کوئلے کی کان میں مٹی بننے والوں کی کتھا
یہ 12 اگست 2018ء کا دن تھا جو کوئلے کی کان میں کسی عفریت کی طرح اترا اور 19 قیمتی جانیں کھا گیا۔ زیرِ زمین 4 ہزار 300 فٹ گہری کان میں کان کن اپنا روز مرہ کا کام یعنی کوئلہ نکال رہے تھے کہ ان کے راستے میں سخت مٹی یا پتھر کی رکاوٹ آگئی، یہ رکاوٹ دور کرنے کے لیے بلاسٹ کیا گیا جو معمول کی بات ہے، لیکن بلاسٹ کے دوران اکثر کوئلے کو بھی ضرب لگ جاتی ہے جس سے مختلف گیسیں خارج ہونے لگتی ہیں۔
لیکن اس روز بلاسٹ کے بعد 2 واقعات ہوئے۔ ایک معمول کے عین مطابق اور ایک غیر معمولی، اور یہی غیر معمولی واقعہ تباہی کا سبب بنا۔ معمول کے مطابق تو یہ ہوا کہ کوئلے کو ضرب لگنے سے جان لیوا میتھین گیس خارج ہونے لگی۔ لیکن غیر معمولی یہ ہوا کہ بلاسٹ کے باوجود کان کن باہر نہیں آسکے کیونکہ اس روز بدقسمتی سے دھماکے سے پہاڑ کا ایک حصہ گرگیا، اور یوں کان سے باہر نکلنے کا واحد راستہ بند ہوگیا۔ باہر موجود 6 افراد کان میں موجود لوگوں کو بچانے کے لیے قریب گئے تو وہ بھی میتھین گیس کا شکار ہوگئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے 19 افراد لقمہءِ اجل بن گئے۔
بہتر حفاظتی اقدامات سے یہ قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ کان مالکان تو کیا کسی کے کان پر بھی جوں نہیں رینگی۔ ایسے حادثات میں دسیوں افراد کی ہلاکت کے باوجود کہیں کوئی شور نہیں مچتا، کوئی آہ و فغاں بلند نہیں ہوتی۔ پورا ملک سیاست سیاست کھیلنے میں ایسا مصروف رہتا ہے کہ ان قیمتی جانوں کے زیاں پر کسی کا دھیان تک نہیں جاتا۔
یہ حادثات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں۔ اسی سال مئی میں 2 حادثات میں 23 کان کن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ ان میں 21 افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ پھر جون کے مہینے میں کوئٹہ کے سنجدی کے علاقے میں کانوں میں گیس بھرنے سے 4 کان کن جاں بحق ہوئے اور اب اگست کے مہینے میں کوئٹہ کے قریب سنجدی ہی کے علاقے میں کان میں گیس بھر جانے کے باعث 19 افراد فوت ہوگئے۔