Dawn News Television

اپ ڈیٹ 12 مارچ 2019 11:45am

مودی کی سابق اتحادی کا پاکستان کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ

سری نگر: بھارت کے زیر تسلط کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ بھارت کو پاکستان سے بات کرنی چاہیے اور مقبوضہ کمشیر میں سیاسی رہنماؤں کو پلوامہ میں پیراملٹری قافلے پر خود کش حملے کے بعد بڑھنے والی کشیدگی کو کم کرنا چاہیے۔

سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ بھارتی حکمرانی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کشمیریوں پر جاری کریک ڈاؤن لوگوں کو بھارت سے مزید دور کرسکتا ہے۔

خیال رہے کہ محبوبہ مفتی 2014 کے آغاز سے گزشتہ برس جون تک اس وقت مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ رہی تھیں، جب تک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت نے ان کی علاقائی پارٹی کی حمایت واپس نہیں لے لی تھی۔

مزید پڑھیں: ’بالاکوٹ میں دخل اندازی پر سوال کرنے پر غداری کا الزام حیران کن ہے‘

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارتی فوج کی جانب سے کہا گیا تھا کہ گزشتہ ماہ 20 سالہ مقامی نوجوان کی جانب سے 40 پیرا ملٹری اہلکاروں کو خودکش حملے میں قتل کرنے کے بعد اگر کشمیری ہتھیار نہیں ڈالتے تو بھارت مسلم اکثریت والے متنازع علاقے میں تمام مسلح کشمیریوں کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ اس واقعے کے بعد سے بھارتی سیکیورٹی فورسز اب تک علاقے میں 18 کشمیریوں کو قتل کرچکی ہیں۔

اس حملے کے بعد دونوں روایتی حریفوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ ’میں واضح طور پر یہ سمجھتی ہوں کہ پاکستان کے ساتھ اندرونی اور بیرونی مذاکراتی عمل ہونا چاہیے، اگر اب زمینی حقائق کی روشنی میں کسی قسم کے سیاسی عمل کا آغاز نہیں کیا گیا تو صورتحال بدتر ہوجائیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پلوامہ واقعے کے بعد بھارت میں صحافی سمیت کشمیری نوجوانوں پر حملے

علاوہ ازیں بھارتی پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ حکومتی فورسز کے ساتھ مقابلے میں پلوامہ حملے کا ایک ’اہم سازشی‘ مارا گیا۔

انتظامیہ کی جانب سے مارے جانے والے مدثر احمد خان کو جیش محمد کا مبینہ طور پر اہم کمانڈر تصور کیا جارہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں موجود پولیس کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں ’یہ انکشاف ہوا کہ مدثر اس حملے کے اہم سازشی کرداروں میں سے ایک تھا‘۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مدثر ضلع پلوامہ میں ٹرل ٹاؤن میں ایک اور مسلح شخص کے ساتھ مبینہ طور پر مارا گیا۔


یہ خبر 12 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

Read Comments