Dawn News Television

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2021 12:16pm

’وزیراعظم نے ٹی ایل پی کےخلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دی، فوجی قیادت نے مخالفت کی‘

حکومت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مندرجات آئندہ 10 روز میں منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے سامنے آنے والی تازہ ترین تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دینے کے برعکس فوجی قیادت نے اس کی مخالفت کی۔

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے دوران سیاسی قیادت کو آن بورڈ لینے کے بعد حکومت نے اصولی طور پر ٹی ایل پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن جب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا اسے اس وقت تک خفیہ رکھا گیا۔

بریفنگ کے شرکا نے ڈان کو بتایا کہ سینئر فوجی حکام نے انہیں آگاہ کیا کہ یہ معاہدہ کس طرح ہوا اور اسے اتنے عرصے تک خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’حکومت، ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، نگرانی کیلئے کمیٹی قائم‘

ان عہدیداروں کے مطابق اس کا بنیادی مقصد ٹی ایل پی کے مظاہرین کو سڑکوں سے ہٹانا تھا تاکہ صورتحال معمول پر آسکے۔

اس تناظر میں اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ ابتدا میں ہی معاہدے کی تفصیلات سامنے آنے سے ایک عوامی بحث جنم لے سکتی ہے جس سے اس کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی تھی جو احتجاج ختم کرنے سے منسلک تھا۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اب جبکہ ٹی ایل پی نے احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پورا معاہدہ منظرِ عام پر لایا جائے گا۔

تاہم معاہدہ طے پانے سے قبل یہ معاملہ نازک تھا کہ ان مظاہرین سے کس طرح نمٹا جائے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے راستے میں کھڑی کی گئی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہے تھے۔

تیزی سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹی ایل پی کے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی سے 'غیر معقول' معاہدہ کرنے پر اپوزیشن کی حکومت پر تنقید

جب یہ اجازت مل گئی تو فوجی قیادت نے آپریشنل پہلوؤں اور ہجوم کے خلاف طاقت کے استعمال کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لیا۔

انہوں نے حساب کتاب لگایا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال میں کیا کیا شامل ہوگا اور اگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے منتشر ہونے سے انکار کرنے والوں پر گولی چلا دیتے تو کتنا جانی نقصان ہو سکتا تھا۔

قیادت نے اس جائزے میں ہلاکتوں کے ممکنہ ردِعمل اور رائے عامہ پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کو بھی شامل کیا۔

پارلیمانی بریفنگ کے دوران فوجی قیادت نے ان میں سے کچھ معلومات شرکا کے ساتھ شیئر کی تھیں لیکن اب بہت واضح تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔

ذرائع کے مطابق 29 اکتوبر کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹی ایل پی کے خلاف طاقت کے استعمال کے مضمرات اور فوائد سامنے رکھے۔

اس اجلاس میں شریک افراد نے اس بات کی تصدیق کی کہ آرمی چیف نے کہا تھا کہ اگر فیصلہ ساز ٹی ایل پی کے خلاف طاقت کے استعمال کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں تو فوج حکم پر عمل کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی سے ’امن‘ معاہدہ کن شرائط پر؟ تفصیلات ظاہر نہ کرنے پر سیاستدانوں، صحافیوں کی تنقید

تاہم ساتھ ہی شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کے گزشتہ واقعات، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور لال مسجد کا حوالہ دیا گیا اور اجلاس کے شرکا کو دونوں واقعات کے نتائج یاد کرائے گئے۔

تاہم جب یہ ملاقات ہوئی تھی تو حکومت پہلے ہی سخت رویہ اختیار کر چکی تھی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس میں کہا تھا کہ حکومت کسی کو قانون ہاتھ میں لینے اور ریاست کی رِٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

وزیر اطلاعات نے ٹی ایل پی کو ایک ’عسکریت پسند‘ تنظیم قرار دیا تھا جس کے بھارت سے روابط تھے۔

تاہم فوجی قیادت نے طاقت کے استعمال کے خلاف مشورہ دیا اور کہا کہ یہ کوئی حل نہیں ہے۔

ذرائع نے کہا کہ اس کے بعد 'خونریزی سے بچنے' کے لیے مذاکراتی تصفیہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہ اس وقت ہوا جب مفتی منیب الرحمٰن کی جانب سے نشاندہی کی گئی جو ایک سینیئر بریلوی عالم کے طور پر اپنے مؤقف کے پیش نظر معاہدے کے سلسلے میں ثالثی کا کردار ادا کرسکتے تھے، چنانچہ انہیں کراچی سے لایا گیا اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

محاورتاً تو یہ تاریخ ہو سکتی ہے لیکن حقیقت میں معاہدے کی سیاہی ابھی تک خشک نہیں ہوئی۔

مذاکرات میں شامل سینیئر حکام کو یقین ہے کہ معاہدہ 'بالکل ریاست کے حق میں' ہے اور یہ کہ ٹی ایل پی کے پاس دوبارہ پرتشدد مظاہروں کی طرف لوٹنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔

ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات آئندہ 10 روز میں سامنے آنے کی توقع ہے جس سے ممکنہ طور پر ایک بحث شروع ہوجائے گی جس میں اس بات کا جائزہ شامل ہو سکتا ہے کہ حکومت کو دستیاب مشکل آپشنز کی روشنی میں فیصلے کس طرح کیے گئے، تبدیل کیے گئے اور آخر کار ان پر عمل درآمد کیا گیا۔

کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات

فوجی قیادت کی جانب سے پیر کی بریفنگ میں شریک افراد کو کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی صورتحال سے بھی آگاہ کیا گیا جو کہ حالیہ دنوں موضوع بحث ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے بریفنگ کے بعد تصدیق کی تھی کہ جب تک یہ مذاکرات ایک معاہدے تک پہنچنے کی کوشش میں آگے بڑھ رہے ہیں، حکومت اور ٹی ٹی پی نے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

تاہم حکومت پاکستان ان مذاکرات میں کس طرح اور کیوں داخل ہوئی اس کا سیاق و سباق بھی عیاں ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہوگیاہے، فواد چوہدری

اعلیٰ ترین ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کا خیال ہے کہ اس کے پاس بہتر پوزیشن کے ساتھ ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کے لیے 6 سے 8 ماہ کا وقت ہے۔

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں پاکستان کی ’ریڈ لائنز‘ واضح ہیں۔

ٹی ٹی پی کو ملک کے آئین اور قوانین کو تسلیم کرنا ہوگا اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ جو افراد سنگین جرائم میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی اور صرف معمولی جنگجوؤں کو رہا کیا جائے گا۔

اعلیٰ ترین ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ایک اور اہم پیش رفت میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ افغانستان میں امریکیوں کے چھوڑے گئے مہلک ہتھیار ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگیں، پاکستان، طالبان حکومت سے ان ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ واپس خرید رہا ہے۔

مزید پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی سے یکطرفہ مذاکرات پر حکومت تنقید کی زد میں

ایک اندازے کے مطابق امریکی افواج نے اپنے پیچھے تقریباً 2 لاکھ مہلک ہتھیار چھوڑے ہیں۔

طالبان کو پیسے کی ضرورت ہے اور پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو ہتھیاروں تک رسائی حاصل نہ کر سکیں ہر ممکن کوشش کرنا چاہتا ہے۔

ان ذرائع کے مطابق پاکستان پہلے ہی ان ہتھیاروں کی بڑی تعداد خرید چکا ہے جو ایف سی جیسے نیم فوجی دستوں کو دیا جاسکتا ہے۔

ایسے میں کہ جب انٹیلی جنس افسران ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، فوجی قیادت نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی بریفنگ کے شرکا کو بتایا کہ جب بنیادی معاہدہ طے پاجائے گا تو اسے حتمی منظوری کے لیے سیاسی قیادت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کے باضابطہ طور پر دستخط کرنے سے پہلے اس پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی قیادت نے معاہدے کو مسترد کیا تو فوج، ٹی ٹی پی کے خلاف متحرک کارروائیوں پر واپس آجائے گی۔

دوسرے ذرائع کا کہنا تھا کہ ’تاہم تنازعات عموماً میز پر حل ہوتے ہیں، آئندہ 6 ماہ میں افغانستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے‘۔

Read Comments