کراچی: آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) میں پاکستان سوسائٹی آف نیورو آنکولوجی (پسنو) کے مقررین نے کہا ہے کہ پاکستان میں برین ٹیومر کی تمام اقسام کے کینسر کی شرح سب سے کم ہے لیکن اس بیماری کے پھیلاؤ، علاج کے مختلف آپشنز کی کامیابی اور مریضوں کے نتائج کو بہتر بنانے کے طریقوں کے بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیورو آنکولوجی کے شعبے سے وابستہ ماہرین اور محققین نے ملک گیر سروے کے ابتدائی نتائج پر تبادلہ خیال کیا جس میں 50 کے قریب مراکز سے اعداد و شمار جمع کیے گئے اور 10 ہزار مریضوں کے علاج کا جائزہ لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں مریض کو بے ہوش کیے بغیر برین ٹیومر کا کامیاب آپریشن

ابتدائی نتائج کے مطابق ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں اتنے 'ہائی گریڈ' برین ٹیومر نہیں ہیں تاہم دماغی کینسر کے مریض مغرب کی نسبت کم عمر کے ہوتے ہیں۔

پسنو کے صدر اور اے کے یو کے شعبہ سرجری کے سربراہ پروفیسر سید اطہر نے کہا کہ پاکستان میں نیورو آنکولوجی کو خاصیت کے طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے مریضوں کو تاخیر سے کیئر ملتی ہے بلکہ ہماری ٹیموں کی صلاحیتیں بھی کم رہتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ دماغ کے ٹیومر میں مبتلا مریضوں کی ایک بڑی تعداد بکھری ہوئی ہے اور انہیں مستقل علاج میسر نہیں ہے۔

پروفیسر سید اطہر نے کہا کہ اس سروے سے پاکستان میں دماغی کینسر کے اصل اسباب کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: موٹاپا بڑھا دیتا ہے برین ٹیومر کا خطرہ؟

انہوں نے زور دے کر کہا کہ بڑی تعداد میں برین ٹیومر کے مریضوں کو سرجری، ریڈیو تھراپی اور کیموتھراپی درکار ہوتی ہے اگرچہ ان مختلف طریقوں سے مختلف مراکز میں علاج معالجہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے سب سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے ایک مرکز کی ضرورت ہے۔

اجلاس میں شعبہ نیورو آنکولوجی میں ہونے والی نئی پیشرفت بشمول صحت سے متعلق ادویات، تشخیص، آپریٹو تکنیک اور ٹیکنالوجی کی دستیابی اور ٹیومر کی تشخیص کو بہتر بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کی صلاحیت بھی تبادلہ خیال ہوا۔

تین روزہ ورچوئل سمپوزیم میں 13 ممالک کے 50 سے زیادہ مقررین نے شرکت کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں