فلم ریویو: ’وکٹوریہ اور عبدل‘

14 اکتوبر 2017
فلم ’وکٹوریہ اور عبدل‘ برصغیر اور برطانیہ کے مابین خوبصورت مراسم کا ایک عہد ہے —۔
فلم ’وکٹوریہ اور عبدل‘ برصغیر اور برطانیہ کے مابین خوبصورت مراسم کا ایک عہد ہے —۔

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے اوراق جب بھی پلٹے جائیں، تو جبر، تشدد، قبضہ، تعصب، بے ایمانی اور ظلم کے ان گنت مناظر ہمیں جا بجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں، انگریز جب نو آبادیوں پر قابض ہوئے، تو انہوں نے محبت اور بھائی چارے کی ہر آواز کو خاموش کرا دیا۔

اس تعصب اور تناؤ کے ماحول میں، جہاں آزادی سلب اور ہر شے چھینی جا رہی تھی، ہزاروں میل دور برطانوی محل میں، ایک ہندوستانی مسلمان ملازم پر ملکہ برطانیہ نے اپنی شفقت نچھاور کی، وہ شفقت اور احترام، جس سے برصغیر کے مسلمانوں کو محروم کر دیا گیا تھا۔ اقتدار سے اقدار تک کی کہانی، جس میں عقیدت اور محبت ایسا مرکزی احساس تھا، جس نے دونوں طرف کے دلوں کو تسخیر کیا۔

تاریخ کے اس سچے منظرنامے کو فلم کے پردے پر دکھایا گیا ہے۔

مرکزی خیال:

ابتدائی طور پر تحقیق کے میدان میں، اس سچی کہانی کے خدوخال مغربی محققین نے بازیافت کیے، اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئیں۔ 2004 میں بی بی سی اردو سروس کے براڈ کاسٹراور معروف پاکستانی قلم کار’’رضا علی عابدی‘‘ نے بھی، اسی موضوع پر اردو زبان میں’’ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر کتاب لکھی، جس میں ان دونوں کے مابین عقیدت کے رشتے، ملکہ کی اردو زبان میں دلچسپی اور برطانوی بادشاہت کے درباری معاملات کو بیان کیا گیا۔ اس طرح مختلف مورخین نے اپنی تحقیق میں ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم کے درمیان تعلق کو از سر نو دریافت کیا، جس پر فراموشی کی دھول پڑچکی تھی۔

2010 میں شائع ہونے والی ایک کتاب’’وکٹوریہ اور عبدل‘‘ جس کی مصنفہ ہندوستانی صحافی اور محقق’’شرابانی باسو‘‘ ہیں، انہوں نے تحقیق کے بعد اس موضوع پر مزید کچھ اضافے کیے ہیں۔ برطانوی ڈراما نگار اور کہانی نویس ’’لی ہال‘‘ نے اسی بھارتی صحافی کی کتاب کو بنیاد بنا کر فلم کا اسکرپٹ لکھا ہے۔ کہانی اور کردار ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط اور پیوست ہیں، جس کی وجہ سے ایک لمحہ کے لیے بھی دھیان کسی دوسری طرف نہیں جاتا، مکالمے بھی آپس میں خوب گندھے ہوئے ہیں، یہی اس کہانی کا کمال ہے، جس کے لیے برطانوی اسکرپٹ نویس تعریف کے حق دار ہیں۔

کہانی:

یہ وہ دور ہے، جب ملکہ وکٹوریہ اپنے شوہر مسٹر براؤن کے انتقال کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ برطانوی محل میں سکونت پذیرہوتی ہیں۔ 1887 کو جب وہ اپنی حکمرانی کے 50 سال پورے کر لیتی ہیں، تو گولڈن جوبلی کے تناظر میں تقریبات کا سلسلہ جاری ہوتا ہے، ایسے میں ایک مرکزی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس کے انتظامات انگریز افسران اور ملازمین کے سپرد تھے، اس میں بے حد خصوصی مہمان بھی شامل تھے، اسی موقع پر ہندوستان سے دو ملازم بھی مدعو کیے گئے، جن کے نام محمد بخش اور عبدالکریم تھے۔ ملکہ وکٹوریہ کو عبدالکریم کی تہذیبی شخصیت اور انداز گفتگو دل کو بھا جاتا ہے، وہ انہیں ترقی دے کر اپنا منشی یعنی استاد مقرر کرتی ہیں، جس سے وہ اردو زبان سیکھتی اوردین اسلام کو سمجھتی ہیں۔

ہندوستانی ثقافت اور تہذیب کے بارے میں بھی ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس ماحول میں مقامی انگریز ملازم اور خاندان کے دیگر افراد بشمول ملکہ کے صاحب زادے، بعد میں برطانیہ کے حکمران بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کو منشی کا یہ رتبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا، وہ کئی تراکیب لڑاتے ہیں، جن سے منشی کو محل سے رخصت مل جائے، مگر ہر طلوع ہونے والا دن منشی کے حق میں ہوتا ہے۔ آخر کار دو تہذیبوں کا یہ سنگم، ایک شاندار، عقیدت سے لبریز اور رومان کی ہلکی پرچھائیوں میں ایسا پروان چڑھتا ہے کہ تاریخ میں اپنے سنہری نقوش چھوڑتا ہے۔ اس تعلق کو، اس وقت برطانیہ میں ناپسندیدہ مراسم کے طور پر دیکھا گیا مگر دو انسانوں کے مابین یہ اقدار کی شاندار بنیاد تھی، جس کی خالق ملکہ وکٹوریہ تھیں۔

فلم سازی:

اس فلم کے بارے میں بھی یہی تصورکیا جا رہا ہے کہ 1997 میں بننے والی فلم ’’مسز براؤن‘‘ کا سیکوئل ہے، کیونکہ وہ فلم بھی ملکہ وکٹوریہ کی سوانح سے متعلق تھی، اوراس میں بھی مرکزی کردار Judi Dench نے ادا کیا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کی رحلت کے بعد، ان کی شخصیت اور زندگی کے مختلف ادوار پر فلمیں بنتی رہی ہیں۔ یہ فلم بھی برطانوی تاریخ اور ثقافت کے زمرے میں بنائی جانے والی ایک پیشکش ہے، یہی وجہ ہے، اس کی فلم سازی میں چار ادارے شامل ہیں، جن میں بی بی سی فلمز سمیت تین برطانوی اور ایک چینی فلم ساز ادارہ شامل ہے۔

اسی طرح بالترتیب اس فلم کی چار مرکزی فلم ساز شخصیات ہیں، جن میں Tim Bevan،Eric Fellner،Beeban Kidronاور Tracey Seaward شامل ہیں۔ اس فلم کے تقسیم کاروں میں بھی برطانیہ کی معروف کمپنی ’’یونیورسل پکچرز‘‘اور امریکا کی ’’فوکس فیوچرز‘‘ شریک ہے۔ یہ فلم امریکا اور برطانیہ سمیت بشمول پاکستان، نمائش کے لیے پیش کردی گئی ہے۔ کہانی کو فلمانے کے لیے برطانوی شاہی خاندان کا پرانا محل بھی استعمال کیا گیا، ہندوستانی سرزمین کے مناظر کم ہیں، مگر تاج محل اور آگرے کو فلم کا حصہ بنایا گیا۔ سینماٹوگرافی، کاسٹیومز، سیٹ ڈیزائننگ، گرافک اینڈ ساؤنڈ افیکٹس، ایڈیٹنگ، سمیت تمام تکنیکی پہلوؤں پر چابکدستی سے کام کیا گیا۔ معروف امریکی موسیقار Thomas Newman کی ترتیب دی ہوئی پس پردہ موسیقی نے بھی ناظرین کی سماعت پر اپنے رنگ بکھیرے۔

ہدایت کاری:

اس فلم کے ہدایت کار Stephen Frears ہیں، جن کا شمار برطانوی سینما کے معروف ہدایت کاروں میں ہوتا ہے۔ برطانیہ کا شاہی خاندان اور ملکہ کی شخصیت ان کا مرغوب موضوع ہے، وہ اس سے پہلے بھی 2006 میں کوئن الزبتھ دوم پر’’دی کوئین‘‘کے نام سے ایک فلم بنا چکے ہیں ۔ بی بی سی کے لیے بھی ٹیلی ویژن کے شعبے میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس فلم کو بنانے میں ان کی ماہرانہ ہدایت کاری کو یوں دخل ہے کہ انہوں نے کہانی کی مناسبت سے فنکاروں کے انتخاب، مکالموں کے ساتھ چہرے کے تاثرات، مقامات میں رنگوں کی مناسبت، دو تہذیبوں کے سنگم جیسے باریک پہلوؤں کا خیال رکھا، جس کی وجہ سے فلم سازی میں جان پڑ گئی اور پردے پر ماضی کا وہ مخصوص عہد ایک بار پھر سے بیدارہوگیا۔

اداکاری:

فلم میں مکمل کاسٹ کی تعداد کے بارے میں بات کی جائے، تو فنکاروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے، مگر مرکزی کرداروں میں جنہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو پیش کیا، ان میں معروف برطانوی اداکارہ ’’جوڈی ڈینچ‘‘ ہیں، جنہوں نے ملکہ وکٹوریہ کا کردار نبھایا۔ منشی عبدالکریم کا کردار نبھانے والے فنکار علی فضل ہیں، جن کا تعلق بولی وڈ سے ہے۔ دیگر مرکزی کرداروں کو نبھانے والے فنکاروں میں Eddie Izzard،Tim Pigott-Smith اور عدیل اختر شامل ہیں، جنہوں نے شاندار اداکاری کی، عدیل اختر پاکستانی نژاد برطانوی اداکار ہیں، جبکہ دیگر فنکاروں میں Simon Callow،Michael Gambon اورOlivia Williams نے بھی کمال مہارت سے اپنے کردار نبھائے، لیکن ان سب میں Judi Dench نے کمال کر دیا، شاید یہ ان کی زندگی کی اب تک کی بہترین اداکاری ہے، جس میں انہوں نے خود کو امر کر دیا ہے۔ 82 سالہ اداکارہ نے اس کردار میں ڈھل کر خود کو بام عروج تک پہنچا دیا، یہی وجہ ہے کہ باقی کردار ان کے سامنے کھڑے ہوتے نظر نہیں آئے، جبکہ سب نے اپنے اپنے کرداروں سے انصاف کیا۔

نتیجہ:

یہ فلم پوری دنیا میں باکس آفس پر کامیابی حاصل کررہی ہے، ہر چند کہ کامیابی کی رفتار ذرا دھیمی ہے، مگر سفر جاری ہے۔ اس فلم میں کہانی اور اداکاری دونوں میں بھارت کا بھی حصہ ہے، مگر فلم میں اردو زبان اور مسلمان دانشور کی عزت افزائی، ہندوستانیوں کو پسند نہیں آئی، اس لیے ہندوستانی فلم ناقدین نے اس کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور منفی تبصرے کیے ہیں، البتہ یورپ ،امریکا میں اس فلم کو پسند کیا گیا اور مثبت تبصروں کی تعداد زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی اس فلم کو توجہ مل رہی ہے مگر فلم کی مرکزی زبان انگریزی اور موضوع تاریخ ہے، تو ممکن ہے، پاکستانی فلم بین اس کو اتنی توجہ نہ دیں مگر اردو زبان سے محبت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ یہ فلم ضروردیکھیں۔


لکھاری سے ان کی ای میل [email protected] پر رابطہ کریں

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

najeeb Oct 14, 2017 05:01pm
This film should be dubbed in Urdu and released in Pakistan. This would help to bring intolerance towards non Muslims.
شرلی انجم Oct 14, 2017 06:29pm
بہت عُمدہ
riz Oct 15, 2017 01:23pm
thanks for review,, yes saw indian reviews and thought that its another rubbish but now will watch for sure,,