لکھاری ’پیشنٹ پاکستان: ریفارمنگ اینڈ فکسنگ ہیلتھ کیئر فار آل‘ ان دی 21 سینچری‘ کے مصنف ہیں۔
لکھاری ’پیشنٹ پاکستان: ریفارمنگ اینڈ فکسنگ ہیلتھ کیئر فار آل‘ ان دی 21 سینچری‘ کے مصنف ہیں۔

حالیہ دنوں میں ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر صرف پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ مہنگی اور ناقابلِ برداشت حد تک بڑھتی قیمتوں کا مسئلہ ایک عرصے سے جاری ہے اور ادویات کی قیمتیں انتخابی اور پالیسی ایجنڈوں کا حصہ رہی ہیں۔

امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے ساتھ ہی یہ مسئلہ منظرِعام پر آیا۔ ڈیموکریٹ پارٹی نے ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو انتخابی مہم کا حصہ بنایا اور یوں انہیں مڈٹرم انتخابات میں اس کے زبردست ثمرات بھی حاصل ہوئے۔ اس کے برعکس پاکستان میں سیاسی جماعتیں گزشتہ 2 ماہ سے ادویات کی بڑھتی قیمتوں کے معاملے پر نہ جانے کیوں چپ سادھے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں تو ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد کا اضافہ بھی دیکھا گیا ہے، حالانکہ قانونی طور پر صرف 15 فیصد کے اضافے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس پورے معاملے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) تو بالکل ہی غیر مؤثر نظر آرہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق خاص برانڈ کے نام کے ساتھ بیچی جانے والی اریتھرومائسن (erythromycin) (ایک اینٹی بایوٹک جو امیبائی امراض اور دوسری بیماریوں کے علاج میں استعمال کی جاتی ہے) کی قیمت 500 روپے سے بڑھ کر 900 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق ایک دوسری دوائی کی قیمت 79 سے بڑھ کر 426 تک جا پہنچی ہے۔ جب دواؤں کی دکان سے میں نے خود جا کر قیمتوں کے بارے میں جاننا چاہا تو پتہ چلا کہ تولیدی صحت (reproductive health) کی ایک دوائی کی قیمت 500 روپے سے بڑھ کر 800 روپے تک پہنچ چکی ہے۔

ادویات کی قیمتوں میں اس قسم کا اضافہ کا ایک مستحکم طریقہ کار کا حصہ بن چکا ہے، جس کے ذریعے قانونی طور پر اضافے کی اجازت سے کہیں زیادہ ادویات کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ ہر چند سال بعد (ڈریپ) قیمتوں میں اضافہ کردیتی ہے اور وہ بھی اس شرح سے کئی گنا زیادہ جس کی اجازت نہیں ہوا کرتی۔ حالانکہ عدالت نے اس عمل پر سوال بھی اٹھایا مگر یہ سلسلہ نہیں رُکا۔ پھر جب یہ معاملہ قانونی راہداریوں تک پہنچا تب بھی ادویات مہنگی ہی رہیں اور اس حوالے سے بھی کوئی ریگولیٹری کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی۔ پڑوسی ممالک میں اضافی قیمتیں کم کروائی گئیں اور جو اضافی پیسے دیے جاچکے تھے انہیں بھی واپس دلوا دیا گیا۔

پاکستان کی صورتحال میں خرابی صرف ڈریپ کے ریگولیٹری فرائض کے تناظر میں نظر نہیں آتی بلکہ یہ خرابی قابلِ استطاعت ادویات کو لے کر فارما کے کھلے عزم میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ ملک اس خطے کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ادویات کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ قیمتوں میں حالیہ اضافے غریب اور شدید بیمار مریضوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ ایسی بھی رپورٹس موصول ہوئی ہیں جن کے مطابق یا تو مریض علاج کے لیے دیگر طریقے اختیار کر رہے ہیں یا پھر روزانہ لی جانے والی خوراک میں مجبوراً وقفہ دے رہے ہیں۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ عمران خان جیسے وزیرِاعظم کی ناک تلے ہوا ہے، جنہوں نے اپنا کیرئیر اور اپنی ساکھ غریبوں کی ادویات اور علاج معالجے تک زیادہ سے زیادہ رسائی کو ممکن بناکر حاصل کی ہے۔ انہیں قیمتوں میں کمی لانے کے لیے اقدام اٹھانا ہوگا۔

وزیرِاعظم کا یہ اقدام اسی سفر کا حصہ ثابت ہوگا جس طرح انہوں نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کی صورت میں ادویات اور علاج و معالجے کو قابلِ رسائی اور قابلِ استطاعت بنانے کی جدوجہد کی۔

اس کے علاوہ، ڈریپ سمیت قیمتوں کا فیصلہ کرنے والے تمام اداروں میں اصلاحات لانے کے لیے ایمانداری کے ساتھ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف مباحثے کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس کی شروعات ڈریپ کے ساتھ کی جائے تو بہتر ہوگا، جو اپنے ریگولیٹری اور نگرانی کے فرائض میں بُری طرح سے ناکام ہوا ہے، جس کی ناقص کارکردگی اکثر پریس میں شائع ہوتی رہتی ہے۔

اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈریپ کا نگران ایک ایسے بورڈ کو بنایا جائے جس میں سول سوسائٹی، مریضوں و صارفین کے لیے کام کرنے والے گروپس، عوامی مفاد کے مقدمات لڑنے والے وکلا، ڈاکٹرز، دواسازوں اور میڈیا پرسنز کے دیانتدار نمائندگان شامل ہوں۔ بورڈ یہ یقینی بناتے ہوئے ڈریپ کا سی ای او تعینات کرے کہ کہیں کوئی متصادم مفاد تو شامل نہیں؟

علاوہ ازیں، اصلاحات کے بعد تشکیل پانے والی باڈی اس طریقہ کار کو عوام کے سامنے پیش کرے جس کے تحت قیمتیں طے کی جاتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ تمام ویب سائٹ پر اضافے کی تشہیر کی جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ کن اصولوں کے تحت اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں اصولی حد سے زیادہ اضافہ ہو وہاں ایک مؤثر شکایتی طریقہ کار متعارف کروایا جائے۔

جبکہ صحت اور صحت سے متعلقہ دیگر شعبوں کی پارلیمانی کمیٹیاں وسیع پیمانے پر تشہیر کے ساتھ ہونے والی قیمت طے کرنے کی سماعتوں میں غیرملکی ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کو مدعو کریں تاکہ اس عمل میں شفافیت اور احتساب پیدا کیا جاسکے۔

شفافیت کو ہر طرح سے ممکن بنانے کے لیے اراکین کی جانب سے اپنے دیگر پیشوں اور کاروبار کو ظاہر کرنے پر ہی ان کے نام کمیٹیوں میں شامل کیے جائیں، تاکہ کسی قسم کا متصادم مفاد آڑے نہ آئیں۔ برٹش ہاؤس آف کامنز میں ہمیشہ اس اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔

حالیہ سالوں میں اعلیٰ عدالتوں نے ادویات کی قیمتوں کے معاملے میں مداخلت کی ہے۔ مگر، جہاں تک قیمتوں کے اضافے کو پرانی حیثیت میں بحال کرنے کا تعلق ہے تو قیمتوں کے حوالے سے عوامی مفاد کے کیسز کو حل کرنے اور اس کی سماعت میں اس قدر طویل وقت لگتا ہے کہ ان سے کوئی خاطر خواہ اثر ہی نہیں ہوتا۔

یہاں عدالتوں کو قیمت طے کرنے کے طریقہ کار میں شفاف اور منصفانہ عمل متعارف کروانے کے ساتھ صحت اور قابلِ استطاعت علاج معالجے و ادویات کے حق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو بہت پہلے ہی ادا کرلینا چاہیے تھا۔

جہاں تک سول سوسائٹی، شہریوں، مریضوں کے لیے کام کرنے والے گروپس اور صحت کی آگاہی دینے والوں کا تعلق ہے تو انہیں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لاتے ہوئے ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ کام کرنے ہوں گے تاکہ قیمتوں کو طے کرنے کے طریقہ کار اور ریگولیٹری کو ہر طرح سے عوامی مفاد میں بہتر بنانے کے لیے ایک مستقل نگرانی کا کردار ادا کرسکیں۔ اس کام میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ایک مساوی اور قابلِ استطاعت صحت کی طرف قدم بغیر رکے بڑھتا رہے بلکہ تیزی سے بڑھتا رہے۔


یہ مضمون 7 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شایع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں