Dawn News Television

اپ ڈیٹ 01 اگست 2021 03:39pm

'فارماسسٹ' کو صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں ضم کرنے کا حکم

پشاو: وفاقی حکومت نے صوبائی محکمہ صحت کو ہدایت کی ہے کہ وہ فارماسسٹ کو صحت کے نظام میں ضم کریں تاکہ ادویات کے مناسب و معقول استعمال اور پیچیدگیوں کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی جانب سے تمام صوبوں کے محکمہ صحت کے سیکریٹریز کو جاری کردہ ایک خط کے مطابق فارماسسٹ کو عمر، جنس دیگر طبی حالت سے متعلق نسخوں کے مطابق ادویات کی فراہمی کے لیے ہیلتھ ڈیلیوری سسٹم میں ضم کیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ‘پاکستان میں نیورو آنکولوجی کو خاصیت کے طور پر نظر انداز کیا گیا’

فی الوقت دوا سازوں کا سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں کوئی کردار نہیں، سوائے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے، جہاں معالج کلینیکل فارماسسٹ کی مداخلت اور تشخیص کے بغیر مریضوں کو ادویات نہیں دے سکتے۔

خط میں ڈریپ نے کہا کہ کلینیکل فارماسسٹ ڈاکٹروں دیگر صحت کے پیشہ ور افراد اور مریضوں کے ساتھ براہ راست کام کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مریضوں کو دی جانے والی ادویات صحت کے بہترین ممکنہ نتائج میں معاون ثابت ہوں۔

اس میں کہا گیا کہ کلینیکل فارماسسٹ مریضوں کے طبی مسائل کا جائزہ لیتے ہیں اور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ آیا تجویز کردہ ادویات بہتر طور پر ان کی ضروریات کے اہداف کو پورا کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جوڑوں کے امراض کی 5 علامات

اتھارٹی نے مزید کہا کہ کلینیکل فارماسسٹس کو تربیت دی گئی تھی کہ وہ ادویات کے انتخابات اور اس کے استعمال کا جائزہ لیں اور طبی مسائل کی تشخیص کرسکیں۔

اس میں کہا کہ فارماسسٹ تھراپی کے انتخاب پر معالجین اور دیگر صحت کی دیکھ بھال کرنے والوں سے مشورہ کرسکتے ہیں، جو مریضوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور تھراپی کے مجموعی اہداف میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فارماسسٹ مریضوں کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ بہترین ادویات کیسے لیں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والی ٹیم کی ان کوششوں کو سپورٹ کریں جو انہیں صحت کو بہتر بنانے یا برقرار رکھنے کے دیگر اہم اقدامات کے بارے میں آگاہ کریں۔

اس میں کہا گیا کہ وہ مریضوں کو معالج یا دیگر صحت کے پیشہ ور افراد کے حوالے کر سکتے ہیں تاکہ وہ صحت، فلاح و بہبود یا سماجی خدمات کے خدشات کو حل کر سکیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں ادویات سے بھی نہ ختم ہونے والے ٹائیفائڈ کا انکشاف

ماہرین صحت نے ڈان کو بتایا کہ صوبے میں طبی تدریسی اداروں میں 60 سے کم فارماسسٹ موجود ہیں لیکن مریضوں کی دیکھ بھال میں ان کا بڑا کردار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں بشمول ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں ایک ایک فارماسسٹ اور تحصیل ہسپتال میں کوئی فارماسسٹ نہیں ہے۔

ماہرین نے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اصولوں کے تحت ہر 50 بستروں والے ہسپتال میں سے ہر 10 بستروں پر ایک فارماسسٹ اور ایک کلینیکل فارماسسٹ کی سروس ہونی چاہیے لیکن مجموعی طور پر صوبے میں کوئی کلینیکل فارماسسٹ نہیں تھا۔

Read Comments