Dawn News Television

اپ ڈیٹ 26 جون 2020 07:24pm

لاہور ہائیکورٹ نے جنسی زیادتی کے مقدمات میں شواہد اکٹھا کرنے کیلئے رہنما اصول وضع کردیے

لاہور ہائیکورٹ نے جنسی زیادتی کے مقدمات میں شواہد اکٹھا کرنے کے لیے 15 رہنما اصول وضع کردیے۔

عدالت عالیہ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے 10 سالہ بچے سے زیادتی کے الزام میں گرفتار ملزم ایاز شمس کی ضمانت کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے اصول وضع کیے۔

ساتھ ہی عدالت نے ملزم ایاز شمس کی ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کردی۔

خیال رہے کہ ضلع فیصل آباد میں ڈجکوٹ پولیس نے ملزم ایاز شمس کے خلاف 10 سالہ بچے سے زیادتی کے الزامات پر اگست 2019 میں مقدمہ درج کیا تھا۔

عدالت کی جانب سے 11 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کو عدالتی نظیر بھی قرار دیا گیا ہے، یہی نہیں بلکہ اس فیصلے میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں شواہد اکٹھا کرنے کا طریقہ کار بین الاقوامی طرز پر طے کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: قصور: 3 سال تک نوجوان کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام، 3 افراد گرفتار

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بدفعلی اور زیادتی کے مقدمات میں شواہد اکٹھا کرنے کے لیے بنائی گئی مخصوص کٹس استعمال کرے۔

مزید یہ کہ متاثرہ فرد کے متعلقہ کپڑے اور دیگر چیزیں لازمی طور پر جنسی زیادتی کے شواہد اکٹھا کرنے والی کٹس کے لفافے میں بند کیے جائیں۔

تحریری فیصلے کے مطابق جنسی زیادتی کے مقدمے کا پس منظر معلوم کرنے کے بعد تمام شواہد اکٹھے کیے جائیں، اس کے علاوہ میڈیکو لیگل رپورٹس میں خاص طور پر جنسی زیادتی سے متعلق اکٹھے گیے گئے شواہد کی تفصیل بھی درج کی جائے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے کا طبی معائنہ (میڈیکل) کرنے والے افسر اس چیز کو لازمی دیکھے کہ زیادتی (تشدد) کیسے ہوا اور معاملے کو کتنا وقت گزر چکا۔

ساتھ ہی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ طبی معائنہ کرنے والا افسر سرٹیفکیٹ میں یہ تحریر کرے کہ جنسی زیادتی کے بعد متاثرہ فرد کی جنس، عمر اور ذہنی حالت کیا ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق جنسی زیادتی سے متاثرہ فرد اگر وقوعہ سے متعلق بتانے کے قابل نہ ہو تو متاثرہ فرد کی جسمانی کیفیت کا جائزہ لے کر مکمل شواہد اکٹھے کیے جائیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ جنسی زیادتی کے بعد متاثرہ فرد کے دانت برش کرنے، نہانے، الٹی کرنے یا پیشاب کرنے جیسا عمل کیس پر اثر ڈال سکتا ہے، جنسی زیادتی سے متاثرہ فرد کے لیے گیے نمونے انتہائی معنیٰ رکھتے ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جنسی زیادتی سے متاثرہ فرد سے تمام معلومات انتہائی احتیاط سے لی جائیں۔

تحریری فیصلے کے مطابق جنسی زیادتی یا جنسی حملے سے متاثرہ فرد کے نہانے کے بعد بھی متاثرہ جگہ سے اندرونی اور بیرونی نمونے لازمی حاصل کیے جائیں، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ متاثرہ فرد کے نہانے کے بعد بھی متاثرہ جگہ سے لیا گیا نمونہ اہمیت کا حامل ہوگا۔

فیصلے کے متن میں لکھا گیا کہ متاثرہ فرد کے جسم پر استعمال ہونے والے ٹشو پیپرز اور کپڑے وغیرہ کو بھی لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی شواہد کا حصہ بنایا جائے، اس کے علاوہ متاثرہ فرد سے حاصل کپڑوں اور ٹشو پیپرز کو ڈی این اے تجزیے کے لیے لازمی بھجوایا جائے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ متاثرہ فرد کے جسم سے نمونے حاصل کرتے ہوئے سویبز (Swabs) پر نمبر بھی لگائے جائیں، یہی نہیں بلکہ متاثرہ فرد کے جسم سے نمونے حاصل کرنے کے لیے صرف اسٹرلائنزڈ سویبز کا استعمال ہی کیا جائے۔

تحریری فیصلے میں وضع کیا گیا کہ جنسی زیادتی کے متاثرہ فرد کے جسم سے لیے گئے نمونے کے سویبز کو ہوا میں خشک کیا جائے پھر اسے کٹ میں پیک کیا جائے۔

عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ متاثرہ فرد کے کپڑوں پر لگے خون کو بھی پہلے خشک کیا جائے اور پھر فرانزک کے مخصوص لفافوں میں بند کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے بچوں سے جنسی زیادتی کا مجرم برطانیہ کے حوالے کردیا

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ سائنسدان اور وکلا متفق ہیں کہ ڈی این اے اور فنگر پرنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے انتہائی اہمیت کے حال ہیں، مزید یہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں بھی انصاف کی فوری فراہمی میں ڈی این اے کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق جنسی زیادتی کے کیسز میں فرانزک سائنس ایجنسی کے ایس او پیز کے تحت نمونے حاصل نہ کرنے والے محکمہ صحت کے افسران کے خلاف کارروائی نہ کرنا مایوس کن ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے کے ذریعے یہ بھی کہا کہ محکمہ صحت پنجاب، جنسی زیادتی اور قتل کے مقدمات میں نمونے حاصل کرنے کے لیے ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔

ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ وضع کردہ اصولوں پر عملدرآمد نہ کرنے والے میڈیکل افسران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

Read Comments