جب والدین ان کے حصے کا کام کرتے ہیں تو بچوں کے ذہن میں یہ بات گھر کرنے لگتی ہے کہ اگر کوئی دوسرا ان کے کام کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یوں وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ گھر کے کام کس قدر اہمیت رکھتے ہیں اور یہ کہ کس طرح ’تمام افراد کی بھلائی‘ کے لیے ہر ایک کو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔
جولی لیتھ کوٹ ہائمز کو لگتا ہے کہ جو بچے گھر کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں وہ آگے چل کر اچھے ملازمین ثابت ہوتے ہیں، ان کا اپنی ٹیم کے ساتھ بہتر تعاون قائم رہتا ہے اور دیگر افراد کی طرف ہمدردانہ رویہ پیدا ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ انہیں تنِ تنہا مختلف کاموں کا ذمہ اٹھانے میں کسی قسم کا ڈر بھی محسوس نہیں ہوتا۔
چنانچہ بچوں کی تربیت کے دوران انہیں گھر کے چھوٹے موٹے کاموں سے باز مت رکھیں۔ بچوں کی تربیت کا موجودہ طریقہ کار بچوں کو اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کرنے اور ان میں نکھار لانے سے روک سکتا ہے۔
جو والدین اپنے بچوں کی زندگیوں یا ان کی پرورش میں زیادہ عمل دخل نہیں کرتے، ان پر اکثر لوگوں کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ بالکل ایسا ہونا چاہیے لیکن ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ جو والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بار بار عمل دخل کرتے ہیں اور جو یہ مانتے ہیں کہ بچے اس وقت تک کامیاب انسان نہیں بن سکتے جب تک والدین ہر موڑ پر ان کا تحفظ اور غلطیوں سے باز نہ رکھیں تو ایسے والدین بھی ایک طرح سے لاشعوری طور پر بچوں کی شخصیت کو کافی نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
فکریں تو تمام ہی والدین لاحق ہوتی ہیں لیکن بچوں کو ہر جگہ آپ کے حد سے زیادہ عمل دخل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آپ کا بچہ کوئی چیلنج قبول کرنا چاہتا ہے تو انہیں ایسا کرنے دیجیے اور انہیں چیلنجز سے نمٹنے دیجیے۔ اپنے بچوں کو محفوظ اور تندرست رکھیں۔ انہیں خالی پیٹ مت رہنے دیں۔ انہیں زندگی کے اہم اسباق کا درس دیجیے۔ یہی آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔