Dawn News Television

اپ ڈیٹ 12 فروری 2022 02:12pm

سپریم کورٹ نے عالمی ادارہ صحت کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دے دیا

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے حکم کو کالعدم قرار دے دیتے ہوئے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی 2010 کے سیلاب کے بعد امدادی کاموں کے لیے ملک میں لائی گئی گاڑیوں کی کسٹم کلیئرنس سے مستثنیٰ قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے فیصلے میں مشاہدہ کیا گیا کہ مختلف قوانین کی سفارتی اور ریاستی استثنیٰ کی شقوں کے دائرہ کار، حدود اور حد کے تعین پر مزید غور و خوض کی ضرورت ہے۔

درخواست ڈبلیو ایچ او اسلام آباد کی جانب سے اپنے وکیل چوہدری محمد اشرف گجر کے توسط سے ملٹی لاجسٹک سروسز راولپنڈی کے محمد انصار اقبال کے خلاف دائر کی گئی تھی۔

فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ مذکورہ معاملہ عدالت سے باہر طے پایا تھا تو ریاستی سفارتی استثنیٰ کے معاملے پر فیصلہ دینا ایک اکیڈمک مشق ہے۔

سپریم کورٹ کا اپنے حکم میں واضح کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ آئی ایچ سی کے22 مارچ 2021 کو اس کیس میں سنائے گئے کے حکم کی آئین کے آرٹیکل 201 (ماتحت عدالتوں پر ہائی کورٹ کا پابند ہونے کا فیصلہ) کے تحت عدالتی نظیر کے طور پر کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:غیر ملکی آمدنی کے اسٹیٹمنٹس پر سندھ ہائیکورٹ کا حکم امتناع معطل

جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے گزشتہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ مدعا علیہ (انصار اقبال) نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا ہے، لیکن اس کیس میں مختلف قوانین کی سفارتی اور ریاستی استثنیٰ کی شقوں پر مزید غور و خوض کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل ڈبلیو ایچ او اسلام آباد کے وکیل نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ تھا کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی تجارتی قانون یو این سی آئی ٹی آر اے ایل اور متعلقہ ثالثی قوانین کے تحت مفاہمت کے قواعد کے مطابق فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں شامل عمومی شرائط کی شق 16 کی روشنی میں ہائی کورٹ یا سول کورٹ کے پاس تنظیم کے خلاف درخواست سننے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے 2011 میں ملٹی لاجسٹک سروسز راولپنڈی کے انصار اقبال سے درخواست کی تھی کہ وہ 2010 کی قدرتی آفت کے بعد خیبر پختونخوا میں امدادی کارروائیوں کے لیے 31 ایمبولینسوں اور 6 بکتر بند گاڑیوں کے لیے کسٹم کلیئرنس دیں۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ: حکومت سندھ کا کم از کم اجرت 25 ہزار کرنے کا نوٹیفکیشن معطل

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے ایمبولینسں، خاص طور پر بکتر بند گاڑیاں ہنگامی حالات میں پاکستان کے عوام کے خصوصی مفاد اورامدادی کارروائیوں کے لیے خریدی تھیں اور ان کا مقصد کسی بھی قسم کی تجارت نہیں تھا۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے ڈبلیو ایچ او نے 25 مارچ 2011 کو مدعا علیہ کو تمام مطلوبہ دستاویزات فراہم کیں اور اس لیے جواب دہندہ 26 مارچ 2011 سے لے کر 14 مئی 2011 تک کراچی پورٹ سے ایمبولینسز کی بحالی تک اسے روکے جانے کے اخراجات کا ذمہ دار تھا۔

ڈبلیو ایچ او کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ تنظیم نے تمام رسیدوں پر بخوبی غور کیا اور اندازہ لگایا کہ گاڑیوں کو بحال کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے لیے درخواست دہندہ ذمہ دار تھا۔

ڈبلیو ایچ او کے وکیل نے الزام لگایا کہ مدعا علیہ نے دھوکا دہی سے انوائس میں3 لاکھ 44 ہزار روپے کی اصل رقم کو 14 لاکھ 40 ہزار میں تبدیل کیا۔

Read Comments