Dawn News Television

اپ ڈیٹ 07 فروری 2020 05:41pm

گزری، پنجاب، دہلی، پی این ٹی کالونیز میں غیرقانونی تعمیرات گرادیں، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کے معاملے کی سماعت کے دوران ہدایت دی ہے کہ پنجاب کالونی، دہلی کالونی، پی این ٹی کالونی اور گزری روڈ پر غیرقانونی تعمیرات گرادیں۔

عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل بینچ نے شہر قائد میں سرکاری زمینوں پر قبضے، ان پر عمارتیں اور کالونیاں بنانے، شہر کی ازسر نو بحالی، کے پی ٹی کی زمین سمیت دیگر معاملات پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان، کنٹومنٹ بورڈ کے افسران، صوبائی حکومت کے نمائندے و دیگر حکام پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران عدالت نے پوچھا کہ کنٹونمنٹ قوانین میں رہائشی علاقوں میں کتنی منزلہ عمارت بن سکتی ہے، ساتھ ہی عدالت نے کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل سے پوچھا کہ پی این ٹی کالونی میں بلند و بالا عمارتیں کس کی اجازت سے تعمیر ہوئیں؟

جس پر کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام نے بتایا کہ رہائشی علاقوں میں گراؤنڈ پلس ون کی اجازت ہے جبکہ کمرشل علاقوں میں زیادہ سے زیادہ 5 منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازات ہے۔

اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں، آپ انگریزی بول کر ہمارا کچھ نہیں کرسکتے، کیا ہمیں معلوم نہیں کہ کیا حقیقت ہے، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کیا اپنی پوزیشن واضح کر سکتا ہے۔

جس پر وکیل نے بتایا کہ دہلی کالونی میں گراؤنڈ پلس ون کی اجازت ہے، اس پر عدالت نے کہا کہ کس نے کہا کہ دہلی کالونی رہائشی علاقہ ہے؟ لگتا ہے آپ دہلی کالونی گئے ہی نہیں ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی انگریزی سے ہمیں خوش نہیں کرسکتے، اسی دوران ڈائریکٹر لینڈ کنٹونمنٹ نے بتایا کہ پی این ٹی کالونی میں عمارتیں غیرقانونی طور پر تعمیر ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک ایک فلیٹ آپ نے 5 کروڑ روپے میں فروخت کیے اور اب کہتے ہیں کہ غیرقانونی تعمیرات ہیں۔

عدالت نے ڈائریکٹر لینڈ کنٹومنٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ لوگ آنکھیں بند کرکے چلتے ہیں؟ آپ کو معلوم بھی ہے کنٹونمنٹ ہوتا کیا ہے؟

کسی دور میں طارق روڈ پر 2 ہوٹل اور ایک بینک ہوتا تھا، چیف جسٹس

سماعت کے دوران ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے قیام کا بھی ذکر ہوا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم ڈی ایچ اے کے ریکارڈ کا بھی جائزہ لیں تو تقریباً الاٹمنٹ فارغ ہوجائیں گی۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مذکورہ بالا تعمیرات کو گرانے کا کہا کہ تاہم اسی دوران وہاں موجود عہدیدار نے نشاندہی کی اور کہا کہ یہ مشکل کام ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چاہے میں فارغ ہوجاؤں لیکن یہ کام ہونا چاہیے۔

سماعت کے دوران ہی عدالت نے کراچی کے علاقے طارق روڈ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی دور میں طارق روڈ پر صرف 2 ہوٹل اور ایک بینک ہوتا تھا، اب بہادر آباد، سندھی مسلم، پنجاب کالونی، ایف بی ایریا، پی این ٹی اور دیگر کالونیوں کا حال کیا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 9، 9 منزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، ان سب کو گرائیں، 'اٹارنی جنرل صاحب، ان علاقوں میں بھی عمارتوں کو گرانا پڑے گا'۔

ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ پنجاب کالونی، دہلی کالونی، پی این ٹی کالونی میں غیرقانونی تعمیرات اور گزری روڈ پر بھی غیرقانونی عمارتیں گرادیں۔

سماعت کے دوران دہلی کالونی اور پنجاب کالونی میں تجاوزات کے معاملے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان علاقوں میں تعمیرات کیسے ہورہی ہیں، جس پر کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام نے کہا کہ ہم نے ایکشن لیا ہے، کارروائی کر رہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ بتائیں، یہ تعمیرات ہوئیں کیسے، اجازت کس نے دی؟ اٹارنی جنرل صاحب، کنٹونمنٹ بورڈ میں ایسی تعمیرات کی اجازت کون دے رہا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈ جس طرح چاہے عمارتوں کی اجازت دے دے، کیا آپ کی حکومت چل رہی ہے جو اپنی مرضی سے کام کریں؟ جس پر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام نے بتایا کہ ہم نے بہت سی عمارتیں گرائی ہیں، رہائشی پلاٹ پر گراونڈ فلور پلس 2 کی اجازت ہے جبکہ کمرشل پلاٹوں پر 5 منزلہ عمارت بنانے کی اجازت دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی کو ہٹانے کا حکم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 5، 5 کروڑ روپے کے فلیٹ فروخت ہورہے ہیں، آپ لوگوں نے خزانے بھردیے، ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ لوگوں سے پیسے لے لے کر اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔

عدالت نے ڈائریکٹر لینڈ کلفٹن کنٹونمنٹ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دفتر کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کوثر میڈیکل اور اس کے برابر میں کیسے بڑی عمارتیں بن گئیں، آخر کنٹونمنٹ بورڈ میں ہو کیا رہا ہے اور کس کی اجازت سے ہو رہا ہے، جس پر ڈائریکٹر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈز نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ بہت سی عمارتیں غیر قانونی ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری زمین آپ پر بھروسہ کرکے دی گئی، آپ کر کیا رہے ہیں؟ وہاں کنٹونمنٹ تو نہیں رہا اب وہاں تو اور ہی کچھ بن گیا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی این ٹی کالونی میں وفاقی اداروں کے ملازمین کے کوارٹرز ہیں، کوارٹرز اپنی جگہ پر رہیں گے لیکن ہم غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرائیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کی زمین پر قائم تمام غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ کرایا جائے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہری حکومت، سندھ حکومت اور وفاق سب ہی ناکام ہوچکے ہیں، اب کس کو عدالت میں بلائیں، کراچی میں مسائل بہت سنگین ہوگئے ہیں۔

لائنز ایریا کی کچی آبادیاں ختم کریں، عدالت

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچی آبادیوں کے رہائشیوں کے لیے ملٹی اسٹوری بلڈنگ بناکر وہاں منتقل کیا جائے۔

اسی دوران جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا آپ کو ملائیشیا فارمولے کا پتہ ہے؟ کوالالمپور کو کیسے صاف کیا گیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم سندھ حکومت، کنٹونمنٹ و دیگر حکام کے ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل بنا لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لائنز ایریا کی کچی آبادیاں ختم کریں، یہ قائد اعظم کے مزار کے پاس جھومر کی طرح لٹکی ہوئی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ قائد اعظم کے مزار کے پاس فلائی اوور نہیں ہونا چاہیے تھا۔

مزید برآں یہ ریمارکس بھی سامنے آئے کہ شاہراہ قائدین کا نام تبدیل کرکے کچھ اور رکھیں۔

سندھ حکومت پر انحصار کریں گے تو 'وائٹ واش' نظر آئے گا، ایڈووکیٹ جنرل

سماعت کے دوران شہر قائد کے ازسر نو جائزے لینے کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جس میں جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کے تھانے تک تو کرائے پر ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن اور دیگر کو اراضی الاٹ کررہے تھے تو پلے گراؤنڈ اور پارکس کے لیے اراضی کیوں نہیں رکھی؟ ہمیں اس بات کا درد ہے کہ آپ کو خود خیال نہیں۔

اس موقع پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ قانون سازی کیوں نہیں کرتے؟ ہم قانون بنائیں کیا؟ ہم کوئی کمیٹی یا کمیشن نہیں بنائیں گے آپ قانون پر عمل کریں، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف سندھ حکومت پر انحصار کریں گے تو صرف 'وائٹ واش' نظر آئے گا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اگر کچھ ہوسکتا ہے تو صرف آپ کرسکتے ہیں، آپ ہی درست کرسکتے ہیں، اگر آج نہیں ہوا تو 20 سال بعد کے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل یہاں یہی بات کررہے ہوں گے۔

اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جب تک متعلقہ ادارے ٹھیک نہیں ہوں گے تو معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ کروڑوں لوگوں کا شہر ہے ہم نہیں چاہتے کوئی ایسی بات کہہ دیں جس سے نقصان ہو، کوئی امید افزا بات نظر نہیں آرہی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کوئی ادارہ ٹھیک نہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جی آپ درست کہہ رہے ہیں، ادارہ کوئی ٹھیک نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ریلوے ٹریک سے 6 ہزار لوگوں کو بے گھر کردیا گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ووٹوں کے تناظر سے دیکھتے ہیں لیکن ہم ووٹوں کے حساب سے نہیں دیکھتے، آپ کو اتنی پریشانی ہے تو انہیں بسانے کے لیے قانون سازی کردیں۔

اس دوران ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل بتائیں گے کہ صوبائی حکومت کے 100 ارب روپے وفاق پر واجب الادا ہیں، یہاں وسائل نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس وسائل نہیں ہیں؟ سب کرسکتے ہیں مگر نہیں کریں گے۔

تھر میں نام نہاد 105 ارب روپے لگائے گئے، چیف جسٹس

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ اگر 100 ارب مل بھی جائیں تو کیا ہوگا، ایک پائی بھی لوگوں پر نہیں لگے گی، تھر میں نام نہاد 105 ارب روپے لگائے گئے لیکن (ویسے) ایک پائی نہیں لگائی، سارا پیسہ تو باہر چلا گیا، یہ پیسہ بھی آجائے تو غائب ہوجائے گا۔

سماعت کے دوران ہی جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ میں اس شہر میں پیدا ہوا، بتائیں شہر میں کون سی جگہ خالی چھوڑی ہے، پولیس اسٹیشن تک کرائے پر لے رکھے ہیں، سب بیچ ڈالا، ہمیں تکلیف اس لیے ہے کہ آپ نے کچھ نہیں چھوڑا، جس پر سلمان طالب الدین نے کہا کہ مجھے اور انور منصور خان کو بھی یہی تکلیف ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دکھ اور تکلیف تو مجھے بھی ہے، جس پر سلمان طالب الدین نے کہا کہ اس سارے معاملے کو روکنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا، جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کوئی گراؤنڈ چھوڑا نہ ہسپتال کی جگہ چھوڑی۔

کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ سٹی پلانرز کی کوئی کمیٹی ہے؟ جس پر چیف سیکریٹری نے کہا کہ جی ماہرین کی کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے، ہم نے سفارشات کابینہ کو بھیج دی ہیں مزید وقت لگے گا، اس پر عدالت میں موجود ایک شہری امبر علی بھائی نے کہا کہ کمیٹی میں شامل لوگ خود قبضوں میں ملوث ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب بتائیں کس پر بھروسہ کریں؟ اب کراچی ری ڈیزائننگ نہیں لکھیئے گا بلکہ صرف تجاویز دیں۔

جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اچھی تجویز دیں گے، ایک کمیٹی بنائی گئی ہے میں خود اس پر بریف کر دوں گا، میں خود بتاؤں گا کہ کراچی کے مستقبل کے لیے کیا حتمی پلان ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پتہ نہیں چل رہا کہ کس پر بھروسہ کریں۔

اسی دوران عدالت میں موجود ایک خاتون نے کہا کہ یہ کمیٹی کے چکر میں وقت گزارنا چاہتے ہیں، ان کی کمیٹیوں میں تو وہیں ہیں جو یہ سب کررہے ہیں۔

کراچی کیسے بہتر ہوگا اس کی آگاہی مہم چلائی جائے، عدالت

بعد ازاں عدالت نے کہا کہ کراچی کا دوبارہ ڈیزائن بنایا جائے اور بتایا جائے کراچی کو جدید ترین شہر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ تجاوزات کا مکمل خاتمہ، کچی آبادیوں کی ری سیٹلمنٹ اور متاثرین کی آبادکاری کے حوالے سے سفارشات دیں، میڈیا کے ذریعے بھی متعلقہ ماہرین سے سفارشات لیں۔

عدالت نے کہا کہ اس سلسلے میں سول انجینئرز، ماہرین اور ٹاؤن پلانرز سے مدد حاصل کی جائے، ساتھ ہی کراچی کیسے بہتر ہوگا اس کی آگاہی مہم چلائی جائے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اخبارات اور ٹی وی پر لوگوں کو بتایا جائے کہ کراچی کیسے بہتر ہوگا، آئندہ سیشن پر سندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔

نہرخیام پر پارک بنانے کا حکم

اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ نہر خیام پر تعمیراتی سرگرمیوں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے، جس پر عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کو مقدمہ فوری نمٹانے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران شہر قائد کے علاقے بوٹ بیسن کے قریب واقع نہرخیام پر سبزہ اور پارک بنانے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی کہا کہ نہر خیام پر کمرشل تعمیرات کی اجازت نہیں ہوگی۔

عدالت کا کالا پُل سے متصل اراضی کو تجاوزات سے پاک کرکے پارک بنانے کا حکم

علاوہ ازیں عدالت نے کالاپل سے متصل دونوں جانب کھلی اراضی کو 3ماہ میں پارک بنانے کا حکم دیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ کالا پل سے متصل اراضی پر تجاوزات ہٹادی جائیں، متصل اراضی پر باؤنڈری وال ختم کی جائے اور خوبصورت پارک بنایا جائے۔

ساتھ ہی عدالت نے کالا پل کے قریب ہسپتال کی پارکنگ بھی ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو سڑک پارکنگ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

عدالت نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کام کرے، عدالتی احکامات پر ہر صورت عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

کے پی ٹی کی زمین پر کوئی ہاوسنگ سوسائٹی نہیں بنائی جاسکتی، عدالت

عدالت میں سماعت کے دوران کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جس پر عدالت نے وکیل سے پوچھا کہ آپ زمین کے مالک نہیں ہیں آپ کو کے پی ٹی کی سرگرمیوں کے لیے زمین دی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس لیز نہیں تو آپ آگے کیسے لیز کریں گے، جس پر وکیل نے کہا کہ دنیا بھر میں پورٹس سے ملحقہ زمین بھی پورٹ کو دی جاتی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تو آپ ساری زمین اپنے ملازمین کو دے دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو صرف پورٹ کے استعمال کے لیے زمین دی گئی آپ خود کو کے پی ٹی لینڈ الاٹ کررہے ہیں، یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں چیف جسٹس ہوں، سپریم کورٹ کی زمین کیا اپنے نام پر الاٹ کرسکتا ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہوگا کہ سپریم کورٹ کی زمین اپنے ججز کے نام کردوں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے چیف جسٹس سپریم کورٹ چلانے کے لیے بنایا گیا ہے زمین اپنے نام کرنے کے لیے نہیں، تاہم کے پی ٹی نے اپنے لوگوں کے لیے رہائشی سوسائٹی بنادی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ شہر کے پی ٹی والوں کا نہیں ہے، آپ کیسے زمین کے مالک بن رہے ہیں؟

دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ پورٹ سروسز کے مقصد کے علاوہ زمین کسی اور مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی، اگر زمین پورٹ سروسز کے استعمال میں نہیں ہے تو سندھ حکومت کو واپس کی جائے۔

سماعت کے دوران وکیل کے پی ٹی نے کہا کہ جن لوگوں کی لیز منسوخ کی گئی انہیں سنا نہیں گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکم جاری کرچکے ہیں اسے حتمی سمجھیں، آپ کا مسئلہ صرف ہاؤسنگ سوسائٹی کا ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ آپ کے حکم سے ساری لیز متاثر ہوئی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں نے 99، 99 سال کی لیز پر اراضی دی ہوئی ہیں، اس طرح ہر ادارہ سرکاری زمین اپنے لوگوں کو بانٹ دے گا۔

عدالت نے کہا کہ ٹرسٹ پراپرٹی کسی صورت کسی کو نہیں دی جاسکتی، کیا صدر اور وزیراعظم پاکستان کو اپنے نام پر کرلے گا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ باہر کی مثالیں دے رہے ہیں وہاں وہ لوگ اپنے گھر نہیں بناتے۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ کے پی ٹی ٹرسٹ ہے ٹرسٹی نہیں ہے، ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کے پی ٹی کو پورٹ چلانے کے لیے جو معاملات ہیں وہ ملیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت کی زمین وفاقی حکومت لیز نہیں کرسکتی، ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کے پی ٹی کی زمین پر کوئی سوسائٹی نہیں بن سکتی۔

عدالت میں سماعت کے دوران کے پی ٹی کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس رپورٹ پر آرڈر کیا تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے، بہتر ہے کہ چیئرمین کے پی ٹی اپنی رپورٹ واپس لے لیں۔

اس موقع پر عدالت نے حکم دیا کہ کے پی ٹی کی زمین پر کوئی ہاوسنگ سوسائٹی نہیں بنائی جاسکتی، ہاکس بے پر جتنے مکان سمندر کے ساتھ بنے ہوئے ہیں وہ قبضہ ہے۔

بعد ازاں عدالت نے تمام مقدمات کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی۔

Read Comments