Dawn News Television

شائع 08 نومبر 2019 10:13pm

چین میں بچوں پر 90 منٹ سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلنے پر پابندی

چین میں بچوں کے اندر ویڈیو گیمز کی لت کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

چینی حکومت کی جانب سے جاری ہدایات کے مطابق عام دنوں میں 18 سال سے کم عمر بچے آن لائن گیمز ایک دن میں 90 منٹ سے زیادہ نہیں کھیل سکیں گے جبکہ رات 10 بجے سے صبح 8 بجے تک بھی گیمز کھیلنے پر پابندی ہوگی۔

ہفتہ وار تعطیل یا عوامی تعطیلات پر انہیں دن بھر میں 3 گھنٹے تک گیمز کھیلنے کی اجازت ہوگی۔

درحقیقت یہ دنیا میں اپنی طرز کی پہلی پابندی ہے کیونکہ اب تک کسی ملک میں اس طرح کے اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔

چائنا جنرل ایڈمنسٹریشن آف پریس اینڈ پبلیکشن کی جانب سے جاری گائیڈلائنز میں پابندیاوں کا اطلاق براہ راست چین میں کام کرنے والے گیمنگ پلیٹ فارمز پر ہوگا۔

چائنا جنرل ایڈمنسٹریشن کے ایک ترجمان نے چینی میڈیا کو بتایا کہ یہ اقدام بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ بچوں پر گیمز پر پیسے خرچ کرنے کی حد بھی مقرر کی گئی ہے اور 16 سال سے کم عمر بچے گیمز پر فی مہینہ 200 یوآن جبکہ 16 سے 18 سال کے بچے 400 یوآن سے زیادہ خرچ نہیں کرسکیں گے۔

چین امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی گیمنگ مارکیٹ ہے مگر مقامی انتظامیہ کی جانب سے نوجوانوں پر ویڈیوز گیمز کے استعمال سے ہونے والے منفی اثرات پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔

2015 میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ موبائل فونز اور آن لائن گیمز کی مقبولیت میں اضافے سے 50 کروڑ چینی شہری بینائی کی کمزوری کا شکار ہوچکے ہیں۔

نظر کی کمزوری اور ویڈیوز گیمز کے درمیان کوئی سائنسی تعلق فی الحال ثابت نہیں ہوا مگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں حالیہ برسوں کے دوران یہ مسئلہ بہت زیادہ ابھر کر سامےن آیا ہے۔

گزشتہ سال عالمی ادارہ صحت نے ویڈیو گیم کی لت کو ایک ذہنی بیماری قرار دیا تھا، کیونکہ انٹرنیٹ گیمنگ ڈس آرڈر سے لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ویڈیو گیمز تیار کرنے والی کمپنیوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دانستہ طور پر اپنی گیمز کو ایسا بناتے ہیں کہ لوگوں کو ان کی لت لگ جائے، حال ہی میں فورٹ نائٹ گیم تیار کرنے والی کمپنی ایپک گیمز پر ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاکہ گیم کو جس حد تک ہوسکے لوگوں کے لیے لت جیسا بنایا جاسکے۔

Read Comments