میڈیکل اور نرسنگ کالجوں کو اپنے نصاب میں عالمی ادارہ صحت کے مجوزہ بین الاقوامی ہدایات کے مطابق مریضوں کے تحفظ کو ایک اہم ترین موضوع کے طور پر شامل کرنا ہوگا۔ ہیلتھ ریگولیٹرز کو صحت کمیشنز کی صورت میں کم سے طے شدہ کم معیارات پر پورا اترنے والے شعبہ صحت مراکز یا اداروں کو لائسنس جاری کرنے کے عمل میں اپنا کردار کرنا ہوگا بلکہ بہتری کے غرض سے متعارف کردہ اقدامات کے لیے تکنیکی وسائل میں معاونت کا کام انجام دینا ہوگا۔
پاکستان کے اکثر ہسپتالوں میں تربیت یافتہ ڈاکٹر اور نرسز موجود ہیں جو اپنے فرائض احسن انداز میں انجام دینا جانتے ہیں لیکن وہ بھی انسان ہیں، وہ ایک ایسے نظام کے اطلاق میں مدد چاہتے ہیں کہ جو محفوظ ہو اور مریضوں کو ناگزیر انسانی غلطیوں سے تحفظ فراہم کرتا ہو۔
صحت انصاف پروگرام یا ایسے کسی دوسرے انشورینس پروگرامز کے ذریعے صرف انہی ہستپالوں کے نام خدمات فراہم کندہ صحت مراکز کے طور پر اندراج کیے جائیں جو معیار کے خاص پیمانوں اور مریض کے تحفظ سے متعلق مطلوبہ کارکردگی پر پورا اترتے ہوں۔ ان اقدامات کے تحت تقابلی جائزے کے مقاصد کے غرض سے معیار اور مریض کے تحفظ کے حوالے سے ڈیٹا کی معلومات اکٹھا کرنے کے کام سے شروع کی جاسکتی ہے اور پھر آگے چل کر برقی پلیٹ فارمز کے تحت صحت کی سہولیات کی فراہمی میں معاونت تک کی جاسکتی ہے۔
آخری بات یہ کہ سرکاری صحت کے اداروں کا بھی احتساب کرنا ہوگا اور انہیں بہتری لانے پر مجبور کرنا ہوگا، جو نہ صرف انفرااسٹریچر میں لائی جائے بلکہ محفوظ طریقہ کاروں کو متعارف کرتے ہوئے لائی جائے۔ طبی غلطیوں کے باعث کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، متاثرہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بند ہونے کے ساتھ حالات پہلے جیسے معمول پر آجاتے ہیں۔ طبی غلطیوں کی روک تھام کے لیے قومی سطح کی ایک جامع منصوبہ بندی موجودہ وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔
نشوا کی موت سے لے کر اس مضمون کو لکھنے تک کم از کم مزید 3 ہزار مریض قابل انسداد طبی غلطیوں کے باعث اپنی جانیں گنوا چکے ہوں گے۔ ہمیں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ مضمون 5 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔