دنیا کی بلند ترین چوٹی کو بھی انسانوں نے کچرا کنڈی بنادیا
آج خود انسان کی جانب سے پیدا کردہ آلودگی کے باعث جہاں گنجان آباد شہروں میں گلوبل وارمنگ کی بدولت بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے نظام زندگی مفلوج کیا ہوا ہے، وہیں سمندر، دریا، جھیلیں اور پانی کے دیگر ذخائر بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
انسان کی اپنی ہی پھیلائی ہوئی آلودگی اور گندگی نے اس خوبصورت کائنات کو کچرے کا ایسا ڈھیر بنادیا ہے، جس سے اب دنیا کے ہر خطے کا ہر ملک اور ہر قدرتی شاہکار متاثر ہونے لگا ہے۔
فضائی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے جہاں بڑے شہر اور سمندر متاثر ہوئے ہیں، وہیں اس سے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں شمار ہونے والی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور اب وہاں برف کے حسین نظاروں سے زیادہ کچرا نظر آتا ہے، ساتھ ہی وہاں کسی خوشگوار احساس اور خوشبو کی جگہ انسانی صحت کے لیے مضر بدبو سے سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ کا شمار دنیا کے بلند ترین چوٹی میں کیا جاتا ہے جو سطح سمندر سے 8 ہزار 884 میٹر بلند ہے اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں ماہا لنگر ( نیپال )میں واقع ہے، یہ وہ علاقہ ہے جو چین اور نیپال کی سرحدوں کو علیحدہ کرتا ہے، تاہم اب یہ بلند ترین چوٹی کچرے کے ڈھیر میں بدلتی جا رہی ہے۔
نیپال کی مقامی زبان میں اسے 'ساگر ماتا' بھی کہا جا تا ہے، ماؤنٹ ایورسٹ صدیوں سے سیاحوں اور مہم جو افراد کی توجہ کا خصوصی مرکز رہی ہے، اس کو سر کرنے کے 2 راستے ہیں جن میں اس ایک نیپال کے جنوب مشرق کی طرف سے ہے جسے چوٹی سر کرنے کا بنیادی راستہ سمجھا جاتا ہے ، جب کہ دوسرا راستہ چین کے زیر اثر اور متنازع علاقے تبت کے شمال کی جانب سے ہے جو تکنیکی حوالے سے زیادہ خطرناک ہے۔
ابتداء میں نیپال نے غیر ملکی افراد کا ایورسٹ کے علاقے میں داخلہ بند کیا ہوا تھا, جس وجہ سے زیادہ تر مہم جو تبت کے خطرناک راستے سے چوٹی سر کرنے کی کوشش کرتے رہے اور حادثات کا شکار ہو ئے، ان میں سے زیادہ تر مہم جو کا تعلق برطانیہ سے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ماﺅنٹ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین چوٹی نہیں
سب سے پہلے 1953 میں سر ایڈمند ہیلیری نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا تھا جس کے بعد سے 5 ہزار سے زائد افراد اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کر چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی مہم ناکام ہوئی اور محض چند سو باہمت کلائمبرز ہی 8848 میٹر کی بلندی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔