Dawn News Television

اپ ڈیٹ 11 اگست 2022 12:04pm

اقتدا میں آنے کے ایک سال بعد اصلاحات کے معاملے پر طالبان کی صفوں میں دراڑیں

افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ایک سال بعد ہی ان کی صفوں میں اس سوال پر دراڑیں پڑنا شروع ہو چکی ہیں کہ ان کے رہنما کتنی اصلاحات کو برداشت کر سکتے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اپنے پہلے دور حکومت میں حقوق اور آزادیوں کو بری طرح سلب کرنے کے لیے بدنام طالبان نے اس بار مختلف طریقے سے حکومت کرنے کا عزم کیا، کم از کم بظاہر وہ کچھ معاملات میں تبدیل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے باوجود منجمد اثاثے جاری کرنے پر اہم پیش رفت

کابل میں حکام نے ٹیکنالوجی کو قبول کر لیا ہے جبکہ کرکٹ میچ عوام سے کھچا کھچ بھرے اسٹیڈیم میں منعقد ہو رہے ہیں، طالبان حکومت کے پہلے دور میں ٹیلی ویژن پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن اب افغان عوام کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے۔

لڑکیوں کو پرائمری اسکول میں جانے کی اجازت ہے اور خواتین صحافی سرکاری ملازمین کے انٹرویوز کر رہی ہیں جبکہ نوے کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور اقتدار کے دوران یہ سب ناقابل تصور تھا۔

تجربہ کار جنگجوؤں پر مشتمل اس گروپ کے سخت گیر کارکن کسی بھی اہم اور ایسی نظریاتی تبدیلی کے خلاف ہیں جسے مغرب میں ان کے دشمنوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے افغانستان کے تجزیہ کار ابراہیم بہیس نے کہا کہ آپ کے پاس طالبان کا ایک کیمپ ہے جو اسے اصلاحات کے طور پر دیکھ رہا ہے جبکہ ایک اور گروہ کو ایسا لگتا ہے کہ یہ معمولی اصلاحات بھی بہت زیادہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: کابل ایک اور دھماکے سے گونج اٹھا، مزید 8 افراد ہلاک

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ملک کو عالمی بینکنگ سسٹم سے باہر کر دیا ہے اور بیرون ملک اربوں کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں کیونکہ وہ طالبان سے اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کسی اہم پیش رفت کے بغیر افغان عوام ہی ملک میں جاری بڑے معاشی بحران میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں ان میں سے کچھ خاندان اپنے اعضا یا اپنی نوزائیدہ بیٹیوں کو بیچنے تک پر مجبور ہو گئے۔

'قدامت پسند کٹر نظریات'

جب تجزیہ کاروں سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان اصلاحات کے قابل بھی ہیں یا نہیں تو انہوں نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ پالیسی تبدیلیاں 'ٹوکن ازم' سے کچھ زیادہ ہیں۔

واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر کے تھنک ٹینک میں افغان امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے کہا کہ کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں ہم پالیسی میں ارتقا کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں لیکن یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ ہم اب بھی ایک ایسی تنظیم کو دیکھ رہے ہیں جس نے انتہائی قدامت پسند کٹر خیالات سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: کابل میں کرکٹ اسٹیڈیم میں دستی بم دھماکا، 2 افراد جاں بحق

یاد رہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کے زیادہ تر سیکنڈری اسکول بند ہیں، بہت سی خواتین کو سرکاری کاموں سے زبردستی نکال دیا گیا ہے جب کہ بہت سی خواتین گھر سے باہر نکلنے کے حوالے سے طالبان کی جانب سے سزا دیے جانے کے خوف کا شکار ہیں۔

Read Comments