• KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C
  • KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سیکریٹری منصوبہ بندی ڈویژن کو اضافی اخراجات کی تحقیقات کا حکم

شائع July 16, 2025
— فوٹو: پی ٹی آئی / ایکس
— فوٹو: پی ٹی آئی / ایکس

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے سیکریٹری منصوبہ بندی ڈویژن کو اضافی اخراجات کی تحقیقات کا حکم دیا اور ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پی اے سی کے چیئرمین جنید اکبر نے زور دیا ہے کہ منصوبہ بندی ڈویژن کو دیگر وزارتوں کے لیے مثال بننا چاہیے، کمیٹی کے رکن ثنااللہ مستی خیل نے اس پر تشویش ظاہر کی کہ وہ اراکینِ اسمبلی جنہوں نے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا، ان کے ترقیاتی فنڈز روک لیے گئے۔

ایک کیس میں منصوبہ بندی ڈویژن کے ترقیاتی بجٹ سے 22 کروڑ روپے کی رقم لیپس ہونے پر بھی سوال اٹھایا گیا، یہ رقم ایک ایسے پروگرام کے لیے مختص کی گئی تھی جو وزیرِ اعظم کی عدم شرکت کی وجہ سے منسوخ ہو گیا تھا۔

کمیٹی کے اراکین نے استفسار کیا کہ صرف ایک تقریب کے لیے اتنی بڑی رقم کیوں مختص کی گئی، سیکریٹری منصوبہ بندی ڈویژن اویس منظور سمرا نے وضاحت کی کہ یہ فنڈز سماجی شعبے کے ایک منصوبے کے لیے تھے جس کا افتتاح وزیرِ اعظم کو کرنا تھا۔

اراکینِ اسمبلی ریاض فتیانہ اور ثنااللہ مستی خیل نے منصوبہ بندی ڈویژن کی ناقص حکمتِ عملی پر اعتراض کیا، ریاض فتیانہ نے کہا کہ جب ملک کی تقریباً 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہو تو منصوبہ بندی و ترقیات ڈویژن کا کردار واضح ہونا چاہیے۔

پی اے سی نے مردم شماری کے دوران ضلعی انتظامیہ کو دیے گئے فنڈز میں بے ضابطگیوں کا بھی جائزہ لیا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ 157 اضلاع کے لیے مختص 8.69 ارب روپے میں سے بچ جانے والے فنڈز کا کوئی حساب موجود نہیں۔

سیکریٹری منصوبہ بندی نے بتایا کہ 11 اضلاع کے حسابات تاحال زیرِ التوا ہیں، پی اے سی نے ہدایت کی کہ باقی تمام اضلاع کے مالیاتی ریکارڈ فوری فراہم کیے جائیں۔

ایک علیحدہ آڈٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ مردم شماری کے لیے خریدے گئے ایک لاکھ 26 ہزار ٹیبلٹس میں سے 219 ٹیبلٹس لاپتا ہیں، سیکریٹری منصوبہ بندی ڈویژن کے مطابق اب صرف 24 ٹیبلٹس باقی ہیں جو تاحال نہیں مل سکے، جس پر پی اے سی نے اس معاملے پر آڈٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک علیحدہ اجلاس میں کمیٹی نے نیشنل لاجسٹکس کارپوریشن (این ایل سی) سے متعلق آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا، جس میں اسٹیل کی خریداری میں 3.2 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں۔

آڈٹ حکام کے مطابق اسٹیل کی پہلی خریداری ایک لاکھ 8 ہزار روپے فی ٹن کے حساب سے طے پائی تھی، مگر بعد میں 2 لاکھ 98 ہزار روپے فی ٹن کی قیمت پر خریداری کی گئی۔ این ایل سی حکام نے جواب دیا کہ نئی قیمتیں بورڈ کی منظوری سے اور مارکیٹ رجحان کے مطابق تھیں۔

آڈٹ حکام نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ فیضان اسٹیل کے ساتھ ایک سالہ معاہدے کو 3 سال تک توسیع دینا قواعد کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ قانون کے مطابق صرف 2 مرتبہ 6 ماہ کی توسیع کی اجازت ہے۔

کمیٹی نے بھارہ کہو بائی پاس منصوبے پر بھی غور کیا جہاں معاہدے کی خامیوں کی وجہ سے این ایل سی کو 2.47 ارب روپے کا نقصان ہوا، یہ منصوبہ ہنگامی بنیاد پر بغیر ٹینڈر دیے گیا تھا، ابتدا میں اس کی لاگت 6.51 ارب روپے لگائی گئی تھی جو بعد میں بڑھ کر 8.82 ارب روپے ہو گئی۔

وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) نے اب تک اضافی لاگت کی منظوری نہیں دی، این ایل سی نے عدالتی حکم امتناعی اور ڈیزائن میں تبدیلی جیسے عوامل کو اضافی لاگت کی وجہ قرار دیا جن میں ایک پُل کی لمبائی میں اضافہ شامل ہے۔

کمیٹی اراکین نے مشاہدہ کیا کہ این ایل سی نے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) کے قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کی ہیں۔

رکن کمیٹی محمود نے کہا کہ ’اگر یہی خلاف ورزیاں کسی اور ڈویژن یا نجی ادارے نے کی ہوتیں تو معاملہ نیب یا ایف آئی اے کو بھجوا دیا جاتا‘۔

کمیٹی نے اس امر پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا کہ این ایل سی کو منصوبے بغیر ٹینڈر اور غیر معمولی زائد لاگت (بعض اوقات 120 فیصد اضافی) پر دیے جا رہے ہیں، یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ این ایل سی نے خود کام کرنے کے بجائے ان منصوبوں کو کم نرخوں پر تیسرے فریق کو ٹھیکے پر دے کر محض ایک مڈل مین کا کردار ادا کیا۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025