اپنے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر کیوں نہیں ڈالنی چاہیئں؟
21ویں صدی کی ابتدائی 2 دہائیاں اب تک سوشل میڈیا کی دہائیاں رہی ہیں۔ پہلے پہل تو یہ صرف نوجوانوں میں مقبول تھیں مگر اب کچھ تحقیقات کے مطابق یہ نوجوانوں سے زیادہ بڑی عمر کے افراد میں مقبول ہیں۔
بڑی عمر کے افراد جن کی اکثریت والدین ہوتی ہے، وہ اکثر اپنے بچوں کی زندگیوں کے حوالے سے پوسٹس فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر شیئر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
مگر انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے یا مذاق اڑائے جانے پر کئی بچوں کی خود کشیوں کے واقعات کے بعد اب لوگ یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ کیا اپنے بچوں کی تصاویر اس طرح سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا درست ہے، خاص طور پر اس وقت جب آپ کا بچہ اس حوالے سے فیصلہ لینے کی اہلیت نہ رکھتا ہو؟
اس حوالے سے نیوزی لینڈ کی ایک ویب سائٹ پر ایک والدہ کا انٹرویو سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے بچوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کرنے کے خلاف سخت دلائل دیے ہیں۔
کلوئی لیمبرٹ نامی خاتون کے مطابق ان کی بیٹی ابھی تک 2 سال کی نہیں ہوئی ہے اور اس کی کوئی ایک بھی تصویر فیس بک یا انسٹاگرام پر موجود نہیں ہے جبکہ ان کی بیٹی کی عمر کے زیادہ تر بچوں کی زندگی کا ہر لمحہ سوشل میڈیا پر موجود ہوتا ہے۔
لیمبرٹ کہتی ہیں کہ اگر کبھی کسی تقریب میں ان کی کوئی تصویر اپنے بچے کے ساتھ لی جائے اور بعد میں کوئی دوست وہ تصویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کر بھی دے تو وہ اس دوست سے کہہ کر وہ تصویر ہٹوا دیتی ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کی بیٹی کی کوئی تصویر اس کی اپنی مرضی کے بغیر انٹرنیٹ پر موجود نہیں ہونی چاہیے۔