ایمان مزاری کے ساتھ مکالمے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے گزشتہ روز مشہور سماجی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری کے ساتھ ہونے والے مکالمے سے متعلق وضاحت پیش کی ہے، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ان کے ریمارکس کو ’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘ پیش کیا گیا۔
یہ مکالمہ اس وقت ہوا تھا جب عدالت میں سماجی کارکن ماہ رنگ بلوچ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست پر سماعت جاری تھی۔
سماعت کے دوران جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے ایمان مزاری کو مبینہ طور پر انہیں ’آمریت پسند‘ کہنے پر توہینِ عدالت کی کارروائی کی تنبیہ کی تھی۔
یہ معاملہ جمعہ کو ایک اور کیس کی سماعت کے دوران دوبارہ موضوعِ بحث بنا، اس موقع پر چیف جسٹس ڈوگر نے کہا کہ ایمان مزاری ان کے لیے ’بیٹی کی مانند‘ ہیں اور وہ محض انہیں سمجھا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’بطور چیف جسٹس اور بزرگ، میں صرف انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا‘۔
جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے کہا کہ ان کے ریمارکس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور یوں ایک ’طوفان کھڑا کر دیا گیا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایمان مزاری سے مکالمے کے دوران انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ وہ ان کے فیصلوں سے اختلاف کر سکتی ہیں، مگر تنقید کو ذاتی رنگ دینے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔
بعد ازاں ہادی علی چٹھہ نے ’ایکس‘ پر پوسٹ میں برقرار رکھا کہ جج نے واقعی کل کہا تھاکہ ’ہادی صاحب، اسے سمجھائیں، جس دن میں نے پکڑ لیا نہ‘۔
انہوں نے چیف جسٹس پر دروغ گوئی اور بدسلوکی کا الزام لگایا اور پھر آج کی سماعت میں جسٹس ڈوگر کے ریمارکس کا حوالہ دیا۔
تاہم چیف جسٹس نے جمعے کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا کہ وہ ایمان مزاری کو ’قابو‘ کر لیں گے۔
آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ اگر توہینِ عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو ایمان مزاری کے کیریئر کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے یہ نہیں کہا کہ میں انہیں قابو کروں گا، یہ بات کل سے پھیلائی جا رہی ہے، ہادی صاحب وہاں کھڑے تھے، میں نے ان سے کہا کہ انہیں سمجھا دیں ورنہ میں توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کر دوں گا‘۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے ہادی علی چٹھہ نے کہا کہ جسٹس ڈوگر ’عدالتی عہدہ رکھنے کے اہل نہیں‘ اور انہوں نے ’پوری ہائی کورٹ کو یرغمال بنایا ہوا ہے‘۔
اظہار مذمت
دوسری جانب پاکستانی اداروں پر کھل کر تنقید کے حوالے سے مشہور ایمان مزاری نے گزشتہ روز سماعت کے بعد ایکس پر کہا تھا کہ ’یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ میں عدالت میں بطور ایکٹوسٹ ایمان مزاری موجود نہیں تھی، بلکہ بطور وکیل اپنے مؤکل کی وکالت کر رہی تھی اور اسی لحاظ سے پیشہ ورانہ آداب کا خیال رکھا، جیسا کہ عدالت کو بھی رکھنا چاہیے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ماہ رنگ بلوچ کا کیس کسی جج کی اپنے وکیل کے ساتھ ذاتی حیثیت میں اظہارِ رائے کی آزادی پر ناپسندیدگی یا شکایات کی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے‘۔
جمعے کو جسٹس ڈوگر کی وضاحت کے بعد ایمان مزاری نے ایک بار پھر انہیں ’ایکس‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ وہ ان کے ساتھ ہراسانی اور ’صنفی امتیاز‘ پر مبنی ریمارکس دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے چیف جسٹس نے عدالت میں مجھ سے بدسلوکی کی، مجھے ہراساں کیا اور کھلے عام دھمکی دی، آج پھر وہ صنفی تعصب پر مبنی ریمارکس دے رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہ تو ان کی بیٹی ہیں اور نہ ہی بچی، ’میں ایک پیشہ ور وکیل ہوں‘۔
بعد ازاں، ایمان مزاری نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ایک بیان میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس کی مذمت کی، انہوں نے بیان کو ایکس پر شیئر کرتے ہوئے اپنی رائے دی کہ جسٹس ڈوگر ’جج بننے کے اہل نہیں‘۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسوسی ایشن کے صدر، نائب صدر اور سیکریٹری نے جسٹس ڈوگر کے ایمان مزاری کے ساتھ رویے کی سخت مذمت کی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وکلا ’افسرانِ عدالت‘ ہوتے ہیں اور ان کا احترام اور وقار بھی اسی طرح مقدم ہے جیسے اُن معزز جج صاحبان کا جو قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ جسٹس ڈوگر کا ’آمرانہ رویہ جج کے ضابطۂ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ نہایت ضروری ہے کہ ایسے جج کو عدالتی کارروائیوں سے دور رکھا جائے‘۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم جوڈیشل کونسل پر زور دیا کہ جسٹس ڈوگر کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
دوسری جانب، خواتین وکلا کے ایک گروپ نے بھی جسٹس سرفراز ڈوگر کے ریمارکس پر مذمتی بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے چیف جسٹس کے ریمارکس کو ’صنفی امتیاز پر مبنی، دھمکی آمیز اور جج کے شایانِ شان نہ ہونے والا رویہ‘ قرار دیا۔
اس مذمتی بیان میں کہا گیا کہ جسٹس ڈوگر کے ریمارکس ’گہرے پدرشاہی رویے کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ دھمکیاں باعثِ تشویش ہیں، توہینِ عدالت کے قوانین کا مقصد جج حضرات کے لیے وکلا کے سروں پر تلوار لٹکانے کا ذریعہ بنانا نہیں انصاف کی بالادستی قائم کرنا ہے‘۔