Dawn News Television

شائع 27 اکتوبر 2015 06:20pm

زلزلہ عذاب ہے یا؟

یہ ماہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر آیا۔

وزیرِ اعظم اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے امداد کی مد میں لاکھوں ڈالر اور کئی لڑاکا طیارے حاصل کیے۔ پھر ہندوستان سے معمول کی جھڑپیں بھی تھیں، مگر سرحد کے دوسری جانب بڑھتی ہوئی انتہاپسندی سے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جذباتیت بہت معمولی نظر آنے لگی۔

پھر اکتوبر کے آخری پیر کے روز ایک سانحہ ہوا۔

2005 کے تباہ کن زلزلے کے 10 سال بعد 7.5 شدت کے زلزلے نے ملک کے شمالی علاقے کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں چند ہی منٹوں میں 228 سے زیادہ لوگ ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوگئے۔

ٹی وی چینلوں اور اخباروں نے ہلاک شدگان کی تعداد کے ساتھ یہ بھی بتانا ضروری سمجھا کہ ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے، لیکن انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سن ہو چکے لوگ جو ٹی وی پر افراتفری کے تازہ ترین مناظر، ملبہ اور دبی ہوئی لاشیں دیکھ رہے تھے، خود بھی یہ سمجھ سکتے تھے۔ ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئی تھیں مگر اب تک صرف چند ہی لوگ گنتی میں آئے تھے۔

زلزلے کے بعد جب زلزلے کے مرکز کے قریب مالاکنڈ کے آس پاس کے علاقے ابھی تک جھٹکوں سے لرز رہے تھے، تو ملک کے ٹی وی چینلز پر ہمیں دو طرح کے ماہرین نظر آنے لگے۔

ایک طرح کے ماہرین، جو تعداد میں زیادہ تھے، نے نہایت عالمانہ انداز میں فرمایا کہ زلزلہ پاکستان کے لوگوں کے اعمال کی سزا ہے۔ زمین کی پلیٹوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ ہلنا، عمارتوں کا گرنا اور بچوں کی ہلاکتیں، یہ قوم کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ ان کے سننے والوں میں سے زیادہ تر لوگوں نے ان کی بات تسلیم کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ ان کو دیکھنے والے اب تک زندہ ہوتے ہیں اور اب تک زندہ لوگ خود کو زیادہ بہتر سمجھنا پسند کرتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ کے رہائشی پاکستان کے غریب ترین لوگوں کو ایک دن میں دوسری دفعہ دھچکا لگا؛ جب قدرت نے زمین کی پلیٹیں کھسکائیں تو یہ لوگ نشانہ بنے، لہٰذا ان کے ہم وطنوں نے انہیں گناہ گار، اور مستحقِ عذاب تصور کیا۔

ان پر پڑنے والی اس آفت کی ایک حقیقی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ملک کے غریب ترین لوگوں میں سے تھے، غریب لوگ بدقسمت ہوتے ہیں اور ان کی یہ بدقسمتی حادثاتی نہیں ہوتی بلکہ ضرور ان کے کسی نہ کسی گناہ کی وجہ سے وہ غریب ہوئے ہوں گے۔

دوسری طرح کے ماہرین نے ایک اور طرح کی بری خبر سنائی۔

10 سال پہلے زلزلے کے بعد جو زبردست بحثیں ہوئی تھیں، آفات سے بچاؤ کی منصوبہ بندیاں، اساتذہ اور طلبہ کو زلزلے کے لیے تیار کرنے کے لیے جن اداروں کے قیام اور تربیتی پروگرامز کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا، سب ہی فائل بند پڑے تھے۔

امدادی ڈالر آئے، کئی پراجیکٹس کا اچانک اعلان کیا گیا، کبھی اس حکومتی ادارے کو کبھی اس ادارے کو کبھی اس این جی او کو کبھی اس کو پیسے دیے گئے، مگر دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔

زلزلے کے فوراً بعد ہونے والی امدادی کارروائیوں کو دیکھ کر واضح تھا کہ 10 سالوں میں کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک چترال کا رابطہ پورے پاکستان سے کٹ چکا تھا۔ پہاڑی تودے گرنے سے سڑکیں بند ہو چکی تھیں اور زخمیوں کو وہاں سے نکالنا اب صرف فضائی ذریعے سے ممکن تھا۔

اور اس کی کئی لوگوں کو ضرورت تھی؛ اس علاقے کے لوگوں نے لائیو ٹی وی چینلوں پر فون کے ذریعے اپیلیں کیں۔ اس کے جواب میں حکومتی عہدیداران زور دیتے رہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت کو ہیلی کاپٹر بھجوائے جا چکے ہیں۔

سرد رات گزر گئی مگر کوئی ہیلی کاپٹر چترال نہیں پہنچا۔ ہلاک شدگان کی لاشیں ایسے ہی پڑی رہیں جبکہ تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ تقریباً ایک دن بعد پاک فوج ان کی مدد کو پہنچی اور مدد کے منتظر چترالیوں کو سی 130 میں امدادی سامان پہنچایا۔

جذباتی محبِ وطن پاکستان میں بہت زیادہ ہیں اور ان کے نزدیک دفاع اور آفات، دونوں محکموں کا ایک دوسرے سے تصادم نہیں ہوتا۔

یہ لوگ قوم کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کا محلِ وقوع جغرافیائی اعتبار سے نہایت اہم ہے جہاں عالمی طاقتیں اپنی پنجہ آزمائی کرتی ہیں، اسی لیے ملک کو بموں اور لڑاکا طیاروں کی بہت ضرورت ہے۔

اگر یہ درست ہے تو یہ بھی درست ہے کہ پاکستان کرہء ارض کی سب سے متزلزل پلیٹوں کے اوپر قائم ہے، اور اس لیے آفات سے نمٹنے کے لیے پختہ عزم کی ضرورت ہے۔

اور اس دوسرے مقصد کو ہم نے 10 سال پہلے بھی نظرانداز کیا، کل بھی نظر انداز کیا، اور آئندہ ایک بار پھر نظرانداز کر دیں گے۔

یہ عدم توازن نہ صرف انتہائی خطرناک ہوگا، بلکہ اس میں ہمارا تمسخر بھی ہے: ایک ایسا ملک جو 'محفوظ' تو ہے، مگر جس کی زمین غیر مستحکم ہے، اور کسی بھی وقت ملک کی بنیادیں تک جھنجھوڑ سکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments