شفقت حسین کی پھانسی چوتھی بار ملتوی
کراچی : سزائے موت کے قیدی شفقت حسین کی پھانسی کو چوتھی بار ملتوی کردیا گیا۔
کراچی سینٹرل جیل کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پیر کو رات گئے آخری لمحات میں اس وقت شفقت حسین کی پھانسی چوتھی بار ملتوی کی گئی جب صبح پانچ بجے انہیں تختہ دار پر لٹکایا جانا تھا۔
چوبیس اپریل کو تیسری بار شفقت حسین کے بلیک وارنٹ جاری ہوئے تھے تاہم پھانسی سے ایک روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے پھانسی کو قیدی کی عمر کے تعین کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کے لیے دائر درخواست کے فیصلے تک روک دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس درخواست کو مسترد کیا گیا جس کے بعد انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے یکم جون کو شفقت حسین کے نئے بلیک وارنٹ جاری کرتے ہوئے نو جون کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے شفقت حسین کو 2001 میں 5 سالہ عمیر کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا، جس کے بعد 2004 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر انہیں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ کا کہنا تھا کہ یہ مجرم ایک رہائشی عمارت ندیم آرکیڈ کا چوکیدار تھا، اور سیکنڈ فلور کے اپارٹمنٹ سے عمیر کو اغوا کرکے اپنے کمرے میں لے گیا۔
مزید پڑھیں: ’نابالغ مجرم‘ کو پھانسی دینے کے لیے نئے بلیک وارنٹ کی درخواست
جب عمیر نے اپنی رہائی کے لیے اصرار کیا تو اس چوکیدار نے اس کے سرپر ایک ڈنڈے کی ضرب لگائی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہوگیا جس کے بعد شفقت نے عمیر کے والد سے تاوان کا مطالبہ کیا اور اس کی لاش کو اگلی رات ایک قریبی نالے میں پھینک دیا اور تاوان کی وصولی کے لیے عمیر کے خاندان کو مختلف پبلک کال آفس سے فون کرتا رہا۔
بالآخر اس نے عمیر کے والد سے کہا کہ ندیم آرکیڈ کے کمپاؤنڈ کے اندر پڑے ایک لکڑی کے بکس میں تاوان کی رقم رکھ دیں۔ 21 مئی کو اس چوکیدار کو گرفتار کرلیا گیا، پولیس کا دعویٰ تھا کہ یہ بکس اسی چوکیدار کا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پھانسی کے منتظر شفقت کی والدہ نے رحم کی اپیل کر دی
دوسری جانب اہلخانہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ قتل کے وقت شفقت حسین کی عمر صرف 14 برس تھی اور نابالغ ہونے کے باعث اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جس مقدمے میں اسے ملوث کیا گیا اس میں تین گرفتاریاں ہوئیں لیکن لاوارث ہونے کی وجہ سے سارا الزام ان کے بیٹے پر لگا دیا گیا جب کہ دو کو رہا کر دیا گیا ۔
اس سے قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ شفقت حسین کے کیس کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی اس معاملے پر سیاست کی جانی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ہم 14 سالہ 'دہشت گرد' کو پھانسی دیں گے؟
وزیر داخلہ نے بتایا کہ جیل ڈاکٹر کے مطابق شفقت حسین کی عمر25 سال ہے اور کسی بھی مرحلے پر شفقت حسین کی کم عمری کا نکتہ نہیں اٹھایا گیا۔
وزیر داخلہ کے مطابق تمام عدالتوں سے سزاء اور اس کے بعد صدارتی رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد مجرم کی عمر کے حوالے سے بات شروع کی گئی۔
یاد رہے کہ شفقت کی رحم کی اپیلیں 2006 میں ہائی کورٹ، 2007 میں سپریم کورٹ جبکہ 2012 میں صدر مملکت کی جانب سے مسترد کی جا چکی ہیں۔
دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد پاکستان میں موت کی سزا پر سے پابندی ہٹائی گئی۔ ابتدائی طور پر صرف دہشت گردی کے مقدمات پر سے پابندی ہٹائی گئی تاہم پھر اس فیصلے کو دیگر کیسز پر بھی لاگو کردیا گیا۔
یہ پڑھیں: پھانسی پر عائد پابندی مکمل طور پر ختم
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں 8 ہزار سے زائد افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔
پابندی اٹھائے جانے پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور یورپی یونین نے پاکستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔