پاک-بھارت کشیدگی کو امریکی میڈیا نے کس طرح دیکھا؟

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2019
پاک بھارت حالیہ کشیدگی میں اضافہ 14 فروری کو پلوامہ واقعے کے بعد ہوا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
پاک بھارت حالیہ کشیدگی میں اضافہ 14 فروری کو پلوامہ واقعے کے بعد ہوا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے علاقے پلوامہ میں 14 فروری کو ہونے والے خودکش حملے کے بعد پیدا ہونے والی حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر امریکی میڈیا میں سیکڑوں خبریں اور تجزیے سامنے آئے، جس میں تقریباً تمام نے پاکستان اور بھارت کے تنازع میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت کے طور پر اجاگر کیا۔

واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ ’پاکستان اور بھارت کے تعلقات دہائیوں کے سب سے زیادہ سنگین کشیدگی کا سامنا کر رہے ہیں‘۔

نیویارک ٹائمز نے خبردار کیا کہ ’ یہ شمالی کوریا نہیں، یہ وہ ہے جہاں جوہری لڑائی کا قوی امکان ہے‘، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہوئی لیکن ان کے جوہری ہتھیاروں کا مطلب یہ ہے کہ ناقابل تصور نتائج ہمیشہ ممکن ہیں‘۔

مزید پڑھیں: مسئلہ کشمیر کے حل تک ایٹمی جنگ خارج ازامکان نہیں، امریکی اخبار

تاہم ان سب میں کوئی بھی اتنا گہرائی میں نہیں گیا جتنا مورخ چترالیکھا زوتشی نے ’مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف ایک سرحدی تنازع نہیں‘ کے عنوان سے اپنا تجزیہ چینل نیوز ایشیا (سی این اے) کے لیے لکھا، جسے اتوار کو ان کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔

وہ لکھتی ہیں کہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں خودمختاری کی خواہش نے بار بار جدوجہد اور آزادی کی تحریکوں کو پروان چڑھایا۔

انہوں نے لکھا کہ اب کشمیر میں ہونے والی جدوجہد اور تحریکوں کے درمیان ’وادی میں بھارتی حکمرانی کے خلاف پرتشدد مزاحمت جاری ہے، جس کا آغاز 1989 میں ہوا اور 3 دہائیوں سے یہ مسلسل اتار چڑھاؤ کے ساتھ جاری ہے‘۔

چترالیکھا زوتشی نے نشاندہی کی کہ اس تنازع میں ہزاروں افراد قتل ہوئے جبکہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کے زیر تسلط وادی کشمیر ایک فوجی زون بن گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک فضائیہ نے 2 بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے، پاک فوج

اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’بھارتی اہلکار وہاں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیاں کرچکے ہیں، جس میں مظاہرین پر فائرنگ اور لوگوں کی گرفتاریوں کے لیے درکار طریقہ کار سے انحراف شامل ہے‘۔

انہوں نے خبردار کیا کہ کشمیر میں کشیدگی کم ہوسکتی ہے لیکن وہاں ہونے والے تشدد کی بنیادی وجہ ختم نہیں ہو سکتی، لہٰذا ’میرے اندازے میں تنازع کشمیر کو صرف پاکستان اور بھارت کی جانب سے دوطرفہ طور پر حل نہیں کیا جاسکتا، یہاں تک کہ اگر دونوں ممالک اپنے اختلافات کے حل کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کریں۔

خاتون مورخ نے لکھا کہ اس معاملے پر ایک کھلی بحث ہونی چاہیے جس میں کشمیری عوام کی امنگوں پر بھی مباحثہ اور انہیں تسلیم کرنا چاہیے۔


یہ خبر 11 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں