اپنے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر کیوں نہیں ڈالنی چاہیئں؟

22 نومبر 2018
اس بحث طلب سوال پر بالآخر ایک والدہ نے خاموشی توڑ دی ہے اور اپنی بات کے حق میں سخت دلائل دیے ہیں۔
اس بحث طلب سوال پر بالآخر ایک والدہ نے خاموشی توڑ دی ہے اور اپنی بات کے حق میں سخت دلائل دیے ہیں۔

21ویں صدی کی ابتدائی 2 دہائیاں اب تک سوشل میڈیا کی دہائیاں رہی ہیں۔ پہلے پہل تو یہ صرف نوجوانوں میں مقبول تھیں مگر اب کچھ تحقیقات کے مطابق یہ نوجوانوں سے زیادہ بڑی عمر کے افراد میں مقبول ہیں۔

بڑی عمر کے افراد جن کی اکثریت والدین ہوتی ہے، وہ اکثر اپنے بچوں کی زندگیوں کے حوالے سے پوسٹس فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر شیئر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

مگر انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے یا مذاق اڑائے جانے پر کئی بچوں کی خود کشیوں کے واقعات کے بعد اب لوگ یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ کیا اپنے بچوں کی تصاویر اس طرح سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا درست ہے، خاص طور پر اس وقت جب آپ کا بچہ اس حوالے سے فیصلہ لینے کی اہلیت نہ رکھتا ہو؟

اس حوالے سے نیوزی لینڈ کی ایک ویب سائٹ پر ایک والدہ کا انٹرویو سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے بچوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کرنے کے خلاف سخت دلائل دیے ہیں۔

کلوئی لیمبرٹ نامی خاتون کے مطابق ان کی بیٹی ابھی تک 2 سال کی نہیں ہوئی ہے اور اس کی کوئی ایک بھی تصویر فیس بک یا انسٹاگرام پر موجود نہیں ہے جبکہ ان کی بیٹی کی عمر کے زیادہ تر بچوں کی زندگی کا ہر لمحہ سوشل میڈیا پر موجود ہوتا ہے۔

لیمبرٹ کہتی ہیں کہ اگر کبھی کسی تقریب میں ان کی کوئی تصویر اپنے بچے کے ساتھ لی جائے اور بعد میں کوئی دوست وہ تصویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کر بھی دے تو وہ اس دوست سے کہہ کر وہ تصویر ہٹوا دیتی ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کی بیٹی کی کوئی تصویر اس کی اپنی مرضی کے بغیر انٹرنیٹ پر موجود نہیں ہونی چاہیے۔

لیمبرٹ کے مطابق ہوسکتا ہے کہ جب ان کی بچی بڑی ہوجائے تو وہ اپنی سوشل میڈیا پروفائل بنا لے، مگر یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اس کی پرائیوسی کا خیال رکھوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی کوئی تصویر بناتی ہی نہیں، نہیں، بلکہ وہ اپنی بیٹی کی بے شمار تصاویر لیتی ہیں اور اپنے شوہر، دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ شئیر بھی کرتی ہیں لیکن واٹس ایپ پر۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان ذہنوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر اب خوب تحقیق کی جاچکی ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خالقین کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو بھی ان پلیٹ فارمز سے دُور رکھتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے نقصانات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔

لیمبرٹ کہتی ہیں کہ جو والدین اپنے بچے کی لمحہ بہ لمحہ تصاویر انٹرنیٹ پر ڈالتے ہیں، انہیں یہ شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے بچے بڑے ہونے کے بعد ہر وقت اسکرین سے چپکے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ دیدہ زیب فرنیچرز پر بیٹھے خوش اور مسکراتے بچوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کرنے سے وہ افراد افسردگی کا شکار ہوسکتے ہیں جو یا تو بے اولاد ہیں یا ان کے کسی بچے کی وفات ہوچکی ہے۔

اس کے بجائے ان کا ماننا ہے کہ بچوں کی تصاویر انسٹاگرام پر ڈالنے کے لیے درست فلٹر کے انتخاب میں وقت ضائع نہ کرنے سے ان کے پاس اپنی بیٹی کو دینے کے لیے کافی وقت بچ جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں