Dawn News Television

شائع 01 فروری 2017 05:06pm

کیا پاکستانی غیر مسلم مہاجرین کو امریکیوں کی طرح خوش آمدید کہیں گے؟

لکھاری وکیل ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹیکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔

27 جنوری 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکمنامہ جاری کیا جس کے تحت سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

اس نوّے روزہ پابندی کی زد میں جو ممالک آئے ہیں، وہ ایران، عراق، یمن، صومالیہ، شام، سوڈان اور لیبیا ہیں؛ اس کے علاوہ تمام شامی مہاجرین پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مبہم الفاظ والے اس حکمنامے سے یہ واضح نہیں ہے کہ امریکا کے مستقل طور پر قانونی رہائشی (حاملِ گرین کارڈ) افراد اس پابندی میں شامل ہیں یا نہیں۔

میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کی روایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان متاثرہ ممالک کو آگاہ کیا، بلکہ اپنے نظامِ عدالت اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کو بھی آگاہ نہیں کیا کہ ایسی کوئی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ امریکی بارڈر حکام جنہوں نے اس قانون پر عمل کروانا تھا، انہیں بھی اس قانون کے بارے میں تب تک معلوم نہیں تھا جب تک کہ صدر نے اس پر دستخط نہیں کر دیے۔

پابندی عائد کیے جانے کے بعد کے دنوں میں جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ پوری دنیا کی نظروں میں ہے۔ جس رات قانون پر دستخط کیے گئے، اسی مظاہرین کے ہجوموں نے امریکی ایئرپورٹس کا گھیراؤ کر لیا۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر مہاجرین کو خوش آمدید کہتے نعرے درج تھے۔

شہری آزادیوں کے لیے کوشاں امریکی غیر سرکاری تنظیم امیریکن سول لبرٹیز یونین نے ویزا رکھنے والے غیر ملکیوں کے ملک میں داخلے پر پابندی اور ملک بدر کیے جانے کے خلاف مقدمات دائر کیے، اور جیتے بھی۔

اب وکلاء کی کئی ٹیمیں بڑے امریکی ایئرپورٹس پر جمع ہیں جو امریکی عدلیہ کے احکامات کے باوجود حراست میں رکھے جانے والے غیر ملکیوں کو قانونی امداد فراہم کر رہے ہیں۔

نیویارک میں کانگریس کے نمائندگان نے گھنٹوں انتظار کیا تاکہ ایئرپورٹ پر حراست میں رکھے گئے تمام افراد کو چھوڑ دیا جائے۔ اتوار کی شام تک ایسا محسوس ہوا جیسے وائٹ ہاؤس اور ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی پیچھے ہٹ رہے تھے، کیوں کہ وضاحت جاری کی گئی کہ پابندی کا اطلاق گرین کارڈ رکھنے والوں پر نہیں ہوگا۔ مگر یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ آیا صدارتی حکمنامے کے اصل متن میں تبدیلی کرتے ہوئے اس نئی تشریح کی گنجائش پیدا کی جائے گی یا نہیں۔

امریکا جیسے مظاہرے یورپ میں بھی دیکھے گئے۔ یورپ کے کئی شہروں میں ہفتے اور اتوار کے دن مہاجرین اور تارکینِ وطن، اور ان کی حمایت میں کھڑے امریکی مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے گئے۔

کینیڈین وزیرِ اعظم نے پابندی کی مذمت کرتے ہوئے ان افراد کو عارضی طور پر کینیڈا میں پناہ فراہم کرنے کا اعلان کیا جنہیں امریکا سے واپس بھیجا جا رہا تھا۔ پیر کے روز برطانوی وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے مظاہرہ کیا گیا، جس میں شامل مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ برطانوی وزیرِ اعظم تھیریسا مے امریکی صدر کے حکمنامے کی مذمت کریں۔ یہاں تک کہ اسرائیلی شہریوں نے بھی تل ابیب کی سڑکوں پر امریکا کی مسلمانوں پر پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا۔

اور ایک ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اتوار کے روز صدر ٹرمپ نے کئی عالمی رہنماؤں کو فون کیے۔ اس میں دوسروں کے ساتھ سعودی فرماں روا بھی شامل تھے۔ ٹیلی فون کال کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے شامی جنگ سے دربدر ہونے والوں کے لیے شام میں ہی ایک محفوظ علاقہ بنانے پر بھی غور کیا گیا۔

دونوں رہنماؤں نے مسلمانوں پر اس پابندی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ اور اگر بات کی بھی گئی تھی، تو بھی امریکی یا سعودی سرکاری ذرائع نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے جمعے کے واقعات، امریکا کے ایئرپورٹس پر ہزاروں افراد کو گھنٹوں تک حراست میں رکھنے، ان کی حمایت میں مظاہرے، اور دنیا بھر میں اس بات پر شور و ہنگامہ ہوا ہی نہیں۔

یہ تضاد ان سوالوں کو جنم دیتا ہے جن پر مسلمان ملکوں کے کم ہی لوگ غور کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بااثر ترین اور امیر ترین مسلم ممالک کس قدر خود غرض ہیں۔ اس وقت جب عام امریکی سخت ترین سردی میں اس چیز کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے جو ان کے نزدیک ناانصافی تھی، مسلم حکمرانوں نے اس مسئلے کو ذرا بھی قابلِ توجہ نہیں سمجھا۔

دوسری جانب امریکی شہری اپنے نام پر کسی سے بھی قومیت اور مذہب کی بناء پر تفریق کی اجازت دینے کے لیے راضی نہیں تھے۔ جب جب تارکینِ وطن امریکی ایئرپورٹس کے محفوظ حصوں سے نکل کر لاؤنج میں پہنچ رہے تھے، تو اجنبیوں کے مجمعے انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔

ویسے تو پاکستانی اب تک پابندی کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، لیکن غالب امکان یہی ہے کہ ایسا جلد ہوگا۔ اس سے وہ تمام پاکستانی متاثر ہوں گے جو فی الوقت امریکا میں پڑھ رہے ہیں، میڈیکل تربیت حاصل کر رہے ہیں یا کام کر رہے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ پابندی، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پابندی ایک امتیازی قانون ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ لاکھوں معصوم اور بے گناہ مسلمان اس کی قیمت ادا کریں گے۔

امکان ہے کہ پاکستانی بھی ان میں شامل ہوں۔ طلباء اور سائنسدان اور وہ تمام وائٹ کالر لوگ جو پاکستان بیرونِ ملک برآمد کرتا ہے، انہیں یہ اپنے ساتھ زیادتی محسوس ہوگی۔

اور ان کا دعویٰ درست بھی ہوگا؛ کیوں کہ بہرحال مذہب کی بنآء پر تفریق ہمیشہ غلط ہے، چاہے جو بھی ملک ایسا کرے۔ لیکن اس وقت جب پاکستانی امریکی اور یورپی ممالک کی جانب سے ویزا درخواستیں مسترد کرنے کے خلاف ایسا سمجھتے ہیں، اسی وقت وہ اپنے ملک میں موجود ایسے ہی مسائل کے خلاف سخت مؤقف اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اگر ایک دہشتگرد کی وجہ سے تمام پاکستانی دہشتگرد نہیں قرار دیے جا سکتے، تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کئی اسرائیلی ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کے حامی ہوں؟

لیکن پھر بھی پاکستانی یا تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، یا اس حقیقت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھانا چاہتے کہ کوئی بھی اسرائیلی شہری (چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو)، پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح سے یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ اتنے ہی پاکستانی شہری ایئرپورٹس یا سرحدی چیک پوسٹس پر عیسائی یا افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے نظر آئیں۔

مسلمان اور باالخصوص پاکستانی امریکا اور مغرب سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہیں، اور خود اپنے ممالک میں کس سلوک پر عمل پیرا ہیں، اس میں ایک خلیج موجود ہے، اور اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اگر مذہب کی بناء پر تفریق غلط ہے، اگر سرحدوں پر لگائی گئی پابندیاں ظالمانہ ہیں، تو وہ تفریق اور وہ پابندیاں بھی ظالمانہ ہیں جو ہم خود لگاتے ہیں۔

نفرت، چاہے ملک میں ہو یا ملک سے باہر، ایک زہریلا عفریت ہے۔ سرحدیں بند کرنا اور کچھ غلط لوگوں کی وجہ سے تمام پر پابندیاں لگانا ہمیشہ غلط ہے، نہ یہاں، نہ وہاں، بلکہ ہر جگہ۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 فروری 2017 کو شائع ہوا۔

Read Comments