چولِستان جیپ ریلی کی ریت اور میری زندگی کا اولین بائیک ٹؤر
چولستان جیپ ریلی کی ریت اور میری زندگی کا اولین بائیک ٹؤر
جہاں گردوں کی محفلوں میں اکثر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ سیاحت کے لیے سب سے بہترین سواری کیا ہے؟
مندرجہ بالا سوال کے کئی جواب پیش کیے جاتے ہیں۔ ہوائی جہاز پسند کرنے والا دلیل دیتا ہے کہ اِس سے دور دراز کے فاصلے کم وقت میں طے ہو جاتے ہیں، جبکہ اِس کے مخالف کہتے ہیں کہ یہ ذریعہ مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کو زمین سے دور کر دیتا ہے، اور زمین سے دور ہونا سیاحت کی روح کے منافی ہے۔ ریل گاڑی کی حمایت کرنے والا اُس کے آرام دہ ہونے کی دلیل دیتا ہے۔ بسوں میں سفر کے شوقین اُس کی آسانیوں کی بات کرتے ہیں، ذاتی گاڑی سے سفر کرنے کا حامی اپنی من مرضی کی سیاحت کے گن گاتا ہے۔
لیکن اِن میں مجھے جو سب سے توانا آواز لگتی ہے، وہ بائیک ٹؤرسٹ کی ہے۔ کم خرچ اور بالا نشیں۔ ماحول کا حصہ بنے ہوئے ہوا کے ساتھ اُڑے جا رہے ہیں۔ ایک آزاد ذریعہءِ سفر، جہاں چاہے رُک گئے، جہاں موڈ ہوا رستہ بدل لیا، جس جگہ دل نے کہا پلٹ گئے۔ تنگ گلیاں، محدود راستے، پہاڑوں کی پگڈنڈیاں، کھیتوں کی مُنڈیریں، نہروں کی پٹریاں، سمندروں کے ساحل، صحراؤں کہ بیابان، شہر ہوں کہ ویرانے، ایک موٹر سائیکل سوار کے لیے یہ ساری جولان گاہیں دامن پھیلائے حاضر رہتی ہیں اور وہ آزادانہ اِن سب جگہوں پر گھوم پھر سکتا ہے۔
بائیک ٹؤرزم سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف صحرائے چولستان میں ہوا۔ 2016 کا فروری مہینہ تھا جب مجھے پہلی بار چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی دیکھنے کا موقع ملا۔ ٹؤرزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب (TDCP) کے زیرِ اہتمام یہ جیپ ریلی 2005 سے ہر سال صحرائے چولستان میں قلعہ دراوڑ سے شروع ہوتی ہے۔ ملک بھر سے سینکڑوں گاڑیاں اِس ایڈوینچر میں شرکت کرتی ہیں اور جی دار لوگ اپنی اولوالعزمی کا انعام پاتے ہیں۔