کاشغر کے مختلف علاقوں میں ’مانیٹرز‘ مقرر کیے گئے ہیں جن کا کام متعدد خاندانوں کی نگرانی رکھتے ہوئے یہ یقینی بنانا ہے کہ وہ اصولوں کی خلاف ورزی نہ کر رہے ہوں، مثلاً پابندی کے باجود کہیں وہ چوری چھپے روزہ تو نہیں رکھ رہے ہیں؟
دنیا میں چین کی ابھرتی طاقت کے ساتھ پاکستان جیسے ممالک میں بھی بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جو مسلمانوں کے خلاف غیر انسانی اور ناجائز کریک ڈاؤن پر لب کشائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کئی مسلم ممالک چینیوں کے مقروض ہیں اور ایغور مسئلے پر کسی قسم کی زبانی مخالفت یا اقدام سے چین سے وابستہ ان کے مالی فوائد کو دھچکا پہنچ سکتا ہے۔
امریکا جو اس وقت ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ اسلاموفوبیا کا شکار ہے، وہ بھی اسی طرح زیادہ اس معاملے پر دلچسپی نہیں رکھتا۔ گزشتہ ہفتے چین اور امریکا کے درمیان ہونے والے تجارتی مذاکرات میں ایغور افراد اور مذہبی طور پر دبائے جانے والوں کے مسئلے کو اٹھایا تک نہیں گیا جس کی زد میں یہ لوگ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
جب چین کے آگے کھڑے ہونے کی بات آتی ہے تو مذہبی آزادی اور اسلامی یکجہتی دونوں ہی بھلا دی جاتی ہیں۔ البتہ جو چند لوگ کوشاں ہیں وہ اقلیت میں ہیں۔ ایک ترک سرگرم کارکن نے حال ہی میں ’فاسٹ فرام چائنہ‘ نامی ایک مہم شروع کرنے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعے روزہ دار موبائل فونز، کپڑوں اور الیکٹرانکس جیسی چینی مصنوعات کے استعمال اور خریداری سے اجتناب کریں گے۔ لیکن ابھی یہ نہیں معلوم کہ FastFromChina# کے ساتھ چلنے والی مہم مستقبل میں لوگوں کی توجہ حاصل کرسکے گی یا نہیں۔
امریکی مسلمان جیسے دیگر گروہ چین جاکر اور وہاں رمضان کا مہینہ گزار کر اس ملک میں روزہ رکھنے پر پابندیوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ چونکہ وہ امریکی ہیں اس لیے روزہ رکھنے پر چین ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا اور وہاں جانے والے افراد کو یہ امید ہے کہ چین کے اندر عوامی سطح پر روزہ رکھنے سے ان لاکھوں ایغور افراد کی طرف دھیان دلانا ممکن ہوسکے گا جو اپنے ہی ملک میں روزہ رکھ نہیں پاتے۔
خود پاکستان بھی ہر گزرتے دن، گھنٹے اور منٹ کے ساتھ چینی قرضوں، چینی ساختہ انفرااسٹریکچر اور ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ مقروض ہوتا جا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں کہیں بھی ایغور افراد کے لیے آواز نہیں اٹھائی گئی اور ان کو درپیش مسائل توجہ حاصل نہیں کرسکے، اور یہ ایک ایسے خطے میں ہورہا ہے جو جغرافیائی طور پر کافی قریب واقع ہے جہاں مذہبی آزادی اور خودمختاری کی اس قدر سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔