کیا فیس ماسک کو پہننا جسم میں آکسیجن کی کمی کا باعث بنتا ہے؟
جاپان اور چین جیسے ممالک کے برعکس جہاں عرصے سے فیس ماسک کا استعمال عام ہوچکا ہے، پاکستان اور دیگر ممالک میں چہرے کو کپڑے سے ڈھانپنا نیا معمول بن رہا ہے تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو محدود کیا جاسکے۔
منہ اور ناک کو ڈھانپنے کے حوالے سے اکثر افراد کو لگتا ہے کہ فیس ماسک سے جسم کو آکسیجن کی کمی یا منہ سے خارج سانس کو ہی دوبارہ اندر کھینچنے کا امکان ہوتا ہے۔
مگر ایسا کچھ بی نہیں ہوتا اور اس کے پیچھے سائنسی وجوہات ہیں۔
لوز فٹنگ سرجیکل ماسک اور کپڑے کے ماسکس مسام دار ہوتے ہیں، ہوا ان میں آسانی سے آرا پار ہوجاتی ہے مگر نظام تنفس سے خارج ہونے والے ننھے ذرات کے لیے آرپار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فیس ماسک بیماری پھیلانے والے جراثیموں کی روک تھام کے لیے موثر سمجھے جاتے ہیں جو دوسری صورت میں ہوا میں موجود ہوسکتے ہیں۔
ماسک پہننے سے ہوسکتا ہے کہ ایسا محسوس ہو کہ ہوا کا بہاؤ کم ہوگیا ہے، جس سے شریانوں میں آکسیجن یا جسمانی ٹشوز میں آکسیجن کی کمی ہورہی ہے۔
مگر فیس ماسکس سے ہوا کی آمدورفت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ یہ پہننے والا کا نفسیاتی احساس ہوتا ہے کہ سانس لینے میں مشکل ہورہی ہے یا کم ہوا جسم کے اندر جارہی ہے جبکہ آکسیجن کی سطح بی متاثر نہیں ہوتی۔
ایک اور خدشہ دوران خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بہت زیادہ بڑحنے کا ہوتا ہے جس سے غنودگی، سردرد اور سنگین کیسز میں بے ہوش ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
ایسا سوچا جاتا ہے کہ فیس ماسک پہننے والے خارج کی جانے والی سانس کو ہی دوبارہ کھینچتے ہیں مگر اب تک ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جو اس خیال کو درست ثابت کرتا ہو۔
صحت مند افراد کچھ مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو واپس کھینچ سکتے ہیں مگر یہ ان کے لیے خطرہ نہیں ہوتا، کیوکہ تنفس اور میٹابولک نظام آسانی سے اس مقدار کو خارج کردیتے ہیں۔
بہت زیادہ دیر تک فیس ماسک پہننے سے ہوسکتا ہے کہ سردرد کا سامنا ہو مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔