وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مکمل جنگ بندی پر آمادہ ہو چکے ہیں۔

سرکاری ٹی وی ‘پاکستان ٹیلی ویژن’ نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے حوالے سے کہا کہ ‘کالعدم تحریک طالبان سے آئین پاکستان کے تحت مذاکرات ہورہے ہیں، معاہدے کے تحت مکمل جنگ بندی پر آمادگی ہوچکی ہے’۔

مزید پڑھیں: عارضی جنگ بندی کیلئے حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں مفاہمت

انہوں نے کہا کہ ‘پیش رفت کو سامنے رکھتے ہوئے جنگ بندی میں توسیع ہوگی’۔

وزیراطلاعات ونشریات نے میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘مذاکرات میں ریاست کی حاکمیت، ملکی سلامتی، متعلقہ علاقوں کا امن، معاشرتی اوراقتصادی استحکام کو ملحوظ خاطررکھاجائےگا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘افغان عبوری حکومت نےمذاکرات میں کردار ادا کیا، وزیراعظم عمران خان نے تحریک طالبان سے مذاکرات کا تذکرہ بھی کیا تھا’۔

قبل ازیں ایک ترک نیوز چینل کو گزشتہ ماہ انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ان کی حکومت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کررہی ہے تا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور معافی کے بدلے صلح کر کے عام شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'ٹی ٹی پی کے چند گروپس ہم سے مصالحت کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم ان گروپس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے اور ہم ان میں سے چند کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور مصالحت کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں'۔

عارضی جنگ بندی کیلئے حکومت اور ٹی ٹی پی میں مفاہمت

گزشتہ ہفتے ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی حکام کی ملک میں تقریباً 2 دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کے خاتمے کی غرض سے ایک وسیع تر امن معاہدہ کرنے کے لیے کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ عارضی مفاہمت ہوگئی ہے۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ افغانستان کے جنوب مغربی صوبے خوست میں تقریباً دو ہفتوں سے دونوں فریقین کے درمیان براہ راست آمنے سامنے ہونے والی بات چیت جاری تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مفاہمتی عمل کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات کررہے ہیں، عمران خان

انہوں نے کہا تھا کہ بات چیت کا نتیجہ ملک بھر میں جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لیے ایک عارضی مفاہمت کی صورت میں نکلا جو اعتماد سازی کے لیے ٹی ٹی پی کے کچھ معمولی جنگجوؤں کی رہائی سے مشروط ہے۔

فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پاکستان کی حراست میں موجود کتنے عسکریت پسندوں کو رہا کردیا جائے گا البتہ ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کی تعداد 2 درجن سے زیادہ نہیں۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا تھا کہ ’یہ معمولی جنگجو ہیں سینیئر یا درمیانی درجے کے کمانڈرز نہیں ہیں، ہم زمینی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور محتاط ہیں‘۔

نام نہ بتانے کی شرط پر ذرائع نے مزید کہا تھا کہ ’جب زیر حراست افراد رہا ہوجائیں گے تو جنگ بندی عمل میں آئے گی‘۔

ان کا کہنا تھا عارضی طور پر کی جانے والی ایک ماہ کی جنگ بندی میں توسیع اس بات پر منحصر ہے کہ مذاکرات کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور دونوں فریقین کو آمنے سامنے بات چیت کے لیے ایک چھت تلے لے کر آئے۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی دہشت گردی ترک کرکے ہتھیار ڈالے تو حکومت معافی کیلئے 'تیار' ہے، وزیر خارجہ

ذرائع کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات براہِ راست سینیئر افسران اور ٹی ٹی پی کی سینیئر قیادت کے درمیان ہوئے، جس میں ٹی ٹی پی کے تمام گروہ شامل تھے، اس ضمن میں بہت سی تجاویز سامنے رکھی گئیں اور دونوں فریقین قابل عمل حل نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں‘۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ ٹی ٹی پی قیادت سے مذاکرات میں فی الوقت کسی قبائلی ثالث سے رابطہ نہیں کیا گیا، انہیں مناسب وقت پر شامل کیا جائے۔

یاد رہے کہ ستمبر میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ جو کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے اراکین جرائم میں ملوث نہیں اور ٹی ٹی پی کے نظریات کو چھوڑ کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہے تو حکومت عام معافی کا سوچ سکتی ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے افغان طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہمارے لیے خطرہ ہے، ان کی تیسری یا چوتھی صف کے رہنماؤں کی طرف سے یہ بات ہوئی ہے کہ وہ کہیں گے ہمارے پاس رہیں مگر پاکستان کے خلاف کوئی حرکت نہ کریں'۔

اس انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ 'پاکستان کی حکومت نے کہا کہ جو ہتھیار ڈال کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، ان کو تسلیم کرتے ہوئے، پاکستان بھی سوچے گا کہ ان کو ایمنسٹی دے یا نہ دیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک قدم ہے، پاکستان عام معافی کا سوچے گا، اگر کوئی ہتھیار ڈالتا ہے'۔

ایک سوال پر صدر مملکت نے کہا تھا کہ 'میں کسی کا نام نہیں لے رہا، پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کریمنل سرگرمیوں میں نہیں رہے ہوں، ٹی ٹی پی والا نظریہ چھوڑ کر پاکستان کے آئین کی پابندی کرنے کے اعتبار سے آنا چاہیں تو حکومت سوچ سکتی ہے کوئی معافی کا اعلان کرے'۔

یہ بھی پڑھیں: جو ٹی ٹی پی اراکین جرائم میں ملوث نہیں، آئینِ پاکستان کے تحت چلنا چاہے تو عام معافی کا سوچ سکتے ہیں، صدر مملکت

جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کہا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے اراکین کو معاف کرنے کے لیے حکومت اس وقت 'تیار' ہوگی، اگر وہ وعدہ کریں کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے اور آئین پاکستان کو تسلیم کریں۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو ان خبروں پر تشویش تھی کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو طالبان کے قبضے کے بعد جیلوں سے رہا کیا جارہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اگر افغان حکومت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتی ہے اور ٹی ٹی پی سے بات کرے اور اگر 'ٹی ٹی پی قانون اپنے ہاتھ میں نہ لے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو، حکومت اور آئین پاکستان کی رٹ کے سامنے ہتھیار ڈالے تو ہم یہاں تک ان کو معافی کے لیے تیار ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب تک وہ نہیں آتے اور پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں ختم نہیں ہوتیں اس وقت تک ہمیں تشویش ہے'، اگر وہ رہائی کے بعد یہاں ہمارے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں تو اس سے معصوم لوگوں کی جانوں پر اثر پڑے گا اور ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں