فلم ریویو: ’وکٹوریہ اور عبدل‘
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے اوراق جب بھی پلٹے جائیں، تو جبر، تشدد، قبضہ، تعصب، بے ایمانی اور ظلم کے ان گنت مناظر ہمیں جا بجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں، انگریز جب نو آبادیوں پر قابض ہوئے، تو انہوں نے محبت اور بھائی چارے کی ہر آواز کو خاموش کرا دیا۔
اس تعصب اور تناؤ کے ماحول میں، جہاں آزادی سلب اور ہر شے چھینی جا رہی تھی، ہزاروں میل دور برطانوی محل میں، ایک ہندوستانی مسلمان ملازم پر ملکہ برطانیہ نے اپنی شفقت نچھاور کی، وہ شفقت اور احترام، جس سے برصغیر کے مسلمانوں کو محروم کر دیا گیا تھا۔ اقتدار سے اقدار تک کی کہانی، جس میں عقیدت اور محبت ایسا مرکزی احساس تھا، جس نے دونوں طرف کے دلوں کو تسخیر کیا۔
تاریخ کے اس سچے منظرنامے کو فلم کے پردے پر دکھایا گیا ہے۔
مرکزی خیال:
ابتدائی طور پر تحقیق کے میدان میں، اس سچی کہانی کے خدوخال مغربی محققین نے بازیافت کیے، اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئیں۔ 2004 میں بی بی سی اردو سروس کے براڈ کاسٹراور معروف پاکستانی قلم کار’’رضا علی عابدی‘‘ نے بھی، اسی موضوع پر اردو زبان میں’’ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر کتاب لکھی، جس میں ان دونوں کے مابین عقیدت کے رشتے، ملکہ کی اردو زبان میں دلچسپی اور برطانوی بادشاہت کے درباری معاملات کو بیان کیا گیا۔ اس طرح مختلف مورخین نے اپنی تحقیق میں ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم کے درمیان تعلق کو از سر نو دریافت کیا، جس پر فراموشی کی دھول پڑچکی تھی۔