تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز

جب ہم ان پر اس کا کوئی اثر نہیں  ڈال سکتے  تو پھر پابندیاں کیوں لگاتے ہیں؟

تمام مقامی و عالمی قوانین اور معاہدوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے حکام نے معدومی کے خطرے سے دوچار تلور کے شکار کے لیے کم از کم تیس اجازت نامے معزز عرب شخصیات کو جاری کیے ہیں، تاکہ وہ موسمِ سرما میں پاکستان کا رخ کرنے والے اس پرندے کی تعداد کو مزید کم کرسکیں۔

گزشتہ سال بھی شکار کے موسم میں پچیس یا اس سے کچھ زیادہ پرمٹ جاری کیے گئے تھے۔

ایک سو پرندوں کی حد تک شکار کی اجازت دینے، اس کی خلاف ورزی نہ کرنے کے لیے نگرانی اور ضابطہ اخلاق جیسی حکام کی نرم کوششیں سوال کا جواب نہیں ہوسکتیں۔

 خاص کر جب شکار کھلانے کے دوران بارسوخ شخصیات یا لالچی مقامی اہلکار ان کے ہمراہ ہوں۔ ایسے میں جب حکمراں شکار کررہے ہوں تو یہ اپنی نظریں خود بخود دوسری طرف کرلیتے ہیں۔

ایسے میں کہ جب اس پرندے کے شکار کے لیے دھڑا دھڑ اجازت نامے جاری ہورہے ہیں، تحقیقاتی مطالعوں میں دعوٰٰی کیا گیا ہے کہ عرب سرزمین پر معدومی تک پہنچ جانے والے تلور کے شکار کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو پھر اگلے پندرہ سے بیس سالوں کے دوران اس کا وجود ناپید ہوجائے گا۔

یہ نہایت قابلِ افسوس حقیقت ہے، خاص کر ان حالات میں کہ موسمِ سرما کے دوران پاکستان کا رخ کرنے والے سرد علاقوں کے پرندوں کی تعداد ویسے ہی اب بہت کم ہوتی جارہی ہے۔

اس کے ساتھ ایک اور تنازع بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ ہے سیکر نسل کے عقابوں کو پکڑنے کا۔ اس نسل کے عقاب تلور کے شکار میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ شکاری پرندہ بھی موسمِ سرما میں ہی  یہاں آتا ہے۔

مقامی طور پر پائے جانے والے لیگر نسل کے عقابوں کو سیکر نسل کے عقاب بچوں کو پکڑنے کے لیے بطور چارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان مقامی عقابوں کی بڑی تعداد بھی ماری جارہی ہے۔

شکار کے لیے جو اجازت نامے دیے گئے ہیں، ان کے تحت وہ بڑی عمر کے عقاب ساتھ لا سکتے مگر یہاں سے اپنے ملک کو لوٹتے ہوئےعقابوں  کے کمسن بچے ساتھ لے جانے کی اجازت انہیں ہرگز حاصل نہیں مگر پھر بھی عرب شکاری اپنے ساتھ پیری گرائن یا سیکر عقابوں کے بچے بھی لے جاتے ہیں جو پھر کبھی یہاں واپس نہیں پلٹتے۔

اس طرح کے غیر اخلاقی عمل پر کسی بھی قسم کی معذرت یا جواز ناقابلِ قبول ہے۔

اگر اس بار بھی صورتِ حال کو دیکھا نہ گیا تو پھر ایسے منفی کاموں میں صرف اضافہ ہی ہوگا، جس سے پاکستان میں حیاتیاتی تنوع کو شدید نقصان پہنچے گا۔

یہ وہ وقت ہے کہ جب ہماری حکومت اور محکمہ جنگلی حیات کے حکام، خطرات میں گھری جنگلی حیات اور ان کے مسکنوں کے بارے میں پائی جانے والی تشویش کے مدِ نظر ضروری اقدامات کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں