان نے یکساں نوعیت کی تقاریر کیں، جن میں انہوں نے وفاق کی جانب سے سندھ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کو اجاگر کیا۔
ان کے مطابق سندھ کو ترقیاتی منصوبوں میں اس کا جائز حصہ نہیں دیا جارہا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان جو کہ حکومتی اتحاد کے ایک اور اہم اتحادی ہیں، انہوں نے بھی سندھ کے مختلف منصوبوں کے لیے مختص بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا، ساتھ ہی انہوں نے پی پی پی کی زیر قیادت سندھ حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کراچی کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا۔
پی پی پی کے ارکان نے بنیادی طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے ان منصوبوں کو سندھ حکومت کے حوالے نہ کرنے پر احتجاج کیا جو سابقہ پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے ذریعے چلائے جارہے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پہلے ہی یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کے تمام منصوبے صوبوں کے حوالے کیے جائیں گے، لیکن باقی تین صوبوں کے برعکس یہ فیصلہ سندھ پر لاگو نہیں کیا جارہا۔
دوسری جانب ایم کیو ایم-پی کے ارکان نے ان منصوبوں کو سندھ حکومت کے حوالے نہ کرنے کے وفاقی اقدام کی حمایت کی۔
ان کا مؤقف تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ صوبائی حکومت ان منصوبوں کو مکمل نہیں کر پائے گی۔
بحث کے دوران پی پی پی اور ایم کیو ایم کے ارکان کے درمیان زبانی جھڑپیں بھی ہوئیں اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو کراچی کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔
شازیہ مری کی تقریر پر ایم کیو ایم-پی کے ارکان نے احتجاج کیا، جب انہوں نے بالواسطہ ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کو بھی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ کراچی کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔
ایم کیو ایم-پی کی آسیہ اسحٰق کو پی پی پی کی نشستوں کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا گیا تاکہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکیں، جس پر کئی پی پی پی رہنما اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے تاکہ کسی ممکنہ تصادم کو روکا جاسکے، کیونکہ آصفہ بھٹو زرداری بھی شازیہ مری کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔
ایم کیو ایم کی نگہت شکیل نے الزام لگایا کہ وفاق اور سندھ دونوں حکومتیں کراچی کو نظرانداز کررہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت سندھ میں کچھ منصوبے مکمل کررہی ہے، تو پی پی پی کو بلاوجہ شور مچانے کی ضرورت نہیں۔
ادھر پی ٹی آئی کے رائے حسن نواز نے پی پی پی اور ایم کیو ایم کی اس چپقلش کو ایک ڈرامہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ دونوں جماعتیں بجٹ پر تنقید کر رہی ہیں، لیکن آخر میں دونوں بجٹ کے حق میں ووٹ دیں گی۔
پی پی پی کے صادق میمن نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اُن کی جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ ہے اور اہم آئینی عہدے بھی رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے سندھ کے عوام کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے۔
پی پی پی کے عبدالقادر گیلانی نے پنجاب حکومت کی جنوبی پنجاب کے ساتھ امتیازی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ اس خطے میں احساسِ محرومی بڑھتا جارہا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب کے لیے صرف تین ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کیا گیا ہے، جب کہ لاہور اور وسطی پنجاب کے لیے تقریباً 40 منصوبے رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ہم ’تختِ لاہور‘ سے کب نجات پائیں گے، لیکن ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جو کہ الگ جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبے کی جانب اشارہ تھا۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس آج (بدھ) صبح 11 بجے دوبارہ ہوگا۔
وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا محض 54 فیصد ہی خرچ ہوسکا۔
وزارت منصوبہ بندی نے وفاقی ترقیاتی بجٹ کے اخراجات کی تفصیلات جاری کردی، جس کے مطابق جولائی 2024 تا مئی 2025 کے دوران وفاقی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 596 ارب 61 کروڑ روپےخرچ ہوئے۔
وزارت منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ایک ہزار 35 ارب87 کروڑ روپے جاری کرنے کی منظوری دی گئی۔
وزارت منصوبہ بندی کے مطابق رواں مالی سال کا نظرثانی شدہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا حجم ایک ہزار 96 ارب روپے ہے۔
تفصیلات میں مزید بتایا گیا کہ جولائی تا مئی وفاقی وزارتوں، ڈویژنز نے ترقیاتی منصوبوں پر437 ارب خرچ کیے، اسی دوران کارپوریشنز نے 159ارب 56 کروڑ روپےخرچ کیے گئے۔