ٹی ایل پی سے ’امن‘ معاہدہ کن شرائط پر؟ تفصیلات ظاہر نہ کرنے پر سیاستدانوں، صحافیوں کی تنقید

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2021
پی پی پی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے حکومت سے معاہدے کی تفصیلات جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ —فائل فوٹو: اے پی
پی پی پی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے حکومت سے معاہدے کی تفصیلات جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ —فائل فوٹو: اے پی

متعدد سیاست دانوں اور صحافیوں نے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر خاموش رہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ معاہدہ کالعدم گروپ کے کارکنوں کے تقریباً دو ہفتوں کے مظاہروں کے بعد سامنے آیا جس میں کم از کم 5 پولیس اہلکاروں کی جانیں گئیں اور 250 سے زائد دیگر زخمی ہوئے۔

مزیدپڑھیں: ٹی ایل پی سے 'غیر معقول' معاہدہ کرنے پر اپوزیشن کی حکومت پر تنقید

وزیر آباد میں مظاہرین نے تیسرے دن بھی ڈیرے ڈالے رکھے، حکومت نے اتوار کو اعلان کیا کہ اس نے کالعدم گروپ کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے لیکن اس معاہدے کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔

حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ تفصیلات ’مناسب وقت‘ پر منظر عام پر لائی جائیں گی۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ’مثبت نتائج‘ اگلے ہفتے یا اگلے 10 دنوں کے دوران قوم پر ظاہر ہوں گے۔

اس پیش رفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پی پی پی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے حکومت سے معاہدے کی تفصیلات جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام اور پارلیمنٹ کو رات کی آڑ میں کیے گئے معاہدے سے آگاہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں:'ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ مکمل ہو گیا'

انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لوگوں کو ایک کالعدم گروہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے بارے میں جاننے کا حق ہے جس کی وجہ سے جان و مال کا نقصان ہوا اور ہفتوں تک شہریوں کی زندگی اجیرن رہی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ معلوم کیا جائے کہ کیا پنجاب پولیس اہلکاروں کی شہادت رائیگاں گئی اور کیا قصورواروں کو سزا ملے گی۔

وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر نے میڈیا اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مطالبہ کیا کہ وہ پی ٹی آئی حکومت سے پوچھیں کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو باضابطہ طور پر گرفتار کیوں نہیں کیا گیا، اگر یہ گروپ کالعدم، ایک دہشت گرد تنظیم ہے، اور اس کے اقدامات ریاستی مفادات کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اہل سنت والجماعت کی من مانی نظر بندی کا اسکرپٹ کیوں دہرایا جا رہا ہے؟

جبران ناصر نے کہا کہ ہمارے بہادر پولیس افسران بغیر کسی وجہ کے مر رہے ہیں، یہ ریاست اور اس کی پالیسیاں ان کی قربانیوں کی توہین ہیں۔

انہوں نےمزید کہا کہ ٹی ایل پی کو برقرار رکھا جائے گا تاکہ سیاسی انتشار ہو، جو پنجاب میں ایک آلہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے یا جب اسٹیبلشمنٹ چاہے۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی معاہدے اور ’مناسب وقت‘ پر تفصیلات ظاہر کرنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت کسی تنظیم پر پابندی لگانے اور اس کے رہنماؤں کو کالعدم قرار دینے کے بعد، تنظیم اور اس کے رہنماؤں کی حمایت میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کے ساتھ امن کن شرائط پر؟

سابق رکن قومی اسمبلی ارم عظیم فاروق نے کہا کہ یہ کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ ایک اور معاہدہ تھا جسے حکومت نے چند روز قبل بھارت کی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیم قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وردی میں ملبوس مرد اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے اس عسکریت پسند گروپ کے ہاتھوں مارے گئے، اپنے مطالبات ماننے میں کتنی شرم کی بات ہے۔

نیویارک ٹائمز کے نمائندے سلمان مسعود نے کہا کہ یہ کئی دنوں تک گرم اور سرد اڑانے کے بعد ایک اور سر تسلیم خم ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’لیکن اس مرتبہ شرمندگی ایسی ہے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کی صحیح تفصیلات بھی منظر عام پر نہیں لائی گئیں‘۔

انہوں نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ عام شہریوں کی مصیبت تھوڑی سی ختم ہو جائے گی، سڑکیں صاف ہو جائیں گی، کاروبار دوبارہ شروع ہو جائیں گے اور معمولات زندگی بحال ہوگی لیکن اگلے بحران تک۔

معروف ٹی وی اینکر پرسن اور تجزیہ کار ڈاکٹر معید پیرزادہ نے سوال اٹھایا کہ ریاست نے ایک ایسے گروہ کے سامنے کیسے ہتھیار ڈال دیے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کی جانب سے فنڈنگ کی جا رہی تھی۔

27 اکتوبر کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے واضح طور پر کہا تھا کہ ٹی ایل پی کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس کے ساتھ مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک ’عسکریت پسند‘ گروپ سمجھا جائے گا۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں کو بھارت اور کچھ دوسرے ممالک سے ’سوشل میڈیا کی مدد‘ مل رہی ہے۔

سابق رکن اسمبلی اور سماجی کارکن بشریٰ گوہرنے کہا ’ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے جس پر مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی مالی اعانت کا الزام لگایا گیا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں