کیا اچھی تنخواہ اساتذہ کا حق نہیں؟

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2016
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

رضوانہ نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی، اور چوں کہ اسے خاندان سے زیادہ تر اقسام کی نوکریوں کی اجازت نہیں تھی، لہٰذا اس نے گھر کے پاس ہی ایک اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔

اسے پڑھانا پسند ہے، اور اس کی تنخواہ سے گھر کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں، چنانچہ گھر والوں کا خیال تھا کہ اس کی شادی ہونے تک یہ اچھی مصروفیت رہے گی۔

رضوانہ 7:30 بجے اسکول کے لیے گھر سے نکلتی ہے؛ اسکول کے اوقات 8 بجے سے دوپہر 1 بجے تک ہیں، اور وہ پونے دو بجے گھر پہنچ جاتی ہے۔ گھر پر وہ کچھ گھنٹے بچوں کا ہوم ورک چیک کرتی ہے اور پھر اگلے دن کی کلاسوں کی تیاری کرتی ہے۔

اسکول اسے ماہانہ 5,000 روپے ادا کرتا ہے، جس میں سے 1,500 روپے وہ اسکول آنے جانے کے لیے وین ڈرائیور کو دیتی ہے۔

بھلے ہی رضوانہ یہ جانتی ہے کہ اس کی تنخواہ کافی کم ہے، مگر اس نے اس صورتحال کو قبول کر لیا ہے کیوں کہ اس کے پاس اور کوئی انتخاب ہے نہیں، اور اسکول اسے اس سے زیادہ تنخواہ دے گا نہیں۔ مگر وہ ہمیشہ استانی نہیں رہے گی۔ وہ نہیں جانتی کہ شادی کے بعد اسے کام کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں، پر اگر اجازت ہوئی بھی تو اسے لگتا ہے کہ اتنی کم تنخواہ ٹیچنگ میں کریئر جاری رکھنے کے لیے ناکافی ہوگی، لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ وہ شادی کے بعد گھر پر رہے اور اپنے بچوں پر توجہ دے۔

پڑھیے: اساتذہ کا عالمی دن اور پاکستان کی صورت حال

مگر شاہین کی صورتحال رضوانہ سے کافی مختلف ہے۔ شاہین شادی شدہ ہے، اس کے دو بچے ہیں، اس کا شوہر ایک سرکاری ادارے میں کلرک ہے، جبکہ وہ ایم ایڈ کی ڈگری رکھتی ہے اور زیادہ فیس لینے والے ایک نجی اسکول میں پڑھاتی ہے۔ شاہین کی ماہانہ تنخواہ 10,000 روپے ہے، اور ٹرانسپورٹ و دیگر اخراجات کے بعد اسے 8,000 روپے کی بچت ہوتی ہے۔

شاہین کو لگتا ہے کہ میاں بیوی کی کل وقتی ملازمت کے باوجود وہ اپنے بچوں کو ایک اچھی زندگی نہیں دے پا رہے، اور انہیں کئی چیزوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، جس میں ان کی اپنی صحت، اور اپنے ساس سسر کی دیکھ بھال شامل ہے۔ وہ خرچے کے ڈر سے ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اور کم سے کم خرچ میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں؛ ضروریاتِ زندگی کے علاوہ کسی چیز پر خرچ نہیں کرتے۔

اسے لگتا ہے کہ اس کے بچے بھی سیر و تفریح کے مستحق ہیں، مگر وہ اس کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔

شاہین کو ٹیچر ہونے پر کوئی افسوس نہیں ہے — "میں اور کیا کرتی؟" مگر اسے یہ لگتا ہے کہ ٹیچنگ ایک ایسا شعبہ ہے، جو ٹیچروں اور ان کے گھرانوں کو ایک باعزت زندگی نہیں دے سکتا۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی اور بیٹا بڑے ہونے پر کچھ اور کریں۔ "وہ ڈاکٹر بنیں، انجینیئر بنیں، کمپیوٹر سائنس میں جائیں۔ ٹیچنگ انہیں کچھ نہیں دے گی۔"

تمام صوبائی حکومتوں نے گذشتہ دہائی کے دوران سرکاری اساتذہ کی تنخواہیں بڑھائی ہیں۔ بھلے ہی تنخواہیں اساتذہ کو متوسط طبقے کی زندگی دینے جتنی نہیں ہیں، مگر پھر بھی اتنی ضرور ہیں کہ بنیادی معیارِ زندگی کو یقینی بنا سکیں۔ مگر دوسری جانب نجی اسکولوں کی تنخواہیں، جنہیں مارکیٹ پر چھوڑ دیا گیا ہے، بہت ہی کم ہیں۔ انتہائی اونچے درجے کے نجی اسکولوں کی تنخواہیں سرکاری اساتذہ سے بھی زیادہ ہیں، مگر ایسے اونچے درجے کے اسکول نجی اسکولوں کی مکمل تعداد کا ایک بہت ہی تھوڑا حصہ ہیں۔

ملک کے زیادہ تر نجی اسکول نچلے سے لے کر درمیانے درجے تک فیس وصول کرتے ہیں۔ ان اسکولوں میں تنخواہوں کا انحصار فیس اور لوکیشن پر ہوتا ہے۔ اساتذہ کی تنخواہیں 2,000 روپے سے لے کر 15,000 روپے تک ہوسکتی ہیں۔ اس طرح کے اسکولوں میں 15,000 سے 20,000 روپے سے زائد تنخواہ بہت ہی نایاب ہے۔

مزید پڑھیے: انتخابات کے لیے اساتذہ کی ہی ڈیوٹی کیوں؟

ایک استاد آخر کیسے 10,000 روپے میں گزارہ کرے اور اپنے خاندان کی دال روٹی کا بندوبست کرے؟ کچھ حالیہ تحقیقات کے مطابق ایک گھرانے کو بنیادی معیارِ زندگی کے لیے کم سے کم 17,000 سے 20,000 روپے ماہانہ درکار ہوتے ہیں۔

40 گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے پر ملنے والی کم سے کم اجرت بھی صرف 13,000 سے 14,000 روپے ماہانہ ہے۔ نجی اسکولوں کے اساتذہ اس قانون سازی میں شامل کیوں نہیں ہیں؟ خیبر پختونخواہ میں اساتذہ کو 'مزدوروں' کے زمرے سے نکال دیا گیا ہے جن پر کم سے کم اجرت کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

پنجاب میں بھلے ہی قانون اساتذہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے، مگر صوبائی حکومت قانون پر عملدرآمد نہیں چاہتی۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے اسکولوں میں بھی پی ای ایف اور حکومتِ پنجاب کم سے کم اجرت کا قانون اساتذہ پر لاگو نہیں کرنا چاہتی۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اساتذہ اسکول میں صرف پانچ سے چھے گھنٹے کے لیے ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر کم سے کم اجرت کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مگر اساتذہ اسکول کے بعد اپنے گھر پر بھی کام کرتے ہیں، ہوم ورک چیک کرتے ہیں، اور کلاسوں کی تیاری کرتے ہیں۔ ان سب چیزوں کو مدِنظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟ پڑھانا ایک کل وقتی کام ہے؛ اسکول میں گزارے ہوئے وقت کی بناء پر یہ فیصلہ کیوں کیا جائے کہ اساتذہ کتنا کام کرتے ہیں؟


کیا ہم ٹیچنگ کو ایسا "پروفیشن" بنانا چاہتے ہیں جس میں مالی فوائد ہوں اور جو لوگوں کو اپنی جانب کھینچ سکے؟ یا پھر ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف وہ لوگ اساتذہ بنیں جن کے پاس اور کوئی انتخاب نہیں ہوتا؟ اور کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اساتذہ کل وقتی ملازمت کے باوجود غریب ہی رہیں؟


ایک سرکاری اسکول میں بچوں کو پڑھانے پر حکومت کا جتنا خرچہ ہوتا ہے، کم فیس والے اسکولوں میں اس سے کم ہوتا ہے، مگر اس کم خرچ کی وجہ دونوں طرح کے اسکولوں میں اساتذہ کی تنخواہوں میں موجود فرق ہے۔ اگر ہم ایسے اسکولوں کو کم سے کم اجرت کا پابند کر دیں، تو یا تو وہ اپنی فیسیں بڑھا دیں گے، یا پھر اگر اس علاقے کے لوگ زیادہ فیس نہیں دے سکتے، تو وہ اسکول بند کر دیں گے۔

پڑھیے: ہم اساتذہ کی عزت کب کریں گے؟

یہ متوقع صورتحال حکومت کو اساتذہ کی بھلائی کے لیے مداخلت کرنے سے روکتی ہے۔ ہاں یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے جس پر احتیاط سے غور کیا جانا چاہیے، مگر اس کو وجہ بنا کر اساتذہ کو ان کے حال پر چھوڑ نہیں دینا چاہیے۔

ہمیں بحیثیتِ معاشرہ یہ جاننا ہوگا کہ ہمارے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کس کے ذمے ہیں۔ اگر ہم آئین کی شق 25 (الف) کے تحت کیے گئے وعدے پر عمل کریں، تو یہ حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

پر اس وقت ہم یہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کریں، اور معاشرہ اس کے اخراجات بھی ادا نہ کرے۔ نتیجہ نجی شعبے میں اساتذہ کے استحصال کی صورت میں نکلتا ہے۔


لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 اکتوبر 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

Abid Oct 07, 2016 03:02pm
Shukar hai kisi ne teacher K Mutalaq b likha.
Kiren Oct 07, 2016 07:27pm
Very right about teachers.
Kiren Oct 07, 2016 07:31pm
writer write very well about teachers.
Inder Kishan Thadhani Oct 07, 2016 10:32pm
سرکاری سطح پر بھی ٹیچرز کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ سندھ سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 200 سے 300 فیصد اضافہ اور ساتھ ہی ہائوس رینٹ کی مد میں بھاری رقوم (ایک لاکھ روپے تک) بڑھائی گئی ہیں تو سرکاری ٹیچرز کا ہائوس رینٹ 4480 روپے ہے۔ بیوروکریٹس نہیں چاہتے کہ ڈی پی سی ہو کیونکہ ہوئی تو ٹیچرز بھی 20 یا 21 گریڈ تک ریٹائر ہو سکیں گے، مراعات لیں گے، عہدے بھی شاید ملیں انہیں۔ اسی لیے ڈی پی سی نہیں ہوتی۔ پاس ہونے والے اسٹوڈنٹس میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اس بات کا اعتراف کریں کہ کراچی کے سرکاری کالجوں میں پڑھنے والے اسٹوڈنٹس کی ایک بڑی تعداد خود ہی کالج جانا پسند نہیں کرتی، سوشل میڈیا اور کمپیوٹر کے رات دیر تک استعمال کی وجہ سے جو اسٹوڈنٹس صبح سویرے اٹھ نہیں پاتے وہ قصور وار ٹیچرز کو قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ کوچنگ جوائن کرتے ہیں، پڑھتے ہیں، پیسے دے کر پاس ہوتے ہیں، پھر الزام ٹیچرز پر ۔۔ میڈیا کو ایسی باتیں چھاپنے سے پہلے ٹیچرز کا موقف معلوم نہیں کرنا چاہئے؟
sheen Oct 07, 2016 11:54pm
hamaray mulk ka almia ye he k jab koi har field me fail ho jata he to wo teacher ban jata he (mostly). teachers society k builders hote hn but unfortulately teachers ki salary itni kam hoti he k isay ziada tar last option k tor py rakha jata he.
Naveed Chaudhry Oct 08, 2016 12:08am
Assalam O Alaikum, This is one sided story. Yes teachers or for that matter everbody should be gauranteed a minimum wage but above that we should leave it to market. Secondly most of the teacher are earnning more by tutions. I personaly know atleast one person who was earnning modest income working in accounts department and left it to become full time tutor and started earnning way more than his officers. But still I am in favor of atleast a minimum wage for everybody.
shahid sulamna Oct 08, 2016 02:50pm
Excellent write up! the way you depict is really impressive. i even force on this thing on onside we have fixed minimum wages 14,000 but on the other hand private school pays 2000-10000 to school teacher and no one here to take action against this kind of corruption. where is Labour law? where the human rights ticon ?
nabeel Oct 08, 2016 03:30pm
But if school is in a c grade area and charging fees only 300 to 500, with a strength of 100 to 150 students or even less . How; your science of minimum salary apply???
Inder Kishan Thadhani Oct 10, 2016 09:04pm
@nabeel اس کیلئے پڑھے لکھے یا فرسٹ ورلڈ کنٹریز میں لائسنس کا طریقہ کار رائج کیا گیا ہے۔ جس کے پاس ہوگا، وہی ٹیچر بن سکے گا۔ لیکن ہمارے یہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ انٹر پاس لڑکے لڑکیاں صرف اپنا خرچہ نکالنے کیلئے اسکولوں میں لگ جاتے ہیں پڑھانے، نہ ٹریننگ، نہ درست معلومات، اور اسکلز کے حوالے سے بھی مشکوک۔ ضروری نہیں کہ سب اس طرح پڑھانے والے ڈفر ہوں یا ان کے پاس ہنر کی کمی ہو۔ لیکن اکثریت کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسا ہی کوئی لائسنس سسٹم نافذ کرے تاکہ جن کے پاس ہو صرف وہی بچوں کو پڑھا سکیں ورنہ تو ایسے سب ہی ہاتھ صاف کرتے رہیں گے۔ ویسے انٹر پاس لڑکے لڑکیوں میں سے کتنوں کو معقول انگریزی آتی ہے؟ کیا وہ جس کلاس کے بچوں کو پڑھا رہا ہوتا ہے وہ صحیح پڑھاتا ہے؟