Dawn News Television

شائع 22 مئ 2019 06:50pm

عورت مارچ کے شرکا کےخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

لاہور کے سیشن کورٹ نے رواں سال عورت مارچ میں مبینہ طور پر غیر اخلاقی اور غیر آئینی حرکات پر اس کے شرکا کے خلاف ادراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سول سوسائٹی نیٹ ورک کی آمنہ ملک نے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعات 22 'اے' اور 22 'بی' کے تحت مقدمہ کے اندراج کی درخواست کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ عورت مارچ کے شرکا کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے تھانہ سول لائنز کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو درخواست جمع کروائی گئی، تاہم انہوں نے مقدمہ کے اندراج میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔

عدالت میں اپنے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے ذریعے درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ 9 مارچ کو خواتین کی جانب سے عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین نے اخلاقیات سے گرے ہوئے نعرے لگائے اور بینرز آویزاں کیے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں عورت کی پریشانی کی وجہ صرف مرد نہیں بلکہ ...

وکیل نے دعویٰ کیا کہ عورت مارچ اسلامی اقدار کے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کے بھی منافی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ وہ عورت مارچ میں حصہ لینے والی خواتین اور اسے منعقد کروانے والی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔

6 مئی کو جج نے سی سی پی او لاہور اور پولیس کے شکایتی سیل کو درخواست پر 14 مئی کے لیے نوٹسز جاری کیے تھے۔

بدھ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عامر حبیب کی جانب سے درخواست کی سماعت کے دوران ضلعی شکایتی افسر (ڈی سی او) اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) فیصل مختار نے پولیس کی طرف سے جواب جمع کروایا۔

پولیس کے جواب میں کہا گیا کہ خواتین کے عالمی دن پر گورنر ہاوس کے سامنے خواتین نے ریلی نکالی جس میں کوئی غیر قانونی یا غیر اخلاقی کام نہیں ہوا، جبکہ پرامن ریلی نکالنے پر مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

Read Comments