’ایسی ہولی پاکستان میں کم از کم میں نے تو کبھی نہیں دیکھی‘
’ہولی کے دن دل کھل جاتے ہیں‘
بہار کی آمد کے ساتھ ہی ہندو برادری رنگوں کا تہوار ہولی مناتی ہے۔ ہولی منانے کا مقصد سچ کی فتح اور جھوٹ کی شکست کا جشن بھی ہے۔
اس تہوار کی آمد سے ایک ماہ قبل ہندو اکثریت والے علاقوں میں پلی (جلوس) نکلنے شروع ہوتے ہیں جو شہر کے مختلف علاقوں، گلیوں اور بازاروں کا گشت کرتے ہیں جن میں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس میں مختلف دھنوں پر نقارے بجاتے لوگ بھجن گاتے ہیں۔ ٹھاکر برادری کے لوگ ہولی کے دن تلواروں سے رقص کرتے ہیں جن کا مخصوص لباس اور رنگین پٹکہ ہولی کی خوشیاں دوبالا کردیتا ہے۔
ہولی منانے کا مقصد ہولیکا پر پہلاج کی فتح کا جشن منانا ہے۔ پہلاج ہرنیا کشیپو نامی اوتار کا بیٹا اور ہولیکا کا بھتیجا تھا۔ پہلاج بھگوان وشنو کا چاہنے والا تھا جبکہ ہرنیا کشیپو، جو بھگوان برہما سے موت کے خلاف تحفظ پا کر نہایت مغرور ہو گیا تھا، اور پہلاج کو وشنو جی کی بھکتی سے روکا کرتا تھا۔
کہتے ہیں کہ ہولیکا کے پاس ایک چادر تھی جو اسے آگ سے محفوظ رکھتی تھی۔ ہولیکا آگ میں نہایا کرتی تھی۔ ہرنیا کشیپو نے ہولیکا سے کہا کہ پہلاج کو بھی اس آگ میں نہلا دو، وہ مرجائے گا مگر اُس دن کام اُلٹا ہوگیا۔ چادر اُڑ کر پہلاج پر آگری جس سے پہلاج تو زندہ بچ گئے مگر ہولیکا راکھ ہوگئی۔ اسی اثناء میں وشنو جی نے انسان اور شیر کا درمیانی روپ دھار کر ہرنیا کشیپو کو ہلاک کردیا۔ اسے سچ کی فتح اور جھوٹ، مکاری اور دھوکے بازی کی شکست قرار دیا گیا اور اسی خوشی میں یہ تہوار منانا شروع کیا گیا جو سلسلہ صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔