عمران خان نے پی ٹی آئی ارکان کو پارٹی کے اندرونی معاملات پر عوام میں گفتگو کرنے سے روک دیا
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو پارٹی کے اندرونی معاملات پر عوامی سطح پر گفتگو کرنے سے منع کردیا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے اہلِ خانہ اور وکلا سے اڈیالہ جیل میں گفتگو کے دوران پارٹی کے اندرونی معاملات پر عوامی سطح پر گفتگو کرنے سے ارکان کو سختی سے منع کر دیا ہے، ان کی یہ ہدایت بدھ کو ان کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری کی گئی۔
اتوار کے روز خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ ملک گیر احتجاجی تحریک کے منصوبے میں اس وقت الجھن پیدا کردی تھی، جب پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے ’آر یا پار‘ کے لیے اچانک 90 دن کی نئی مدت دے دی تھی۔
خیال تھا کہ اس پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کی قیادت کو اس احتجاجی تحریک کے منصوبے کا اعلان کرے گی، بعد ازاں پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ ملک نے اس اعلان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
عمران خان کے ایکس پر پیغام میں کہا گیا کہ ’ میڈیا کے سامنے اندرونی معاملات یا ذاتی تحفظات کو عوامی سطح پر لانا بالکل ناقابلِ قبول ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ’ میری ہدایت بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی سینئر یا جونیئر عہدیدار اندرونی اختلافات کو سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا یا کسی بھی پلیٹ فارم پر ظاہر نہ کرے۔’
عمران خان کا کہنا تھا کہ’ اس وقت ہم میں سے بہت سے لوگ، بشمول میں خود، بدترین قید کاٹ رہے ہیں، اس لیے میں پارٹی کے ہر رکن کو ہدایت دیتا ہوں کہ ذاتی رنجشیں بالکل چھوڑ دیں۔’
انہوں نے کہا کہ پوری پارٹی کو احتجاجی تحریک پر ہی توجہ دینی چاہیے تاکہ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق بحال ہو سکیں۔
سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ کہ’ اگر کوئی پارٹی عہدیدار اس تحریک میں شامل نہ ہوا تو میں جیل کے اندر سے بھی اس کے بارے میں خود فیصلہ کروں گا۔’
علی امین گنڈا پور کی پریس کانفرنس میں عالیہ حمزہ ملک غیر حاضر تھیں، پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے وضاحت دی تھی کہ وہ ’مصروف‘ تھیں، مگر عالیہ حمزہ نے ایک ٹوٹٹ میں اس وضاحت کو چیلنج کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ’ عمران خان کی رہائی کے لیے کون سی حکمت عملی بتائی گئی؟ احتجاجی مہم کہاں اور کیسے شروع ہوگی؟ 5 اگست کا پلان کس نے بدل کر 90 دن کر دیا؟’
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ ’ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں پچھلے دو دن کہاں مصروف رہی۔’
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے نے پی ٹی آئی کو شدید دھچکا پہنچایا ہے، جو پہلے ہی اندرونی اختلافات سمیت کئی بحرانوں کا شکار ہے۔
پس منظر میں کی جانے والی بریفنگز نے ظاہر کیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے درمیان باہمی اعتماد کی شدید کمی ہے اور عمران خان کے پیغامات کے بارے میں بھی شکوک پائے جاتے ہیں۔
جون میں بھی جب خیبرپختونخوا حکومت نے عمران خان کی منظوری کے بغیر مالی سال کا بجٹ پاس کیا تھا تو ان کی بہن علیمہ خان نے کہا تھا کہ ’مائنس عمران‘ فارمولا نافذ کیا جا چکا ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں علیمہ خان نے کہا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ گنڈا پور میں مؤقف پر ڈٹے رہنے کی ہمت نہیں تو انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔
بعد میں علیمہ خان نے وضاحت دی تھی کہ ان کا مطلب پارٹی نہیں بلکہ یہ تھا کہ حکومت عمران خان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ’ کیا حکومت عمران خان کو مائنس نہیں کر رہی؟ کیا یہ مائنس کرنا نہیں کہ انہوں نے انہیں قید کر رکھا ہے؟’
کئی سینئر رہنماؤں کا خیال ہے کہ پارٹی کو اس وقت ’رابطے کے فقدان‘ اور قید میں موجود قائد سے باقاعدہ مشاورت نہ ہونے کی وجہ سے بحران کا سامنا ہے۔
ایک اور سینئر رہنما نے کہا تھا کہ علیمہ خان کا بیان جذباتی تھا جس سے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کو پی ٹی آئی پر تنقید کا موقع مل گیا تھا۔












لائیو ٹی وی