Dawnnews Television Logo

پہلا لمس: پیدائش کی تین کہانیاں

تین بچوں ایشال، حیان اور عبدالجبار کے بارے میں جانیے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے پہلے 28 دن کیسے گزارے۔

غنویٰ اپنے بچے کو مضبوطی سے تھام کر اسے ایک پرانے گلابی تولیے پر لٹا دیتی ہے، اور پھر دوسرے ہاتھ سے اس کے نرم و نازک جسم پر صابن ملنا شروع کرتی ہے۔

یہ دیہی سندھ کے ایک گاؤں میں ایک خشک اور گرم دن ہے۔ غنویٰ کی چارپائی کے ساتھ تین مزید عورتیں یا تو دو زانو بیٹھی ہیں یا پھر ان کے برہنہ پیر زمین کو چھو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک عورت ایک سوتے ہوئے بچے کے اوپر اپنے ہاتھ سے پنکھا جھل رہی ہے۔

ایک مکھی اس بچے کے چہرے پر بیٹھی ہے جبکہ کئی دیگر مسلسل اس کے اوپر بھنبھنا رہی ہیں۔

ان کی چارپائیاں گھر سے جڑی راہداری کے ساتھ ہی رکھی ہیں جہاں سے وہ باقی کا گاؤں دیکھ سکتی ہیں۔ سائے کے لیے ایک چھپر موجود ہے مگر سورج کی کرنیں، مکھیاں، گوبر کی بو اور جانوروں، بچوں اور آدمیوں کی آوازیں ان تک مسلسل پہنچ رہی ہیں۔

گائے بکریاں آس پاس گھوم رہی ہیں جبکہ بچے برہنہ پاؤں اور پراگندہ بالوں کے ساتھ بھاگتے پھر رہے ہیں۔ کھلے عام رفعِ حاجت اور کھانا پکانا ایک دوسرے سے صرف دس فٹ کے فاصلے پر ہوتا ہے۔

مرد اور عورتیں کھیتوں میں سست روی سے کام کر رہے ہیں۔ ایک عورت ایک کچے راستے پر ایک آدھے برہنہ بچے، جس نے پاجامہ نہیں پہن رکھا، کے ساتھ تیز تیز چلی جا رہی ہے۔

عبد الغفار ابھی چند ہفتوں کا ہی ہے اور اسے خصوصی طور پر نہلایا جا رہا ہے۔ یہ عیاشی غنویٰ کے دو بڑے بچوں کو نصیب نہیں تھی۔

عبدالجبار کی اپنی والدہ کے ساتھ گاؤں میں لی گئی تصویر: فوٹو ملائکا
عبدالجبار کی اپنی والدہ کے ساتھ گاؤں میں لی گئی تصویر: فوٹو ملائکا

تولیہ کچھ زیادہ بڑا نہیں ہے

لہٰذا جب غنویٰ نومولود کو نہلاتی ہے تو پانی اس کے آس پاس بہتا ہے جس سے اس کی چارپائی گیلی ہوجاتی ہے، اور پانی چارپائی کے نیچے جوہڑ کی طرح جمع ہوجاتا ہے۔ بچے کے گلے میں موجود تعویذ بھی بھیگ جاتا ہے۔

غنویٰ کہتی ہے کہ "یہ میرے بچے کو محفوظ رکھتا ہے۔" صرف عبدالغفار ہی نہیں، بلکہ بڑے بچوں اور عورتوں، سب ہی کی گردنوں میں کالے دھاگے کے ساتھ بندھا ہوا تعویذ موجود ہے۔

غنویٰ مسکراتے ہوئے ایک دوسری عورت سے نیا صابن لیتی ہے اور خوشی خوشی اسے کھولتی ہے۔ یہ چارپائی پر پڑی ہوئی حال ہی میں خریدی گئی نئی چیزوں میں سے ایک ہے: ایک ٹوکری جس میں بچوں کے کپڑے، کریم کا ایک بڑا ڈبہ اور کپڑوں کے ٹکڑے موجود ہیں۔

عبدالجبار کی اپنی والدہ کے ساتھ گاؤں میں لی گئی تصویر: فوٹو ملائکا
عبدالجبار کی اپنی والدہ کے ساتھ گاؤں میں لی گئی تصویر: فوٹو ملائکا

اس کے گاؤں میں زیادہ تر عورتیں اپنے پرانے کپڑوں سے بچوں کے کپڑے تیار کرتی ہیں۔ سردیوں کے دوران یہ کام مشکل ہوجاتا ہے اور بچوں کو گرم رکھنے کے لیے زیادہ کپڑے موجود نہیں ہوتے۔ نومولود اکثر نمونیا کا شکار ہوجاتے ہیں، یا بخار اور ڈائریا کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

نمونیا، ڈائریا اور ملیریا پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی جانیں لینے والے امراض میں سرِفہرست ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے تقریباً 44 فیصد پیدائش کے ایک ماہ کے اندر واقع ہوتی ہیں۔

دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی وجہ

غنویٰ گلابی تولیہ پھیلاتی ہے اور عبدالغفار کے جسم کو اس سے تھوڑا بہت خشک کرتی ہے۔ اس کے بعد وہ اسے ایک نارنگی کرتا اور ایک پھٹی پرانی اونی ٹوپی پہنا دیتی ہے۔

بچہ تقریباً تیار ہے۔

بچے کی پیشانی کو ایک انگلی سے مستحکم کر کے وہ مہارت سے اس کی آنکھوں میں سرمہ لگاتی ہے۔ پاس کھڑی ایک بڑی لڑکی جو یہ سب انہماک دے دیکھ رہی ہے، اس سب سے نہایت مسحور نظر آتی ہے۔

سرمہ نقصاندہ ہے مگر غنویٰ کا اصرار ہے کہ یہ اس کے بچے کو شیطانی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔

عبدالجبار کی اپنی والدہ کے ساتھ گاؤں میں لی گئی تصویر: فوٹو ملائکا
عبدالجبار کی اپنی والدہ کے ساتھ گاؤں میں لی گئی تصویر: فوٹو ملائکا

دیہی سندھ کے دیگر دیہاتوں میں بھی بچے اکثر بیمار رہتے ہیں

خصوصاً پیدائش کے ابتدائی 28 دنوں میں، کیونکہ کوئی طبی سہولت میسر نہیں ہوتی۔

عبدالغفار کی ولادت رات کے دو بجے ہوئی تھی۔ غنویٰ کے رشتے دار ایک قریبی گاؤں سے دائی ڈھونڈ کر لائے تھے جس نے ناڑ منقطع کرنے کے لیے ایک ریزر بلیڈ استعمال کیا تھا۔

وہ جانتی ہے کہ پیدائش کے دوران کئی حفاظتی تدابیر اختیار کی جا سکتی تھیں، اور اب بھی کی جا سکتی ہیں۔

وہ جانتی ہے کہ ہاتھ دھونا اور گوبر استعمال نہ کرنا اس کے بچے کو بیماری سے بچا سکتا ہے۔

پر گاؤں میں جلانے کے لیے لکڑی موجود نہیں ہے اور کوئی لکڑی کاٹنے بھی نہیں جاتا۔ خشک گوبر ہی وہ واحد ایندھن ہے جو کھانا پکانے اور بچے کو نہلانے کے لیے پانی گرم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

دونوں آنکھوں میں سرمہ لگا چکنے کے بعد غنویٰ مطمئن ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ بچہ تیار ہو چکا ہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز نے خواتین کو بتایا ہے کہ انہیں بچے کو ہاتھ لگانے اور کھانا پکانے سے پہلے اپنے ہاتھ صابن سے دھونے چاہیئں۔ پر اگر صاف پانی مہیا نہ ہو تو؟

غنویٰ سوال کرتی ہے "اگر پانی میں آرسینک (ایک زہریلی دھات، سنکھیا) موجود ہو تو ہاتھ دھونے سے کیا فرق پڑے گا؟"

وہ یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ وہ زیادہ محتاط ہوتے ہوئے عبدالغفار کو نہلانے کے لیے ایک الگ تھلگ جگہ کا انتخاب کر سکتی ہے، مگر گاؤں میں موجود صرف دو باتھ روم کافی فاصلے پر ہیں، اور وہاں بھی بہتا پانی دستیاب نہیں ہے۔

ان کی زمین سے آگے دریا موجود ہے، مگر اس کا پانی بھی گندہ ہے۔

عبدالجبار کے ابتدائی 28 دنوں کی تصویرکشی ملیکا عباس نے کی۔


گرم غسل

جیسے ہی بچہ رونے لگتا ہے تو مدیحہ اسے پانی کے ٹب میں لٹا دیتی ہے۔ وہ وضاحتی انداز میں کہتی ہے کہ "پانی گرم ہے"، اور پھر بچے کے سر کو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے، جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ بچے کی بھنچی ہوئی مٹھیوں سے کھیلنے لگتی ہے۔ اس دوران بچہ گرم پانی سے مانوس ہونے لگتا ہے۔

بچے کے والد عثمان بتاتے ہیں کہ "گرم پانی اس کی سوجن کم کرتا ہے"۔ جب ان کی اہلیہ بچے کو ٹب میں لٹائے ہوئے ہوتی ہیں، تو وہ اس پر محتاط نظر رکھتے ہیں۔ پانچ دن کا حیان ابھی بہت چھوٹا ہے، اور اس کی ٹانگیں ٹب کے دوسرے کنارے تک بھی نہیں پہنچ پاتیں۔

یہ گھرانہ کراچی کے ایک علاقے میں چوتھی منزل پر رہتا ہے۔ جس کمرے میں حیان کو نہلایا جا رہا ہے، اسے ہلکے رنگوں میں رنگا گیا ہے۔ ایک ہلکے پیلے رنگ کی چادر نے بیڈ کو ڈھانپ رکھا ہے جہاں اس کی والدہ ٹب کے پاس بیٹھی ہیں۔

اس کے آس پاس تمام ضروری چیزیں موجود ہیں جن میں ڈائپر، پاؤڈر، ایک بوتل اور گلابی، سفید اور پیلے رنگ کے بچے کے کپڑے پڑے ہیں۔

بچے کو نہلانے سے پہلے دونوں والدین نے اپنے ہاتھ اچھی طرح صابن سے دھوئے۔ وہ بچے کو اٹھانے یا اسے چھونے سے پہلے ہمیشہ ایسا کرتے ہیں۔

مدیحہ خوشی سے جذباتی ہو کر کہتی ہے، "دیکھیں، یہ تیرنا سیکھ رہا ہے۔"

پانی میں آدھے جسم کے ساتھ بچہ اب پرسکون ہوگیا ہے اور پھیلی آنکھوں کے ساتھ اپنی والدہ کو دیکھ رہا ہے۔ مدیحہ اپنے ہاتھ میں تھوڑا سا پانی جمع کر کے بچے کے اوپر چھڑکتی ہے۔ حیان اپنی ٹانگیں چلاتا ہے اور عثمان اتفاق کرتے ہوئے ہنستا ہے۔ وہ شاید واقعی تیرنا سیکھ رہا ہے۔

اسے اسفنج سے نہلانے کے بعد مدیحہ حیان کو ایک صاف پیلے تولیے پر لٹا دیتی ہے۔ دونوں والدین اسے تولیے میں لپیٹ کر آہستگی سے خشک کرتے ہیں۔ وہ اسے تیار کرنے کے ہر مرحلے کے دوران ایک نئی احتیاط اور توجہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

والدین کی پیار کے اظہار کی آوازوں کے علاوہ کمرے میں صرف حیان کے رونے اور اس کے ڈائپر کے مڑنے کی آوازیں ہیں۔ مدیحہ بچے کو سفید رنگ کی ایک نرم بنیان پہناتی ہے، اور اس کے بعد بچے کو اس کی پیلے رنگ کی نئی ڈانگری پہناتی ہے۔ وہ آہستگی سے اس کے بٹن بند کرتی ہے جبکہ عثمان اس کی پیشانی چومتا ہے اور اس کا کالر درست کرتا ہے۔

حیان کے ابتدائی 28 دنوں کی تصویرکشی عارف محمود نے کی۔


لمس

رشیدہ ایسے وقت میں اپنی بچی کے رونے کی عادی ہے، اس لیے جیسے ہی ان کی نومولود بچی پہلے سے بھی تیز آواز میں روتی ہے، تو وہ ہنس دیتی ہے۔

"نہیں نہیں میرا بچہ"، رشیدہ کے والد چہک کر کہتے ہیں تاکہ کپڑوں کی تبدیلی کے عمل سے اس کی توجہ ہٹائی جا سکے۔

رشیدہ کہتی ہیں کہ "سارہ کے کپڑے تبدیل کرنا ایک بہت مشکل مرحلہ ہے۔"

سارہ کی پیدائش ایک ماہ پہلے ہوئی تھی، جس سے اس جوڑے کی زندگی بالکل بدل کر رہ گئی ہے۔ لوگوں نے رشیدہ کو اس بارے میں پہلے ہی خبردار کیا تھا، مگر وہ ذہنی طور پر کافی حد تک تیار تھی۔

رشیدہ کہتی ہے کہ "بچے کی آمد سے سب کچھ بدل جاتا ہے، اور آپ کو ہر معاملے میں بے حد احتیاط کرنی پڑتی ہے۔"

رشیدہ اور سارا کی ان کے گھر میں لی گئی تصویر - فوٹو ٹپوجویری
رشیدہ اور سارا کی ان کے گھر میں لی گئی تصویر - فوٹو ٹپوجویری

جس کمرے میں وہ موجود ہیں، وہ چمک رہا ہے۔ رشیدہ کے مطابق بچہ آپ کے تصور سے بھی زیادہ گندگی کر سکتا ہے، مثلاً الٹی، تھوک، پیشاب و پاخانہ وغیرہ۔ ہر چیز بار بار دھونی اور صاف کرنی پڑتی ہے۔

"ہم جب بھی باہر سے آئیں، تو اپنے ہاتھ ضرور دھوتے ہیں"، کیونکہ بہرحال ان کی بیٹی انہی پر منحصر ہے۔

بھلے ہی والدین بننا ایک بڑی ذمہ داری ہے، لیکن سارہ کی والدہ اس حوالے سے کچھ عرصے سے تیاری کر رہی تھیں۔ کوئی بھی چیز ان کے لیے حیران کن نہیں ہے، مگر پھر بھی انہیں خود کو اس معمول کے حساب سے ڈھالنے میں تھوڑا وقت ضرور لگا ہے۔

رشیدہ کا ماننا ہے کہ "صفائی سب سے اہم چیز ہے۔ کمرہ صاف ہونا چاہیے، بوتلیں گرم کر کے صاف کرنی چاہیئں، اور ڈائپرز کو مناسب انداز میں پھینکنا چاہیے۔ پانی کو بھی ہر دفعہ ابال کر ہی استعمال کرنا چاہیے۔

ایشال کے ابتدائی 28 دنوں کی تصویرکشی ٹپوجویری نے کی۔


بے پناہ محبت

دیہات میں عبدالغفار، اور کراچی میں سارہ اور حیان اپنی اپنی والدہ کی محبت بھری آغوش میں رہتے ہیں۔ ہر بچہ اپنے والدین کے لیے یکساں طور پر انمول ہے۔

جب سارہ روتی ہے تو رشیدہ اسے اپنے سینے سے لگا کر خاموش کروانے کی کوشش کرتی ہے۔ اور یہ کوشش ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ جب ماں اور بیٹی دونوں ہی گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اس کمرے میں، جہاں صوفے سے پردوں تک ہر چیز گلابی رنگ کی ہے، بیٹھ کر مسکراتے ہیں، تو وہ لمحہ نہایت پرسکون اور دیکھنے لائق ہوتا ہے۔

مدیحہ اپنے بچے کو نہلانے اور نئے کپڑے پہنانے کے بعد اسے ایک نرم سفید کمبل میں لپیٹ دیتی ہے۔ وہ ہر چیز کو باریک بینی سے بار بار دیکھتی ہے تاکہ اپنے بچے کی حفاظت اور آرام یقینی بنایا جا سکے۔ وہ اسے لوری سناتے ہوئے آہستہ آہستہ جھلاتی ہے تاکہ وہ جلد سوجائے۔

غنویٰ ایک پرانے دوپٹے سے عبدالغفار کی ٹانگیں اور بازو لپیٹ دیتی ہے اور اپنے ہاتھوں سے اس کا چہرہ چھوتی ہے۔ وہ مسکراتی ہے اور لپٹے ہوئے بچے کو اپنے پاس لے آتی ہے۔ بچہ بھوکا ہے، لہٰذا وہ اسے اپنے چھاتی سے لگا لیتی ہے تاکہ بچہ اس کی گود میں جھولتے ہوئے غذا بھی حاصل کر سکے۔

محبت ان سب کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔ ایسی کوئی چیز نہیں جو یہ مائیں اپنے پیارے بچوں کے لیے نہ کریں۔


یہ مواد ہمارے اسپانسر کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔ ڈان اداریے کا اس میں بیان کیے گئے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اسپانسر مواد کیا ہے؟


پیدائش کے بعد ابتدائی 28 دن بچے کو پانچ سال کی عمر تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں

لائف بوائے نے سندھ بھر میں 31 زچہ و بچہ کلینکس کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے ہزاروں ماؤں کو ابتدائی 28 دنوں میں صفائی کی اہمیت کے بارے میں آگاہی فراہم کی ہے۔ نوزائیدہ سارہ، حیان اور عبدالجبار کے ابتدائی 28 دنوں کی تصویری کہانی اس بارے میں آگاہی پھیلانے کی جانب ایک قدم ہے۔

ہر کتاب کی فروخت پر لائف بوائے کتاب کی دوگنی قیمت قومی ادارہء برائے صحتِ اطفال کراچی کو زچہ و بچہ نگہداشت کے لیے عطیہ کرتا ہے۔ آپ بھی kitabein.com سے کتاب خرید کر اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔