ایک بیان جاری کرتے ہوئے بھارتی فضائیہ نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ طیارہ فضائی سفر کے طے شدہ راستے پر نہیں تھا اور نہ ہی بھارتی ایئر ٹریفک کنٹرولنگ کے اداروں کی فون کالز کا جواب دے رہا تھا۔
جس کی باعث طیارے کو گھیر کر ضروری تحقیقات کے لیے راجھستان میں اترنے پر مجبور کیا گیا۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران اپنی اپنی فضائی حدود بند کرنے کی وجہ سے مسافر بردار اور سامان بردار سینکڑوں پروازیں متاثر ہوئی تھیں۔
پاکستان کی فضائی حدود کی بندش کے باعث غیر ملکی اور بھارتی پروازیں ایک طویل اور مہنگا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہوگئیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک-بھارت کشیدگی کو امریکی میڈیا نے کس طرح دیکھا؟
خیال رہے کہ بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے ولے خود کش حملے میں 40 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے پاکستان میں دراندازی کی تھی جس سے اس تنازع میں شدت آنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔
بعد ازاں پاکستان کی جانب سے بھارتی طیارہ گرانے اور اس کے پکڑے گئے بھارتی پائلٹ کی واپسی نے بحران کو بڑی حد تک ختم کرنے میں مدد دی۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ذرائع نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس معاملے کے بارے میں پڑوسی ملک کے حکام کی جانب سے باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا۔
اس کے ساتھ ذرائع نے میڈیا سے حاصل ہونے والی اطلاعات میں جارجیا کے سامان بردار طیارے کی تنصیلات پر حیرت کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: 'مودی کی حکومت پھر آئی تو پاک بھارت کشیدگی بڑھ جائے گی'
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب تک بھارت کے سرکاری ذرائع سے کوئی معلومات موصول نہیں ہوئی اور سی اے اے کو اس بارے میں صرف ان تفصیلات کا علم ہے جو میڈیا میں جاری کی گئیں‘۔
یہ خبر 11 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔