’ایسی ہولی پاکستان میں کم از کم میں نے تو کبھی نہیں دیکھی‘

’ہولی کے دن دل کھل جاتے ہیں‘

سنجے سادھوانی

بہار کی آمد کے ساتھ ہی ہندو برادری رنگوں کا تہوار ہولی مناتی ہے۔ ہولی منانے کا مقصد سچ کی فتح اور جھوٹ کی شکست کا جشن بھی ہے۔

اس تہوار کی آمد سے ایک ماہ قبل ہندو اکثریت والے علاقوں میں پلی (جلوس) نکلنے شروع ہوتے ہیں جو شہر کے مختلف علاقوں، گلیوں اور بازاروں کا گشت کرتے ہیں جن میں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس میں مختلف دھنوں پر نقارے بجاتے لوگ بھجن گاتے ہیں۔ ٹھاکر برادری کے لوگ ہولی کے دن تلواروں سے رقص کرتے ہیں جن کا مخصوص لباس اور رنگین پٹکہ ہولی کی خوشیاں دوبالا کردیتا ہے۔

ہولی منانے کا مقصد ہولیکا پر پہلاج کی فتح کا جشن منانا ہے۔ پہلاج ہرنیا کشیپو نامی اوتار کا بیٹا اور ہولیکا کا بھتیجا تھا۔ پہلاج بھگوان وشنو کا چاہنے والا تھا جبکہ ہرنیا کشیپو، جو بھگوان برہما سے موت کے خلاف تحفظ پا کر نہایت مغرور ہو گیا تھا، اور پہلاج کو وشنو جی کی بھکتی سے روکا کرتا تھا۔

کہتے ہیں کہ ہولیکا کے پاس ایک چادر تھی جو اسے آگ سے محفوظ رکھتی تھی۔ ہولیکا آگ میں نہایا کرتی تھی۔ ہرنیا کشیپو نے ہولیکا سے کہا کہ پہلاج کو بھی اس آگ میں نہلا دو، وہ مرجائے گا مگر اُس دن کام اُلٹا ہوگیا۔ چادر اُڑ کر پہلاج پر آگری جس سے پہلاج تو زندہ بچ گئے مگر ہولیکا راکھ ہوگئی۔ اسی اثناء میں وشنو جی نے انسان اور شیر کا درمیانی روپ دھار کر ہرنیا کشیپو کو ہلاک کردیا۔ اسے سچ کی فتح اور جھوٹ، مکاری اور دھوکے بازی کی شکست قرار دیا گیا اور اسی خوشی میں یہ تہوار منانا شروع کیا گیا جو سلسلہ صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔

کراچی — اے ایف پی
کراچی — اے ایف پی

کراچی — اے ایف پی
کراچی — اے ایف پی

زندگی کے 22 سال گزر چکے ہیں، ان سالوں میں ایسی کوئی ہولی نہیں آئی جو بھرپور طریقے سے نہ منائی ہو، ہاں البتہ ایک سال ضرور ایسا آیا تھا جب تھر میں کسی نے ہولی نہیں منائی تھی۔ اس کا بھی ذکر ہوگا، مگر پہلے آپ کو پاکستان میں ہولی کے تہوار کے بارے میں مزید بتاتے ہیں۔

مٹھی میں کرشنا مندر کے سامنے ہر سال ڈوڑیلی کے دن مکھن کی مٹکی پھوڑی جاتی ہے ایک دوسرے کو رنگوں میں نہلایا جاتا ہے۔ اس دن مٹھی میں کوئی ہندو یا مسلمان نہیں لگتا کیونکہ جو شخص باہر نظر آتا ہے اسے بھی رنگ سے لال کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی نہ لگانا بھی چاہے تو بھی چھوڑا نہیں جاتا، اس دن سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں کوئی کسی کا لحاظ نہیں کرتا، کیا چھوٹے کیا بڑے، ہندو ہوں یا مسلم، اگر ہولی کے روز کوئی مل گیا تو خیر نہیں۔

مجھے یاد ہے اسلامیہ کالج لاہور کے چند پروفیسر کوئی ریسرچ کرنے مٹھی آئے تھے جو ہمارے صحافی دوست کے گھر مقیم تھے۔ ہولی کا دن تھا اور انہی میں سے ایک پروفیسر صاحب ضد کر بیٹھے کہ ہولی دیکھنی ہے۔ کھاٹاؤ جانی انہیں منع کرتا رہا سمجھاتا رہا کہ باہر نکلیں گے تو لڑکے رنگ سے لال کردیں گے، مگر وہ ہمارے مہمان یہ سمجھ بیٹھے کہ لوگ خیال کریں گے۔

منع کرنے کے باوجود جب نہ مانے تو ہمارے دوست انہیں مندر کی طرف لے گئے۔ انہیں آتے دیکھ کر مختلف جگہوں اور چھتوں پر کھڑے لوگوں نے رنگ پھینکنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ریسرچ کے لیے آئے پروفیسر صاحب رنگوں میں رنگ گئے۔ پھر لوگ قریب آئے اور ان کے چہرے پر مزید رنگ لگا دیے۔ جب وہ واپس جا رہے تھے تو کہنے لگے کہ یہ شہر، یہاں کے لوگ اور یہ ہولی ہمیشہ یاد رہے گی۔

کراچی — پی پی آئی
کراچی — پی پی آئی

کراچی — اے پی
کراچی — اے پی

ویسے بات تو سچ بھی ہے کہ مٹھی جیسی ہولی پاکستان میں کہیں نہیں کھیلی جاتی۔ میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ مجھے صرف ایک سال ایسا یاد ہے جب ہولی نہیں کھیلی گئی تھی، اُس کی وجہ تھر کے لوک موسیقی کے بادشاہ صادق فقیر کا انتقال تھا۔ ہولی سے 12 روز قبل اُن کا مدینہ میں روڈ حادثہ ہوا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ اُن کی میت واپس لانے کے لیے پورے ملک سے آواز اٹھی اور 12 روز بعد اُن کی میت مٹھی پہنچی۔

جس دن صادق فقیر کو سپرد خاک کیا جا رہا تھا اُس سے ایک روز بعد ہولی تھی مگر لوگوں کے چہرے پر مایوسی اور پورے شہر میں سوگ کی فضاء تھی کیونکہ صادق فقیر ہر ہولی پر محفلوں کی رونق ہوتے تھے۔ لوگ انہیں رنگوں سے لال کرتے تو وہ خوش ہوتے تھے۔ شاید انہوں نے سندھی میں یہ گیت خود سمیت پورے شہر کے لیے گایا تھا،

ہولی آئی، ہولی وئی

کہن بہ آسان تہ رنگ نہ ہاریو

(ہولی آئی، ہولی گئی، مگر کسی نے بھی ہم پر رنگ نہیں پھینکا)

لاڑکانہ — پی پی آئی
لاڑکانہ — پی پی آئی

لاڑکانہ — پی پی آئی
لاڑکانہ — پی پی آئی

لاڑکانہ — پی پی آئی
لاڑکانہ — پی پی آئی

خیر تھر میں ابھی تک ہر سال ایسی ہولی ہوتی ہے جو دیکھے دنگ رہ جائے۔ حیدرآباد میں ہولی اُس طرح تو نہیں مگر پھر بھی اچھی کھیلتے ہوئے دیکھی ہے۔ یہ کراچی میں میرا پہلا سال ہے، مگر اس سال بھی کافی عمدہ ہولی کھیلی، ہاں کچھ لوگوں کی بہت یاد آئی جن کے بغیر ہولی ادھوری تھی۔

سندھ اسمبلی وہ اسمبلی ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی تھی۔ آج اسی اسمبلی میں تاریخ میں پہلی بار ہولی کھیلی گئی اور ارکان اسمبلی کے ساتھ صحافیوں نے بھی خوب ہولی کھیلی، ایک دوسرے کو رنگوں میں لال کیا۔ آج یہاں نہ کوئی حکومت تھی نہ اپوزیشن، اور نہ کوئی مرد تھا نہ کوئی خاتون، یہاں سب ہی خوش تھے۔

ہولی کی رسموں کا آغاز مندروں میں پوجا سے ہوتا ہے اور پھر رنگ برنگی ہولی منائی جاتی ہے۔ تقریبات 2 دن تک جاری رہتی ہیں۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے، ہولی کھیلنے میں کوئی کہیں کبھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی بہتر رہی ہے اور کبھی بھی پاکستان میں ہولی کی تقریبات کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ سننے یا دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

مختلف ممالک میں ہولی اپنے انداز سے کھیلی جاتی ہے۔ فلموں میں جو سین ہولی کے نظر آتے ہیں ایسی ہولی پاکستان میں کم از کم میں نے تو کبھی نہیں دیکھی ہاں البتہ مختلف یونیورسٹیز میں ہولی منانا شروع کیا گیا ہے جہاں کے نظارے کسی فلمی سین سے کم نہیں ہوتے۔

کراچی — اے ایف پی
کراچی — اے ایف پی

کراچی — اے ایف پی
کراچی — اے ایف پی

مٹھی — راہول مہیشوری
مٹھی — راہول مہیشوری

مٹھی — راہول مہیشوری
مٹھی — راہول مہیشوری

نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مذہبی تفریق کو بالاتر رکھ کر اس تہوار کو مناتی ہے۔ مجھے ایک ہولی یاد ہے جب میں گھر سے نکلنا نہیں چاہ رہا تھا مگر دوستوں کا گروپ گھر کے باہر آیا اور نعرے بازی شروع کی کہ سنجے کو باہر نکالو، سنجے کو باہر نکالو، مگر میں باہر نہیں نکلا۔ لیکن دوست بھی کہاں باز آنے والے ہوتے ہیں، کچھ دوست دروازہ چھلانگ کر گھر میں کود پڑے اور مجھے میرے کمرے سے نکال کر رنگ میں بھر دیا۔

اگر کوئی ہولی نہ کھیلے تو دوست ایک دوسرے کے ساتھ ایسا ضرور کرتے ہیں۔ بس ایک افسوس کی بات ہے کہ کئی نجی یونیورسٹیز ایسی ہیں جہاں ہولی کے دن چھٹی کے بجائے پرچے اور کلاسز کا اہتمام ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہندو طلبہ کو کچھ مایوسی ضرور ہوتی ہے۔ اس لیے اکثر ہندو طلبہ اداروں سے گزارش کرتے دکھائی دیے ہیں کہ انہیں بھی اپنے تہواروں کے لیے تعطیلات دی جائیں تاکہ وہ بھی بھرپور جوش و جذبے اور امتحانوں کی فکر سے آزاد ہوکر ہولی کے رنگ میں رنگ سکیں۔