Dawn News Television

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2016 10:18am

کیا اچھی تنخواہ اساتذہ کا حق نہیں؟

رضوانہ نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی، اور چوں کہ اسے خاندان سے زیادہ تر اقسام کی نوکریوں کی اجازت نہیں تھی، لہٰذا اس نے گھر کے پاس ہی ایک اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔

اسے پڑھانا پسند ہے، اور اس کی تنخواہ سے گھر کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں، چنانچہ گھر والوں کا خیال تھا کہ اس کی شادی ہونے تک یہ اچھی مصروفیت رہے گی۔

رضوانہ 7:30 بجے اسکول کے لیے گھر سے نکلتی ہے؛ اسکول کے اوقات 8 بجے سے دوپہر 1 بجے تک ہیں، اور وہ پونے دو بجے گھر پہنچ جاتی ہے۔ گھر پر وہ کچھ گھنٹے بچوں کا ہوم ورک چیک کرتی ہے اور پھر اگلے دن کی کلاسوں کی تیاری کرتی ہے۔

اسکول اسے ماہانہ 5,000 روپے ادا کرتا ہے، جس میں سے 1,500 روپے وہ اسکول آنے جانے کے لیے وین ڈرائیور کو دیتی ہے۔

بھلے ہی رضوانہ یہ جانتی ہے کہ اس کی تنخواہ کافی کم ہے، مگر اس نے اس صورتحال کو قبول کر لیا ہے کیوں کہ اس کے پاس اور کوئی انتخاب ہے نہیں، اور اسکول اسے اس سے زیادہ تنخواہ دے گا نہیں۔ مگر وہ ہمیشہ استانی نہیں رہے گی۔ وہ نہیں جانتی کہ شادی کے بعد اسے کام کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں، پر اگر اجازت ہوئی بھی تو اسے لگتا ہے کہ اتنی کم تنخواہ ٹیچنگ میں کریئر جاری رکھنے کے لیے ناکافی ہوگی، لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ وہ شادی کے بعد گھر پر رہے اور اپنے بچوں پر توجہ دے۔

پڑھیے: اساتذہ کا عالمی دن اور پاکستان کی صورت حال

مگر شاہین کی صورتحال رضوانہ سے کافی مختلف ہے۔ شاہین شادی شدہ ہے، اس کے دو بچے ہیں، اس کا شوہر ایک سرکاری ادارے میں کلرک ہے، جبکہ وہ ایم ایڈ کی ڈگری رکھتی ہے اور زیادہ فیس لینے والے ایک نجی اسکول میں پڑھاتی ہے۔ شاہین کی ماہانہ تنخواہ 10,000 روپے ہے، اور ٹرانسپورٹ و دیگر اخراجات کے بعد اسے 8,000 روپے کی بچت ہوتی ہے۔

شاہین کو لگتا ہے کہ میاں بیوی کی کل وقتی ملازمت کے باوجود وہ اپنے بچوں کو ایک اچھی زندگی نہیں دے پا رہے، اور انہیں کئی چیزوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، جس میں ان کی اپنی صحت، اور اپنے ساس سسر کی دیکھ بھال شامل ہے۔ وہ خرچے کے ڈر سے ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اور کم سے کم خرچ میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں؛ ضروریاتِ زندگی کے علاوہ کسی چیز پر خرچ نہیں کرتے۔

اسے لگتا ہے کہ اس کے بچے بھی سیر و تفریح کے مستحق ہیں، مگر وہ اس کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔

شاہین کو ٹیچر ہونے پر کوئی افسوس نہیں ہے — "میں اور کیا کرتی؟" مگر اسے یہ لگتا ہے کہ ٹیچنگ ایک ایسا شعبہ ہے، جو ٹیچروں اور ان کے گھرانوں کو ایک باعزت زندگی نہیں دے سکتا۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی اور بیٹا بڑے ہونے پر کچھ اور کریں۔ "وہ ڈاکٹر بنیں، انجینیئر بنیں، کمپیوٹر سائنس میں جائیں۔ ٹیچنگ انہیں کچھ نہیں دے گی۔"

تمام صوبائی حکومتوں نے گذشتہ دہائی کے دوران سرکاری اساتذہ کی تنخواہیں بڑھائی ہیں۔ بھلے ہی تنخواہیں اساتذہ کو متوسط طبقے کی زندگی دینے جتنی نہیں ہیں، مگر پھر بھی اتنی ضرور ہیں کہ بنیادی معیارِ زندگی کو یقینی بنا سکیں۔ مگر دوسری جانب نجی اسکولوں کی تنخواہیں، جنہیں مارکیٹ پر چھوڑ دیا گیا ہے، بہت ہی کم ہیں۔ انتہائی اونچے درجے کے نجی اسکولوں کی تنخواہیں سرکاری اساتذہ سے بھی زیادہ ہیں، مگر ایسے اونچے درجے کے اسکول نجی اسکولوں کی مکمل تعداد کا ایک بہت ہی تھوڑا حصہ ہیں۔

ملک کے زیادہ تر نجی اسکول نچلے سے لے کر درمیانے درجے تک فیس وصول کرتے ہیں۔ ان اسکولوں میں تنخواہوں کا انحصار فیس اور لوکیشن پر ہوتا ہے۔ اساتذہ کی تنخواہیں 2,000 روپے سے لے کر 15,000 روپے تک ہوسکتی ہیں۔ اس طرح کے اسکولوں میں 15,000 سے 20,000 روپے سے زائد تنخواہ بہت ہی نایاب ہے۔

مزید پڑھیے: انتخابات کے لیے اساتذہ کی ہی ڈیوٹی کیوں؟

ایک استاد آخر کیسے 10,000 روپے میں گزارہ کرے اور اپنے خاندان کی دال روٹی کا بندوبست کرے؟ کچھ حالیہ تحقیقات کے مطابق ایک گھرانے کو بنیادی معیارِ زندگی کے لیے کم سے کم 17,000 سے 20,000 روپے ماہانہ درکار ہوتے ہیں۔

40 گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے پر ملنے والی کم سے کم اجرت بھی صرف 13,000 سے 14,000 روپے ماہانہ ہے۔ نجی اسکولوں کے اساتذہ اس قانون سازی میں شامل کیوں نہیں ہیں؟ خیبر پختونخواہ میں اساتذہ کو 'مزدوروں' کے زمرے سے نکال دیا گیا ہے جن پر کم سے کم اجرت کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

پنجاب میں بھلے ہی قانون اساتذہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے، مگر صوبائی حکومت قانون پر عملدرآمد نہیں چاہتی۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے اسکولوں میں بھی پی ای ایف اور حکومتِ پنجاب کم سے کم اجرت کا قانون اساتذہ پر لاگو نہیں کرنا چاہتی۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اساتذہ اسکول میں صرف پانچ سے چھے گھنٹے کے لیے ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر کم سے کم اجرت کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مگر اساتذہ اسکول کے بعد اپنے گھر پر بھی کام کرتے ہیں، ہوم ورک چیک کرتے ہیں، اور کلاسوں کی تیاری کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کو مدِنظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟ پڑھانا ایک کل وقتی کام ہے؛ اسکول میں گزارے ہوئے وقت کی بناء پر یہ فیصلہ کیوں کیا جائے کہ اساتذہ کتنا کام کرتے ہیں؟


کیا ہم ٹیچنگ کو ایسا "پروفیشن" بنانا چاہتے ہیں جس میں مالی فوائد ہوںاور جو لوگوں کو اپنی جانب کھینچ سکے؟ یا پھر ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف وہلوگ اساتذہ بنیں جن کے پاس اور کوئی انتخاب نہیں ہوتا؟ اور کیا ہم یہچاہتے ہیں کہ اساتذہ کل وقتی ملازمت کے باوجود غریب ہی رہیں؟


ایک سرکاری اسکول میں بچوں کو پڑھانے پر حکومت کا جتنا خرچہ ہوتا ہے، کم فیس والے اسکولوں میں اس سے کم ہوتا ہے، مگر اس کم خرچ کی وجہ دونوں طرح کے اسکولوں میں اساتذہ کی تنخواہوں میں موجود فرق ہے۔ اگر ہم ایسے اسکولوں کو کم سے کم اجرت کا پابند کر دیں، تو یا تو وہ اپنی فیسیں بڑھا دیں گے، یا پھر اگر اس علاقے کے لوگ زیادہ فیس نہیں دے سکتے، تو وہ اسکول بند کر دیں گے۔

پڑھیے: ہم اساتذہ کی عزت کب کریں گے؟

یہ متوقع صورتحال حکومت کو اساتذہ کی بھلائی کے لیے مداخلت کرنے سے روکتی ہے۔ ہاں یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے جس پر احتیاط سے غور کیا جانا چاہیے، مگر اس کو وجہ بنا کر اساتذہ کو ان کے حال پر چھوڑ نہیں دینا چاہیے۔

ہمیں بحیثیتِ معاشرہ یہ جاننا ہوگا کہ ہمارے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کس کے ذمے ہیں۔ اگر ہم آئین کی شق 25 (الف) کے تحت کیے گئے وعدے پر عمل کریں، تو یہ حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

پر اس وقت ہم یہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کریں، اور معاشرہ اس کے اخراجات بھی ادا نہ کرے۔ نتیجہ نجی شعبے میں اساتذہ کے استحصال کی صورت میں نکلتا ہے۔


لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 اکتوبر 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments