'انگلینڈ نے 20 سے 30 رنز کم بنائے'
قومی ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز وکٹ کیپر راشد لطیف نے انگلینڈ کے خلاف تیسرے ایک روزہ میچ میں قومی ٹیم کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہماری باؤلنگ اوسط درجے کی ہے جبکہ انگلینڈ نے میچ میں ابھی بھی 20 سے 30 کم رنز بنائے۔
سرکاری اسپورٹس چینل پر میچ کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے سابق کپتان نے کہا کہ ایک روزہ میچوں کی سیریز کیلئے پاکستان نے غیرمتوازن ٹیم کا اعلان کیا تھا، پاکستانی باؤلنگ کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے اصل باؤلرز بائیں ہاتھ کے اسپنرز ہیں جبکہ ماضی میں انگلینڈ کی وکٹوں پر کھیلتے ہوئے ہم بائیں ہاتھ کے اسپنرز کو پارٹ ٹائم باؤلر کی حیثیت سے کھلاتے تھے۔
تیسرے میچ میں انگلینڈ کی جانب سے 444 رنز کا ریکارڈ مجموعہ بنانے پر راشد نے کہا کہ انگلینڈ نے میرے لحاظ سے 20 سے 30 رنز کم بنائے تھے کیوں کہ وہ مار مار کر تھک گئے تھے اور شروع میں تھوڑا آہستہ کھیلے لیکن آنے والے دو میچوں میں وہ 444 رنز کا ریکارڈ توڑ بھی سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تاریخ ساز میچ میں انگلینڈ کی فتح
انہوں نے کہا کہ ایک لحاظ سے پاکستان کرکٹ کیلئے بہت اچھا ہوا لیکن اب سمجھ آئے گا کیونکہ اگر انگلینڈ 300 رنز کرتا اور ہم 50 رنز سے ہار جاتے تو یہ ایک معمولی بات تھی لیکن یہ شکست ہر پاکستانی اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں کام کرنے والے ہر شخص کیلئے تکلیف دہ ہے، اس میچ کی وجہ سے پاکستان کرکٹ میں تبدیلی آ سکتی ہے۔
پاکستانی ٹیم کی شرمناک کارکردگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سابق آسٹریلین آل راؤنڈر اینڈریو سائمنڈز نے بھی کہا کہ انگلینڈ نے ثابت کردیا کہ ایک روزہ کرکٹ کس طرح کھیلی جاتی ہے، ان کی ٹیم میں ہر کھلاڑی کا طے شدہ کردار ہے اور انہوں نے میچ میں خود کو اس مقام تک پہنچایا جہاں سے وہ صرف اٹیک کر سکتے تھے۔
انگلینڈ کو 2015 ورلڈ کپ میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گئے تھے لیکن اس بعد انگلش بورڈ نے اپنی ٹیم میں ناگزیر تبدیلیاں کیں اور ورلڈ کپ 2015 سے اب تک انگلینڈ ایک روزہ کرکٹ میں دنیا کی سب سے کامیاب ٹیم ہے۔
انگلینڈ کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1972 سے اب تک پاکستان نے ون ڈے کرکٹ میں 350 رنز کا ہندسہ 6 بار عبور کیا جبکہ انگلینڈ 2015 ورلڈ کپ سے اب تک یہ کارنامہ 6 بار انجام دے چکا ہے۔
سائمنڈز نے کہا کہ اس وقت پاکستانی ٹیم میں کوئی اچھا باؤلر موجود نہیں کیونکہ جب رنز پڑ رہے تھے اور ٹیم دباؤ میں تھی تو کسی بھی کھلاڑی نے یارکر کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ ایک روزہ کرکٹ میں باؤلر میں اپنی مرضی کے مطابق یارکر کرنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہیے۔
اس موقع پر راشد لطیف نے عامر کو تسلسل کے ساتھ میچز کھلانے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سلیکشن حکام محمد عرفان کی طرح محمد عامر کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں۔
'عامر ساڑھے پانچ سال بعد واپس آیا ہے، اسے چار ٹیسٹ میچ کھلا کر پھر آئرلینڈ کے خلاف میچ جیتنے کیلئے اسے میدان میں اتار دیا، بالکل وہی کیا جا رہا ہے جیسا محمد عرفان کے ساتھ کیا تھا، ٹی ٹوئنٹی، ٹیسٹ، ایک روزہ میچ سب کچھ کھیلایا گیا۔ شارجہ، دبئی، چیچہ وطنی ہر جگہ وہ کھیل گیا لیکن جب وہ گرا تو کیا کسی نے اٹھایا اسے؟ ، اب یہی کام محمد عامر کے ساتھ بھی کرنے جا رہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ہیمسٹرنگ انجری کا شکار ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: ریکارڈ ساز میچ: کیا بنا، کیا ٹوٹا؟
راشد لطیف نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ایک سال قبل چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار خان کو کہا تھا کہ اظہر علی کامیاب کپتان نہیں ہو گا، اسے کپتان مت بنائیں لیکن آپ نے بنایا اور غلطی کی، اب پورا پاکستان یہی کہہ رہا ہے کہ کپتان بنا کر غلطی کی۔
پروگرام میں موجود سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد وسیم نے بھی آراء کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ٹیم کا میرٹ پر انتخاب کرنا ہو گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پی سی بی میں کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ ٹیم کیسا کھیل رہی ہے اور کس طرح بہتری لانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم کی ازسرنو تشکیل وہی پرانے طریقوں سے نہیں ہو سکتی، ہم ماضی میں متعدد مرتبہ کافی کھلاڑیوں کو یہ کہہ کر ڈراپ کرتے رہے ہیں کہ یہ ہمارے مستقبل کے منصوبوں کا حصہ نہیں اور ہم نئے کھلاڑیوں کو موقع دیں گے لیکن جب ورلڈ کپ جیسا کوئی بڑا ٹورنامنٹ آتا ہے تو وہی کھلاڑی ٹیم میں واپس آ جاتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے سسٹم کو فوراً ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔