Dawn News Television

اپ ڈیٹ 09 جون 2022 05:04pm

عامر لیاقت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ایک نظر

رکن قومی اسمبلی اور معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین خالق حقیقی سے جاملے۔

ڈی آئی جی شرقی مقدس حیدر نے عامر لیاقت کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رکن اسمبلی کی رات میں طبیعت بگڑ گئی تھی اور آج صبح حالت زیادہ خراب ہونے پر ان کو آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔

مزید پڑھیں: رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین انتقال کر گئے

ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ رمضان ٹرانسمیشن کے مقبول ترین اینکر پرسن کی حیثیت سے مشہور ڈاکٹر عامر لیاقت کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے اور انہیں بے انتہا کامیابیوں کے ساتھ ساتھ چند مایوس کن لمحات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

ان کی نجی، سیاسی اور پیشہ ورانہ زندگی کی کچھ تفصیلات یہاں پیش خدمت ہیں۔

مشکلات سے دوچار نجی زندگی

عامر لیاقت کی نجی زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی اور ان کی تینوں شادیاں ہی ختم ہوگئی تھیں۔

عامر لیاقت نے پہلی شادی ڈاکٹر بشریٰ سے کی تھیں، جن سے ان کے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں، جن کی عمریں 20 سال سے زائد ہیں۔

ان کی ڈاکٹر بشریٰ کے ساتھ طویل رفاقت رہی تاہم کچھ نجی مسائل کے سبب دونوں میں علیحدگی ہوگئی تھی اور ڈاکٹر بشریٰ اقبال نے دسمبر 2020 میں تصدیق کی تھی کہ عامر لیاقت نے انہیں طلاق دے دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عامر لیاقت کی سابقہ اہلیہ نے طلاق کی تصدیق کردی

عامر لیاقت نے دوسری شادی ماڈل و اداکارہ طوبیٰ انور سے جولائی 2018 میں کی تھی جو ان سے کئی سال کم عمر تھیں اور دونوں کی شادی 4 سال سے بھی کم عرصے تک چلی۔

گزشتہ سال فروری میں طوبیٰ انور نے تصدیق کی تھی کہ انہوں نے عامر لیاقت سے خلع لے لی ہے، تاہم عامر لیاقت مسلسل اس کی تردید کرتے رہے۔

عامر لیاقت نے تیسری شادی فروری 2022 میں بہاولپور کی 18 سالہ لڑکی دانیہ شاہ سے کی تھی، جنہوں نے چند ہی ماہ بعد مئی کے آغاز میں خلع کے لیے مقامی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

دانیہ شاہ کی جانب سے خلع کے لیے درخواست دائر کرنے کے بعد عامر لیاقت نے ان کی مبینہ آڈیو اور بعد ازاں دانیہ شاہ نے بھی عامر لیاقت کی مبینہ آڈیو اور ویڈیوز لیک کی تھیں اور دونوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی لگائے تھے۔

مزید پڑھیں: پہلی بیویوں کو طلاق دی، نہ خلع کے کاغذات پر دستخط کیے، عامر لیاقت

بعد ازاں عامر لیاقت نے ہار تسلیم کرتے ہوئے دانیہ شاہ سے معافی مانگتے ہوئے پاکستان چھوڑ جانے کا اعلان کیا تھا، تاہم انہوں نے ملک چھوڑنے کی تاریخ نہیں دی تھی۔

سیاسی کیریئر

عامر لیاقت حسین کے والد شیخ لیاقت حسین کے ساتھ ساتھ ان کی والدہ محمودہ بیگم سیاسی طور پر مسلم لیگ (ن) سے وابستہ رہے، تاہم 90 کی دہائی میں انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

نوجوانی میں اے پی ایم ایس او کا حصہ رہنے کے ساتھ ساتھ عامر لیاقت نے ایم کیو ایم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

یہ بھی پڑھیں: عامر لیاقت کا ایک مرتبہ پھر متحدہ چھوڑنے کا اعلان

والد کے کوٹے پر سیاست میں قدم رکھنے والے عامر لیاقت نے 2002 میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور کا منصب بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

اس دوران وہ اپنے کچھ بیانات اور مختلف نجی پروگراموں کے دوران شعلہ بیانی پر بھی تنقید کی زد میں رہے بالخصوص چند متنازع بیانات پر مذہبی حلقوں نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

یاد رہے کہ عامر لیاقت کو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر 2008 میں ایم کیو ایم سے نکال دیا گیا تھا، تاہم ان کی پارٹی رکنیت کچھ سال بعد بحال کردی گئی تھی۔

ایک عرصے تک وہ سیاست سے کنارہ کش رہے اور اس دوران مختلف نجی چینلز پر مختلف پروگرامات بالخصوص رمضان ٹرانسمیشن کی وجہ سے عوام و خواص میں مقبول رہے۔

مزید پڑھیں: عامر لیاقت اور ان کے یوٹرن

2016 میں وہ ایک مرتبہ پھر سیاست میں ماضی کی طرح سرگرم ہونے لگے اور 22 اگست 2016 کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد اسی رات رینجرز نے متحدہ کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ عامر لیاقت حسین کو بھی کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ میں قائم ان کے دفتر سے حراست میں لیا تھا، تاہم کچھ گھنٹوں کے بعد ان کو رہا کردیا گیا تھا۔

عامر لیاقت نے اگلے ہی روز ایم کیو ایم سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں اور کہا تھا کہ اب وہ کبھی سیاست میں قدم نہیں رکھیں گے۔

تاہم سیاست میں واپس نہ آنے کا فیصلہ انہوں نے جلد ہی تبدیل کر لیا تھا اور مارچ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور پھر اسی سال کراچی سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

مقبول اینکرپرسن اور مذہبی اسکالر

عامر لیاقت سیاسی شخصیت ہونے کے ساتھ میڈیا پر بھی اپنے پروگرام اور منفرد انداز کی وجہ سے عوام و خواص میں یکساں مقبول تھے۔

وہ اپنے کیریئر میں بطور اینکر جیو نیوز، اے آر وائی ڈیجیٹل، ایکسپریس نیوز اور بول نیوز سے وابستہ رہے۔

بطور نیوز کاسٹر جیو سے کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد عامر لیاقت نے عالم آن لائن نامی پروگرام میں بطور میزبان شرکت کی اور یہ پروگرام کئی سال انتہائی مقبول رہا جس میں عامر لیاقت کے انداز کے ساتھ ساتھ نعت خوانی کو بھی پسندیدگی کی سند عطا کی گئی تھی۔

جیو چھوڑنے کے بعد وہ مختلف چینلز سے وابستہ رہے لیکن بعد ازاں ان کی اصل وجہ شہرت رمضان ٹرانسمیشن تھی جس میں انہوں نے پاکستان کے ٹی وی چینلز پر طویل رمضان ٹرانسمیشن کا ٹرینڈ متعارف کرایا اور ایک عرصے تک اس شعبے میں تنہا راج کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: عامر لیاقت حسین کا ملک چھوڑ جانے کا اعلان

اس کے علاوہ انہوں نے سیاسی پروگراموں کی میزبانی کی بھی کوشش کی لیکن اس میدان میں انہیں زیادہ کامیابی نہ مل سکی اور وہ رفتہ رفتہ میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے دوبارہ سے سیاست کے میدان میں سرگرم ہو گئے۔

Read Comments