امریکا اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے باوجود منجمد اثاثے جاری کرنے پر اہم پیش رفت

اپ ڈیٹ 26 جولائ 2022
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان اثاثوں کے جارے کرنے سے متعلق اہم پیش رفت — فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان اثاثوں کے جارے کرنے سے متعلق اہم پیش رفت — فائل فوٹو: اے ایف پی

بیرون ملک ٹرسٹ فنڈ میں منجمد افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالرز کے اثاثے جاری کرنے کے لیے امریکا اور طالبان حکام نے ایک دوسرے کو تجاویز پیش کی ہیں جو کہ افغانستان کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کی طرف اشارہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق مذاکرات میں شامل تین ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے دونوں فریقین کے درمیان اختلافات اپنی جگہ برقرار ہیں، جن میں طالبان کی جانب سے بینک کے اعلیٰ سیاسی تقرریوں کو تبدیل کرنے سے انکار بھی شامل ہے، جن میں سے ایک پر امریکی پابندیاں ہیں جیسا کہ تحریک کے کئی دیگر رہنماؤں پر ہیں۔

مزید پڑھیں:افغان طالبان نے ملا عمر کی زیر زمین چھپائی گئی گاڑی نکال لی

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اقتدار پر قابض ہونے والے طالبان کی مداخلت سے بینک کو دور رکھنے جیسے اقدام سے ادارے میں اعتماد بحال ہوگا۔

منجمد کی گئے اثاثے جاری کرنے سے افغانستان کے تمام معاشی مسائل تو حل نہیں ہو سکتے مگر بیرونی امداد منقطع ہونے کی وجہ سے متاثر، خشک سالی کا سامنا کرنے والے اور جون میں آنے والے خطرناک زلزلے کا شکار ہونے والے اس ملک کو کچھ حد تک ریلیف مل سکتا ہے، کیونکہ لاکھوں افغان باشندے کھانے کے لیے کچھ نہ ہونے کے بغیر دوسری مرتبہ موسم سرما کا سامنا کر رہے ہیں۔

طالبان کے ایک حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگرچہ طالبان، ٹرسٹ فنڈ کو مسترد نہیں کرتے مگر وہ اس فنڈ کو تیسرے فریق کے ماتحت دینے کی امریکی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ بحال کیے گئے اثاثے اپنے پاس رکھے گا اور تقسیم کرے گا۔

نام ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکا، سوئٹزرلینڈ اور دیگر فریقیں کے ساتھ ایک مکانزم تشکیل دینے پر بات چیت کر رہا ہے جس میں ٹرسٹ فنڈ شامل ہوگا اور ادائیگیوں کا فیصلہ بین الاقوامی بورڈ کی مدد سے کیا جائے گا۔

امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ ممکنہ تشکیل دیے جانے والا ماڈل عالمی بینک کے زیر انتظام افغانستان تعمیرنو ٹرسٹ فنڈ ہوسکتا ہے جو کابل کے لیے غیر ملکی ترقیاتی امداد کے عطیات حاصل کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:دنیا بالخصوص مسلمان ممالک افغان حکومت کو تسلیم کریں، افغان علما کا مطالبہ

افغان مرکزی بینک کی سپریم کونسل کے رکن اور اقتصادیات کے ماہر ایک افغان نژاد امریکی پروفیسر شاہ محرابی نے کہا کہ ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

امریکی محکمہ خارجہ اور سوئٹزرلینڈ کے وفاقی محکمہ خارجہ نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا جبکہ افغان مرکزی بینک نے اس پر بات کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

طالبان کے خلاف 20 برس کی مسلسل جنگ کے بعد امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان طالبان نے گزشتہ برس اگست میں کابل پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد افغانستان سے باہر تقریباً 9 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کیے گئے تھے، جن میں امریکا میں 7 ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔

غیر ملکی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے طالبان پر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے اور کہا کہ طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کی آزادیوں کو محدود کر دیا ہے۔

تاہم عالمی برادری نے طالبان پر زور دیا ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے قبل وہ خواتین کے حقوق سمیت دیگر انسانی حقوق فراہم کرنے پر عمل کرے۔

دوسری جانب طالبان نے مبینہ ہلاکتوں کی تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلامی قوانین کے تحت افغان باشندوں کو تعلیم اور آزادی اظہار کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کریں گے۔

مثبت اقدام

طالبان کے عہدیدار اور ایک سینئر سفارت کار شاہ محرابی نے کہا کہ گزشتہ ماہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان نے افغان اثاثوں کی بحالی کے لیے ایک طریقہ کار پر امریکی تجویز پر اپنا ردعمل امریکی حکام کو پیش کیا۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فنڈز جاری کرنے سے افغانستان کو صرف عارضی ریلیف ملے گا جبکہ براہ راست غیر ملکی امداد سے ہی ریونیو اسٹریمز کی ضرورت ہے جن پر طالبان کے قبضے سے پہلے حکومتی بجٹ کا 70 فیصد خرچ ہوتا تھا۔

مزید پڑھیں: طالبان سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی پہلی مرتبہ کابل آمد، اجلاس میں شرکت

دونوں فریقین کی تجاویز کے تبادلے کو کچھ لوگ امید کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے ایک ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے جو افغان مرکزی بینک کے فنڈز کو جاری کرنے کی اجازت دے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان تک طالبان کی رسائی نہ ہو۔

واضح رہے کہ مالی امداد جاری کرنے کے حوالے سے مذاکرات لڑکیوں کے ہائی اسکول کھولنے کے اپنے وعدے سے مکرنے پر امریکا کی طرف سے دوحہ میں ہونے والی ملاقات منسوخ کرنے کے بعد ہوئے ہیں۔

سینئر سفارت کار شاہ محرابی نے کہا کہ مجموعی طور پر یہ ایک مثبت اقدام ہے کہ طالبان نے امریکی تجویز کو مسترد نہیں کیا مگر ان کو طالبان کی جوابی پیشکش نظر نہیں آئی۔

طالبان عہدیدار نے کہا کہ طالبان گروہ، امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے مقرر کردہ ٹھیکہ دار کو افغانستان کے مرکزی بینک کی اینٹی منی لانڈرنگ کے معیارات کی تعمیل کی نگرانی کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے اور نگرانی کرنے والے ماہرین افغانستان بھی جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کو خدشہ ہے کہ امریکا ایک متوازی مرکزی بینکنگ نظام تشکیل دے سکتا ہے اور وہ ڈپٹی گورنر نور احمد آغا سمیت اعلیٰ سیاسی تقرریوں کو ہٹانے کے لیے راضی نہیں ہیں جن کا نام امریکا کی طرف سے دہشت گردوں کی پابندیوں میں شامل ہے۔

امریکی حکام نے اس بات کی تردید کی کہ مجوزہ ٹرسٹ فنڈ کی رقم متوازی مرکزی بینک کی ہوگی۔

ابتدائی قسط

مذاکرات میں 3.5 ارب ڈالر کی ابتدائی قسط جاری کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی جسے امریکی صدر جو بائیڈن نے نیویارک کے فیڈرل ریزرو بینک کے پاس منجمد 7 ارب ڈالر کے افغان اثاثے میں سے افغان عوام کے فائدے کے لیے مختص کرنے کا حکم دیا ہے، جبکہ دیگر 3.5 ارب ڈالر 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر حملوں سے شروع ہونے والے طالبان کے خلاف مقدمات میں خرچ کیے جارہے ہیں مگر عدالتیں ان فنڈز کو بھی جاری کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغان طالبان کا بدترین زلزلے کے بعد منجمد اثاثے جاری کرنے کا مطالبہ

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ نے کہا تھا کہ صدر جو بائیڈن کی طرف سے مختص کیے گئے فنڈز کو ممکنہ طور پر ایک مرکزی بینک اور مفلوج بینکاری نظام کو دوبارہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کی معیشت زوال کا شکار ہو گئی ہے کیونکہ مرکزی بینک کے غیر ملکی ذخائر منجمد ہوگئے، واشنگٹن اور دیگر عطیہ دہندگان نے امداد روک دی اور امریکا نے کرنسی کی فراہمی بند کر دی جس کے بعد بینکنگ کا شعبہ تباہ ہوگیا اور افغانی کرنسی زوال کا شکار ہوگئی۔

افغانستان کی مرکزی بینک کا دعویٰ ہے کہ اس میں بہتری آئی ہے مگر ڈالر اور افغانی کرنسی کی قلت برقرار ہے جبکہ خشک سالی، کورونا جیسی عالمی وبا اور یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی قیمتوں نے انسانی بحران میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کو غیر ملکی فنڈز جاری کرنے سے اس بحران کو روکنے میں مدد ملے گی۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے سینئر کنسلٹنٹ گریم اسمتھ نے کہا کہ ایک مرکزی بینک کی ضرورت ہے جو کرنسی کی قدر کو ریگولیٹ کرے، قیمتوں کو ریگولیٹ کرے، درآمدات کے لیے لیکویڈیٹی کو یقینی بنائے۔

تبصرے (0) بند ہیں